فرشتوں اورپیغمبروں کے حقوق
چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات، قد ووزن جی جی حدید اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا وناراضگی کی پہچان ہمـیں حضراتِ انبیـاءؑ کے ذریعہ ہوئی اور ان حضرات کے پاس فرشتے وحی لایـا کرتے تھے؛ نیزبہت سے دنیوی فائدے اور نقصانات انبیـاء علیہم السلام کے واسطے سے معلوم ہوئے اور بہت سے ملائکہ ہمارے فائدے کے کاموں پر متعین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ان کاموں کو انجام دے رہے ہیں، اس لیے حضراتِ انبیـاء علیہم السلام وحضراتِ ملائکہ علیہم السلام کا حق اللہ تعالیٰ کے حق مـیں داخل ہے؛ بہرحال فرشتوں کے حقوق مـیں سے چند یہ ہیں:
حضراتِ ملائکہ علیہم السلام کے حقوق یہ ہیں
(۱)ان کے وجود کا اعتقاد رکھے۱؎
(۲)ان کو گناہوں سے پاک سمجھے۲؎
(۳)جب ان کا نام آئے تو علیہ السلام کہے۳؎
(۴)مسجد مـیں بووالی چیزیں جیسے کچا لہسن، پیـاز مولی، پان، تمباکو وغیرہ کھاکر جانے سے یـامسجد مـیں ریح خارج کرنے سے ملائکہ کو تکلیف ہوتی ہے، اس سے احتیـاط کرے اور بھی جن امور سے ملائکہ کو تکلیف ونفرت ہو ان سے بچنا ضروری سمجھے، مثلاً تصویر رکھنا، بلاضرورتِ شرعی کتا پالنا، جھوٹ بولنا، سستی کی وجہ سے جنابت ہی کی حالت مـیں پڑے رہنا کہ نماز بھی جاتی رہے، بلاضرورتِ شرعی برہنہ رہنا؛ گرچہ اکیلے مـیں ہی کیوں نہ ہو۴؎۔حوالہ
(۱)"وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَo وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَo وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَo لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَo لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ" الصافات:۱۶۵۔۱۶۹ "عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ فَتَسْتَرِقُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ فَتَسْمَعُهُ فَتُوحِيهِ إِلَى الْكُهَّانِ فَيَكْذِبُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ" بخاری، باب ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر:۲۹۷۱۔ (۲)"وَمَانَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَابَيْنَ أَيْدِينَا وَمَاخَلْفَنَا وَمَابَيْنَ ذَلِكَ وَمَاكَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا" مریم:۶۴۔ (۳)"عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّﷺ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ"بخاری، باب التشھد فی الآخرہ، حدیث نمبر:۷۸۸۔ (۴)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يَعْنِي الثُّومَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا" بخاری، باب ماجاء فی الثوم النی والبصل والکراث، حدیث نمبر:۸۰۶۔ "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا طَلْحَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ" بخاری، باب ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر:۲۹۸۶)
پیغمبروں کے حقوق
(۱)ان حضرات کی نبوت ورسالت پر اعتماد کریں۱؎
(۲)ان حضرات کی عظمت واحترام کا خیـال رکھیں۲؎
(۳)ان حضرات کی قربانیوں کو اپنے لیے نمونہ بنائیں۳؎۔حوالہ
(۱)"رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا" النساء:۱۶۵۔ (۲)"ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ" یونس:۷۴۔ (۳)"أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ" الانعام:۹۰۔
حضورﷺ کے حقوق
حضورﷺ کے احسانات ہم پر بہت زیـادہ ہیں اس لیے آپ کا حق ہم پر بہت ہے، چند حقوق یہ ہیں:
(۱)آپﷺ کی رسالت کا اعتقاد رکھے۱؎
(۲)تمام احکام مـیں آپ کی اطاعت کرے۲؎
(۳)آپ کی عظمت اور محبت کود ل مـیں جگہ دے۳؎
(۴)آپ پر درود پڑھا کرے۴؎
(۵)ہروقت ہرعمل مـیں آپ کی سنتوں کو اپنانے کی کوشش کرے۵؎
(۶)آپﷺ کا تذکرہ ہو تو آپ پر درود بھیجے۶؎۔حوالہ
(۱۔۲)"قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌo قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ" آل عمران:۳۱،۳۲۔ (۳)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ" بخاری، باب حب الرسول اللہﷺ من الایمان، حدیث نمبر:۱۳۔ (۴)"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" احزاب:۵۶۔ (۵)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا" الاحزاب:۲۱۔ (۶)"عن مالک بن الحویرث قال صعد رسول اللهﷺ المنبر فلما رقي عتبة قال آمين ثم رقي عتبة أخرى فقال آمين ثم رقي عتبة ثالثة فقال آمين ثم قال أتاني جبريل فقال يامحمد من أدرك رمضان فلم يغفر له فأبعده الله قلت آمين قال ومن أدرك والديه أو أحدهما فدخل النار فأبعده الله قلت آمين فقال ومن ذكرت عنده فلم يصل عليك فأبعده الله قل آمين فقلت آمين" صحیح ابن حبان، باب حق الوالدین، حدیث نمبر:۴۰۹۔
صحابہ واہلِ بیت کے حقوق
حضراتِ صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کو چونکہ حضور ﷺ کے ساتھ دینی اور دنیوی دونوں طرح کا تعلق ہے اس لیے آپ ﷺ کے حق مـیں اِن حضرات کے حقوق بھی داخل ہوگئے اور وہ یہ ہیں:
(۱)ان حضرات کی اطاعت کرے۱؎
(۲)ان حضرات سے محبت کرے۲؎
(۳)ان کے عادل ہونے کا اعتقاد رکھے۳؎
(۴)ان کے چاہنے والوں سے محبت اور ان سے بغض وعداوت رکھنے والوں سے بغض رکھے۴؎۔
حوالہ
(۱)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ" النساء:۵۹۔ "والصحبة مع الصحابة وأهل بيته رضي الله عنـهم بالترحم عليهم، وتقديم من قدموه، وحسن القول فيهم، وقبول قولهم في الأحكام والسنن" آداب الصحبۃ، باب الصحبۃ مع اللہ ورسولہﷺ: ۱/۱۷۴۔ (۲)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَاتَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ" ترمذی، باب فیمن سب اصحاب النبیﷺ، حدیث نمبر:۳۷۹۷۔ (۳)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَايَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ" المائدہ:۵۴۔ "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا" الفتح:۲۹۔ "وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ" التوبہ:۱۰۰۔ "عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّﷺ لَاتَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَانَصِيفَهُ" بخاری، باب قول النبیﷺ لوکنت متخذا خلیلا، حدیث نمبر:۳۳۹۷۔ (۴)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَاتَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ"ترمذی، باب فیمن سب اصحاب النبیﷺ، حدیث نمبر:۳۷۹۷۔
علماء اور مشائخ کے حقوق
علماء ظاہر وباطن مـیں سرورِعالم ﷺ کے وارث اور مسند نشین ہیں، اس لیے ان حضرات کے حقوق بھی حضور ﷺ کے حق مـیں داخل ہیں اور وہ یہ ہیں:
(۱)فقہاء مجتہدین، علمائے محدثین، اساتذہ، مشائخِ طریقت اور مصنفین دینیـات کے لیے دعائے خیر کرتا رہے۱؎
(۲)شرعی ضابطہ کے مطابق ان کا اتباع کرے۲؎
(۳)جو اِن مـیں زندہ ہوں ان سے تعظیم ومحبت سے پیش آئے، ان سے بغض، مخالفت نہ کرے۳؎
(۴)وسعت وضرورت کے بقدر ان حضرات کی مالی خدمات بھی کرتا رہے۴؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أبی الدَّرْدَاءِ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَادِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ" ترمذی، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث نمبر:۔ (۲)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ" النساء:۵۹۔ (۳۔۴)"والصحبة مع العلماء بملازمة حرماتهم، وقبول قولهم، والرجوع إليهم في المـهمات والنوازل، وتعظيم ما عظم الله من محلهم حيث جعلهم خلفا لنبيهﷺ وورثته"آداب الصحبۃ، الصحبۃمع الاخوان: ۱/۱۷۸۔
والدین کے حقوق
یہ حضرات علماء ومشائخ تو دینی نعمتوں مـیں واسطہ تھے، اس لیے ان کا حق لازم تھا، بعضے لوگ دنیوی نعمتوں کے لیے ذریعہ ہیں، ان کا حق بھی شرعاً ثابت ہے، مثلاً ماں، باپ کہ ولادت اور پرورش ان کے واسطہ سے ہوتی ہے، ان کے حقوق یہ ہیں:
(۱)ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے؛ اگرچہ کہ ان کی طرف سے کوئی زیـادتی ہو۱؎
(۲)زبان اور دوسرے اعضاء سے ان کی تعظیم کرے۲؎
(۳)شرعی کاموں مـیں ان کی اطاعت کرے۳؎
(۴)اگر ان کو ضرورت ہو تو مال سے بھی ان کی خدمت کرے؛ اگرچہ وہ دونوں کافر ہوں۴؎
(۵)ان سے دلی محبت رکھے۵؎
(۶)ان کے متعلقین اور احباب سے حسنِ سلوک کرے۶؎۔حوالہ
(۱)"وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّاتَعْبُدُوا إِلَّاإِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّايَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْكِلَاهُمَا فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" الأسراء:۲۳۔ (۲)"وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرً" الاسراء:۲۴ (۳)"عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ قَالُوا بَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ" ترمذی، باب ماجاء فی عقوق الوالدین، حدیث نمبر:۱۸۲۳۔ "لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَاالطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی إجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶۔ (۴)"عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِﷺ فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ قُلْتُ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُ أُمِّي قَالَ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ" بخاری، باب الھدیۃ للمشرکین، حدیث نمبر:۲۴۲۷۔ "والصحبة مع الوالدين ودهما بالنفس والمال" آداب الصحبۃ، الصحبۃ مع الوالدین:۱/۱۷۹۔ (۵)"والصحبة مع الوالدين ودهما بالنفس والمال" آداب الصحبۃ، الصحبۃ مع الوالدین:۱/۱۷۹۔ (۶)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ" ترمذی، باب ماجاء فی اکرام صدیق الوالد، حدیث نمبر:۱۸۲۵۔ "وحفظ عهدهما بعد الممات، وإنجاز عداتهما، وإكرام أصدقائهما" آداب الصحبۃ، باب الصحبۃ مع الوالدین:۱/۱۷۹۔
والدین مـیں کی اطاعت مقدم
جبی جائز امر کو باپ منع کرے اور ماں کرنے کا حکم دے تو چونکہ عورت خود شرعاً شوہر کی محکوم (تابع) ہے اس کا شوہر کے خلاف حکم کرنا معصیت ہے اور معصیت مـیں اطاعت نہیں ہوتی اس لیے اس صورت مـیں باپ کا حکم مانا جائیگا۔
("الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ" النساء:۳۴۔ "لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶ عن علیؓ)
ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے حقوق
(۱)ان کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتا رہے، نوافل وصدقات مالیہ کا ثواب ان کو پہنچاتا رہے۱؎
(۲)ان کے رشتہ دار اور دوست احباب کے ساتھ خدمت مالی وبدنی کرتا رہے، ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے۲؎
(۳)ان کے ذمہ قرضہ ہو تو اس کو ادا کرے۳؎
(۴)کبھی کبھی ان کی قبر کی زیـارت کرے۴؎حوالہ
(۱۔۲۔۳)"عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِيِّ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا قَالَ نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا" ابوداؤد، باب فی برالوالدین، حدیث نمبر:۴۴۷۶۔ (۴)"محمد بن النعمان، يرفع الحديث إلى النبيﷺ قال: قد ووزن جی جی حدید من زار قبر أبويه أو أحدهما في كل جمعة غفر له وكتب برا" شعب الایمان، باب فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما، حدیث نمبر:۷۶۶۱۔
دادا، دادی، نانا، نانی کے حقوق
دادا، دادی، نانا، نانی کا حکم شرعاً ماں باپ کی طرح ہے؛ لہٰذا ان کے حقوق ماں باپ کی طرح سمجھنا چاہیے؛ اسی طرح خالہ اور ماموں، ماں کی طرح، چچا اور پھوپھی باپ کی طرح ہیں۔حوالہ
("وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ" بخاری، باب کیف یکتب ہذا ماصالح فلان بن فلان وفلان بن فلان، حدیث نمبر:۲۵۰۱۔"قَالَ زِيَادُ بْنُ أَبِى سُفْيَانَ لِجَلِيسِهِ هَلْ تَدْرِى كَيْفَ قَضَى عُمَرُ فِى الْعَمَّةِ وَالْخَالَةِ قَالَ لاَ. قد ووزن جی جی حدید قَالَ إِنِّى لأَعْلَمُ خَلْقِ اللَّهِ كَيْفَ كَانَ قَضَى فِيهِمَا عُمَرُ جَعَلَ الْخَالَةَ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ وَالْعَمَّةَ بِمَنْزِلَةِ الأَبِ" دارِقطنی، باب الفرائض والسنن وغیرذلک، حدیث نمبر:۴۲۰۵۔"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ وَالْعَمَّةُ بِمَنْزِلَةِ الأَبِّ وَابْنَةُ الأَخِ بِمَنْزِلَةِ الأَخِ وَكُلُّ ذِى رَحِمٍ بِمَنْزِلَةِ الرَّحِمِ الَّتِى تَلِيهِ إِذَا لَمْ يَكُنْ وَارِثٌ ذُو قَرَابَةٍ" سنن الکبری للبیھقی، باب من قال بتوریث ذوی الأرحام، حدیث نمبر:۱۲۵۸۳۔ "الْجَدُّ أَبٌ مَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُ أَبٌ كَمَا أَنَّ ابْنَ الاِبْنِ ابْنٌ مَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُ ابْنٌ" السنن الکبریٰ للبیہقی، باب لایرث مع الأب أبواہ، حدیث نمبر:۱۲۶۴۹)
اولاد کے حقوق
جس طرح ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہیں؛ اسی طرح ماں باپ پر اولاد کے حقوق ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱)ان کی پیدائش ہوتے ہی کان مـیں اذان دینا، اقامت کہنا اور ان کا اچھا نام رکھنا۱؎، اس کا عقیقہ کرنا، اس کی ختنہ کرنا۲؎، اس کو دینی تعلیم دینا۳؎، بچپن مـیں محبت کے ساتھ ان کی پرورش کرنا کہ اولاد کو پیـار کرنے کی بھی فضیلت آئی ہے، خاص کر لڑکیوں سے دل تنگ نہ کرنا، ان کی پرورش کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۴؎؛ اگری کا دودھ پلانا پڑے تو دیندار اور اچھے اخلاق والی (انّا) تلاش کرنا؛ کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے اخلاق مـیں ہوتا ہے۵؎
(۲)ان کو علم دین وآداب سکھلانا۶؎
(۳)جب نکاح کے قابل ہو ان کا نکاح کردینا؛ اگر لڑکی کا شوہر مرجائے تو نکاح ثانی ہونے تک اس کو اپنے گھر آرام سے رکھنا، اس کے ضروری اخراجات کا برداشت کرنا۷؎
(۴)نیک نصیب عورت سے نکاح کرنا؛ تاکہ اولاد اچھی پیدا ہو۸؎
(۵)اولاد غیرتندرست ہو جیسے اندھا، اپاہج ہو تو اس کا خرچہ ماں باپ کے ذمہ ہیں؛ اگر ماں باپ نہ ہوں تو رشتہ داروں کے ذمہ ہے، چاہے کتنی ہی عمر ہوجائے۹؎
(۶)ہربچہ کے ساتھ مساوات وبرابری کرنا۱۰؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أَبِیْ رَافِعِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ"ترمذی، باب الأذان للمولود،حدیث نمبر:۱۴۳۶۔ (۲)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ" بخاری، باب قص الشارب، حدیث نمبر:۵۴۳۹۔ "عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا وُلِدَ لِأَحَدِنَا غُلَامٌ ذَبَحَ شَاةً وَلَطَخَ رَأْسَهُ بِدَمِهَا فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ كُنَّا نَذْبَحُ شَاةً وَنَحْلِقُ رَأْسَهُ وَنُلَطِّخُهُ بِزَعْفَرَانٍ" ابوداؤد، باب فی العقیقۃ،حدیث نمبر:۲۴۶۰۔ (۳)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَايَعْصُونَ اللَّهَ مَاأَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَايُؤْمَرُونَ" التحریم:۶۔ "عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ" ترمذی، باب ماجاء فی أدب الولد،حدیث نمبر:۱۸۷۵۔ (۴)"عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ" بخاری، باب اتقوا النار ولوبشق تمرۃ، حدیث نمبر:۱۳۲۹۔ (۵)"عن عائشة، عن النبيﷺ، قال: حق الولد على والده أن يحسن اسمـه، ويحسن من مرضعه، ويحسن أدبه" شعب الایمان، باب الستون من شعب الایمان وھو باب فی حقوق الاولاد والأھلین، حدیث نمبر:۸۴۱۴۔ (۶۔۷)"عن عائشة، عن النبيﷺ، قال: حق الولد على والده أن يحسن اسمـه، ويحسن من مرضعه، ويحسن أدبه" شعب الایمان للبیھقی،حدیث نمبر:۸۴۱۳۔ (۸)"إِنَّ الْمَرْأَۃَ تُنْکَحُ عَلَی دِیْنِھَا وَمَالِھَا وَجَمَالِھَا فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ" مسلم، باب استحباب نکاح ذات الدین، حدیث نمبر:۲۶۶۲۔ (۹)"عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ" ابن ماجہ، باب برالوالد والاحسان الی البنات، حدیث نمبر:۳۶۶۱۔ (۱۰)"عَنْ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِﷺ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ" بخاری، باب الاشھاد فی الھبۃ،حدیث نمبر:۲۳۹۸۔
دودھ پلانے والی "انا" کے حقوق
انا بھی دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کی طرح ہے، اس کے حقوق بھی وارد ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱)اس کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنا۱؎
(۲)اگر اس کو مالی حاجت ہو اور خود کو وسعت ہو تو اس کی مالی حاجت کو پورا کرے؛ اگر مـیسر ہو تو ایک غلام یـاباندی خرید کر اس کو خدمت کے لیے دینا۲؎
(۳)اس کا شوہر اس کا مخدوم ہے اور یہ اس کی مخدومہ ہے تو اس کے شوہر کو مخدوم المخدومہ سمجھ کر اس کے ساتھ بھی احسان کرنا۳؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أَنَس بْن مَالِكٍ يَقُولُ جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَأَ الْقَوْمُ عَنْهُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّﷺ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا" ترمذی، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیـان، حدیث نمبر:۱۸۴۲۔ (۲)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ" بخاری، باب فضل النفقۃ علی الاھل، حدیث نمبر:۴۹۳۴۔ (۲۔۳)"عَنْ أبِیْ الطفیلِ قالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِیِّﷺ إِذَاأَقْبَلَتْ امْرَأَۃ فبَسَطَ النَّبِیﷺ رداءہ حتی قَعَدَتْ عَلَیْہِ فَلَمَّا ذَھَبَتُ قِیْلَ ھِیَ کَانَتْ أرْضَعَتَ النَّبِیِّﷺ" ترمذی، باب ماجاء مایذہب مذمۃ الرضاع، حدیث نمبر:۱۰۷۳۔
سوتیلی ماں کے حقوق
سوتیلے ماں باپ کے ساتھ اور باپ کے دوستوں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم آیـا ہے، اس لیے سوتیلی ماں کے بھی کچھ حقوق ہیں:
ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں اور اہل تعلق کے تحت جو کچھ ذکر ہوا وہ سب ان کے ساتھ بھی کرے ہے۔
بھائی بہن کے حقوق
حدیث مـیں ہے کہ بڑا بھائی باپ کی طرح ہے (شعب الایمان، فصل بعد فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما، حدیث نمبر۷۶۹۴ عن سعید بن العاصؓ) اس سے یہ معلوم ہوا کہ چھوٹا بھائی اولاد کی طرح ہے؛ لہٰذا ان مـیں باہمـی حقوق ویسے ہی ہوں گے جیسے والدین اور اولاد کے درمـیان ہوتے ہیں؛ اسی پر بڑی بہن اور چھوٹی بہن کو قیـاس کرلینا چاہیے۔
رشتہ داروں کے حقوق
حضورﷺ کا ارشاد ہے: "جو شخص رشتہ داروں سے بدسلوکی کرے وہ جنت مـیں داخل نہ ہوگا"۔
("عَنْ جُبَيْربْن مُطْعِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّﷺ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ" بخاری، باب إثم القاطع،حدیث نمبر:۵۵۲۵)
اسی طرح باقی رشتہ داروں کے بھی حقوق آئے ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)اپنے ذی رحم محرم (جن سے خونی رشتہ ایسا ہو کہ ان سے نکاح حرام ہو ۱؎) رشتہ دار اگر محتاج ہوں اور کھانے کمانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو بقدرِ کفالت ان کے نان ونفقہ کی خبرگیری کرتا رہے ان خرچہ واجب تو نہیں لیکن کچھ خدمت کرنا ضروری ہے اور کبھی کبھی ان سے ملتا رہے۲؎
(۲)ان سے رشتہ نہ توڑے بلکہ اگری قدر ان سے تکلیف بھی پہنچے تو صبر افضل ہے۳؎۔حوالہ
(۱)"ذو الْمَحرم : من لا يَحِلُّ له نكاح المرأة من أقاربها كالأبِ والابن والأخ والعم ومن يَجْري مَجْراهُم" ہامش المطالب العالیۃ، باب مایحرم من النساء، حدیث نمبر:۱۵۹۹۔ (۲)"وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ" البقرۃ:۱۷۷۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ قَالَ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ" مسلم، باب برالوالدین وأنھااحق بہ، حدیث نمبر:۴۶۲۲۔ (۳)"عَنْ النَّبِيِّﷺ قَالَ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنْ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا" بخاری، بابالواصل بالمکافیٔ، حدیث نمبر:۵۵۳۲۔
استاد کے حقوق
(۱)ان کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جائے (۲)ادب کے ساتھ پیش آئے (۳)عزت واحترام کی نگاہ سے ان کو دیکھے (۴)جو بتلائے اس کو خوب توجہ سے سنے (۵)اس کو خوب یـاد رکھے (۶)جو بات سمجھ مـیں نہ آئے اپنا قصور سمجھے (۷)اس کے روبروی اور کاقول مخالف ذکر نہ کرے (۸)اگر کوئی استاذ برابھلا کہے تو جہاں تک ہوسکے اس سے عذر معذرت کرے ورنہ وہاں سے چلاجائے (۹)جب درسگاہ کے قریب پہنچے توسب حاضرین کو سلام کرے پھر استاذ کو خاص کر سلام کرے لیکن وہ اگر تقریر وغیرہ مـیں مشغول ہو اس وقت سلام نہ کرے (۱۰)استاذ کے روبرو نہ ہنسے، نہ بہت باتیں کرے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، نہی او رکی طرف متوجہ ہو، بالکل استاد کی طرف توجہ رکھے (۱۱)استاد کی بدخلقی کو نظر انداز کردے (۱۲)اس کی سختی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ اس کے کمال سے بداعتقاد ہو؛ بلکہ اس کے اقوال اور افعال کی تاویل کرے (۱۳)جب استادی کام مـیں لگا ہو یـاملول ومغموم ہو یـابھوکا پیـاسا ہو یـااونگھ رہا ہو یـااور کوئی عذر ہو جس سے تعلیم دشوار ہو یـاحضور قلب نہ ہو ایسے وقت نہ پڑھے (۱۴)اس کے دور ہونے پر یـااس کے نہ ہونے پر بھی اس کے حقوق کا خیـال رکھے (۱۵)کبھی کبھی تحفہ تحائف، خط وکتابت سے اس کا دل خوش کرتا رہے، حقوق اور بہت ہیں مگر ذہین آدمـی کے لیے اس قدر کافی ہیں وہ اس سے باقی حقوق بھی سمجھ جائیگا۔حوالہ
("فمن صفته لإرادته في طلب العلم: أن يعلم أن الله عز وجل فرض عليه عبادته، والعبادة لا تكون إلابعلم، وعلم أن العلم فريضة عليه، وعلم أن المؤمن لايحسن بـه الجهل، فطلب العلم لينفي عن نفسه الجهل، وليعبد الله كما أمره، ليس كما تهوى نفسه. قد ووزن جی جی حدید فكان هذا مراده في السعي في طلب العلم، معتقدا للإخلاص في سعيه، لايرى لنفسه الفضل في سعيه، بل يرى لله عز وجل الفضل عليه ، إذ وفقه لطلب علم ما يعبده بـه من أداء فرائضه، واجتناب محارمـه" اخلاق العلماء، باب ذکرصفتہ فی طلب العلم:۱/۴۰۔ "يمشي برفق وحلم، ووقار، وأدب، مكتسب في مشيه كل خير، تارة يحب الوحدة، فيكون للقرآن تاليا، وتارة بالذكر مشغولا، وتارة يحدث نفسه بنعم الله عز وجل عليه، ويقتضي منـها الشكر، يستعيذ بالله من شر سمعه، وبصره، ولسانـه، ونفسه، وشيطانـه، فإن بلي بمصاحبة الناس في طريقه"الخ بطولہ وباب صفتہ فی مشیہ الی العلماء: ۱/۴۱۔ "فإذا أحب مجالسة العلماء جالسهم بأدب، وتواضع في نفسه، وخفض صوته عن صوتهم، وسألهم بخضوع، ويكون أكثر سؤاله عن علم ما تعبده الله به، ويخبرهم أنـه فقير إلى علم ما يسأل عنـه، فإذا استفاد منـهم علما أعلمـهم: أني قد أفدت خيرا كثيرا، ثم شكرهم على ذلك" الخ بطولہ وباب صفتہ مجالستہ للعلماء:۱/۴۲)
پیر (روحانی تربیت کرنے والے) کے حقوق
جو حقوق استاد کے لکھے گئے ہیں وہی پیر کے بھی حقوق ہیں اور کچھ حقوق جو زائد ہیں وہ یہ ہیں:
(۱)یہ اعتقاد رکھے کہ مـیرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کریگا تو مرشد کے فیض وبرکات سے محروم رہیگا (۲)ہرطرح مرشد کا مطیع ہو اور جان ودل سے اس کی خدمت کرے؛ کیونکہ پیر کی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے (۳)مرشد جو کچھ کہے اس کو فوراً بجالائے اور بغیراجازت اس کے فعل کی اقتداء نہ کرے؛ کیونکہ بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کو اس کا کرنا زہر قاتل ہے (۴)جودرود وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے؛ خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیـا ہو یـاکسی اور نے بتلایـا ہو (۵)مرشد کی موجودگی مـیں مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے؛ یہاں تک کہ سوائے فرض وسنت کے نفل نماز اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے (۶)حتیٰ الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہوکہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یـااس کے کپڑے پر پڑے (۷)اس کے مصلیٰ پر پیر نہ رکھے، اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یـاوضو نہ کرے (۸)مرشد کے برتنوں کو استعمال مـیں نہ لائے (۹)اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پئے او رنہ وضو کرے، ہاں! اجازت کے بعد کرسکتے ہیں (۱۰)اس کے روبروی سے بات نہ کرے؛ بلکہی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو (۱۱)جس جگہ مرشد بیٹھا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے اگرچہ سامنے نہ ہو (۱۲)اور اس کی طرف نہ تھوکے (۱۳)جو کچھ مرشد کہے یـاکرے اس پر اعتراض نہ کرے؛ کیونکہ مرشد جو کچھ کرتا ہے یـاکہتا ہے الہام سے کرتا اور کہتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ مـیں نہ آئے (تو اسے اپنی سمجھ کا قصور سمجھے جب تک کہ شریعت کے بالکل ہی خلاف نہ ہو اور کوئی تاویل نہ ہوسکتی ہو؛ کیونکہ کبیرہ گناہوں مـیں مبتلا آدمـی تو پیر ہی نہیں ہوسکتا، اللہ کے ولی صرف متقی ہی ہوتے ہیں؛ لیکن خلافِ شرع قرار دینے مـیں جلدی نہ کرے، علماء متقین سے معلوم کرے، حقیقی پیر تو اسی طرح کا ہوتا ہے، آج کل بناوٹی پیر دھوکہ باز بہت مل رہے ہیں) تو حضرت موسیٰ اور خضر علیہماالسلام کا واقعہ یـاد کرے (۱۴)اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے (۱۵)اگر کوئی شبہ دل مـیں گزرے فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے اور اگر مرشد اس کا کچھ جواب نہ دے تو جان لے کہ مـیں اس کے جواب کے لائق نہ تھا (۱۶)خواب مـیں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن مـیں آئے تو اسے بھی عرض کردے (۱۷)مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز بلند اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے (۱۸)مرشد کے کلام کو دوسروں سے اس قدر بیـان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ سمجھے کہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیـان نہ کرے (۱۹)مرشد کے کلام کو رد نہ کرے؛ اگرچہ حق مرید ہی کی جانب ہو؛ بلکہ یہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا مـیرے صواب (درستگی) سے بہتر ہے (۲۰)جو کچھ اس کا حال ہو، بھلا یـابُرا، اسے مرشد سے عرض کرے؛ کیونکہ مرشد طبیب (ڈاکٹر) قلبی ہے، اطلاع کے بعد اس کی اصلاح کریگا، مرشد کے کشف پر اعتماد کرکے سکوت (خاموش) نہ کرے (۲۱)اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ مـیں مشغول نہ ہو اگر کچھ پڑھنا ضروری ہے تو اس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے (۲۲)جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے اسے مرشد کا طفیل سمجھے؛ اگرخواب مـیں یـامراقبہ مـیں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے، تب بھی یہ جانے کہ مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ کی صورت سے ظاہر ہوا ہے۔
(المعجم الکبیر، باب صدی بن عجلان ابوامامۃ الاباھلی،حدیث نمبر:۷۸۸۰۔ آداب الصحبیۃ، باب الصحبۃ مع اولیـاء اللہ: ۱/۱۷۵)
شاگرد اور مرید کے حقوق
چونکہ شاگرد اور مرید اولاد کے درجہ مـیں ہے، اس لیے شفقت ودلسوزی مـیں ان کا حق اولاد کے حق کی طرح ہے۔
بیوی کے حقوق
(۱)اپنی وسعت کے موافق اس کے نان ونفقہ (خرچہ وغیرہ) مـیں کمـی نہ کرے، اعتدال (درمـیانی حالت) سے خرچ کرے، نہ تنگی کرے اور نہ فضول خرچی کی اجازت دے، رہنے کے بقدر گھر دے، ان کودینی مسائل سکھلاتا رہے اور نیک عمل کی تاکید کرتا رہے، حیض وغیرہ کے مسائل سیکھ کر اس کو سکھلائے، نماز اور دین کی تاکید کرے، بدعات اور ممنوعات سے روکے۱؎ (۲)اس کے خونی رشتہ دار (جن سے نکاح حرام ہے) سے کبھی کبھی ملنے دے، اس کی کم فہمـیوں پر اکثر صبروسکوت اختیـار کرے؛ اگر کبھی ضرورت تادیب (ادب سکھلانے) کی ہو تو توسط (اعتدال) کا لحاظ رکھے۲؎ (۳)اچھے اخلاق سے پیش آئے؛ لیکن اس کی خواہش اتنی نہ سنے کہ اس کا مزاج بدل جائے اور اپنا رعب باقی رکھے۳؎ (۴)اگر کئی بیویـاں ہوں تو ان کے حقوق برابر ادا کرے۴؎ (۵)ضرورت کے بقدر اس سے صحبت کرے۵؎ (۶)بغیر ضرورت کے طلاق نہ دے۶؎ (۷)جماع وغیرہ کے راز ظاہر نہ کرے۷؎ (۸)حد سے زیـادہ نہ مارے۸؎۔حوالہ
(۱)"عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ" البقرۃ:۲۳۶۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ" تحریم:۶۔ "وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى" طٰہٰ:۱۳۲۔ "عَنْ عَبْد اللَّهِ بْن عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" بخاری، باب الجمعۃ فی القری والمدن، حدیث نمبر:۸۴۴۔ "عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ" ترمذی، باب ماجاء فی استکمال الإیمان وزیـادتہ، حدیث نمبر:۲۵۳۷۔ "والصحبة مع الأهل والولد بالمداراة، وحسن الخلق، وسعة النفس، وتمام الشفقة، وتعليم الأدب والسنة ، وحملهم على الطاعات" آداب الصحبۃ، الصحبۃ مع الأھل والولد:۱/۱۷۷۔ (۲۔۳)"حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً فَقَالَ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ يَعْنِي أَسْرَى فِي أَيْدِيكُمْ" ترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۰۸۳۔ "عَنْ مُعَاوِیَۃ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ قَالَ أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبْ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" ابن ماجہ، باب حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر:۱۸۴۰۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا وَإِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ" بخاری، باب المداراۃ مع النساء، حدیث نمبر:۴۷۸۶۔ (۴)"وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا" النساء:۱۲۹۔ "عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ قَالَ السُّنَّةُ إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا" بخاری، باب العدل بین النساء، حدیث نمبر:۴۸۱۲۔ (۵)"عَنْ عَبْداللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" بخاری، باب الجمعۃ فی القری والمدن، حدیث نمبر:۸۴۴۔ (۶)"وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا" النساء:۳۔ (۷)"عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا" مسلم، باب تحریم افشاء سرالمرأۃ، حدیث نمبر:۲۵۹۷۔ (۸)"عَنْ مُعَاوِیَۃ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ قَالَ أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبْ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" ابن ماجہ، باب حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر:۱۸۴۰۔
شوہر کے حقوق
(۱)اس کی اطاعت اور ادب وخدمت، دلجوئی، رضا جوئی پورے طور پر بجالائے؛ البتہ ناجائز امور مـیں عذر کردے۱؎ (۲)اس کی گنجائش سے زیـادہ اس سے فرمائش نہ کرے۲؎ (۳)اس کا مال بلااجازت خرچ نہ کرے۳؎ (۴)اس کے رشتہ دار سے سختی نہ کرے کہ جس سے شوہر کو تکلیف پہنچے، خاص کر شوہر کے ماں باپ کو اپنا مخدوم سمجھ کر ادب وتعظیم سے پیش آئے۴؎ (۵)شوہر کی اجازت کے بغیری کو گھر مـیں آنے نہ دے۵؎ (۶)اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۶؎ (۷)اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال مـیں سے کوئی چیز نہ دے۷؎ (۸)اس کی اجازت کے بغیر نفل نماز، نفل روزہ نہ رکھے۸؎ (۹)اگر صحبت کے لیے بلائے شرعی موانع کے بغیر اس سے انکار نہ کرے، اپنے وسائل اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زیب وزینت کا دھیـان رکھے۹؎ (۱۰)اپنے شوہر کو افلاس یـابدصورتی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھے۱۰؎ (۱۱)اگر کوئی چیز خلافِ شرع دیکھے تو ادب سے منع کرے، اس کا نام لیکر نہ پکارے۱۱؎ (۱۲)کسی کے سامنے خاوند کی شکایت نہ کرے۱۲؎۔حوالہ
(۱)"فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ" النساء:۳۴، "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا" ترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۰۷۹۔ "لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶۔ (۲)"لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ" البقرۃ:۲۳۶۔ (۳)"عَنْ أبی هريرة قال: قال رسول اللهﷺ: لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلابإذنـه، ولاتأذن في بيته وهوشاهد إلا بإذنـه، وماأنفقت عن كسبه من غير أمره، فإن نصف أجره له" الآداب للبیہقی، باب فی مراعاۃ حق الأزواج، حدیث نمبر:۴۸۔ (۴)"إِنْ تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا" النساء:۱۴۸۔ "عن أبي هريرةؓ، قال : سئل النبيﷺ: أي النساء خير ؟ فقال: خير النساء من تسر إذا نظر ، وتطيع إذا أمر، ولاتخالفه في نفسها ومالها" المستدرک، باب خیرالنساء من تسراذانظر، حدیث نمبر:۲۶۳۳۔ (۵)"وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ" ترمذی، باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث نمبر:۱۰۸۳۔ (۶)"وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى" الاحزاب:۳۳۔ (۷)"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ فَقَالَ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ" ابن ماجہ، باب ماللمرأۃ من مال زوجھا، حدیث نمبر:۲۲۸۴۔ "عَنْ أبی هريرة قال: قال رسول اللهﷺ: لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلابإذنـه، ولاتأذن في بيته وهوشاهد إلا بإذنـه، وماأنفقت عن كسبه من غير أمره، فإن نصف أجره له" الآداب للبیہقی، باب فی مراعاۃ حق الأزواج، حدیث نمبر:۴۸۔ (۸)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ" بخاری،باب صوم المرأۃ باذن زوجھا تطوعا، حدیث نمبر:۴۷۹۳۔ (۹)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ" بخاری، باب ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر:۲۹۹۸۔
حاکم ومحکوم (مالک وخادم) کے حقوق
حاکم ومحکوم کے حقوق مـیں حاکم کا مطلب بادشاہ ونائب بادشاہ، آقا وغیرہ اور محکوم سے مراد رعایـا، نوکر وغیرہ سب داخل ہیں اور جہاں مالک ومملوک (خادم) ہو وہ بھی داخل ہوجائیں گے۔
محکوم کے حقوق
(۱)محکوم پر دشوار احکام نہ جاری کرے۱؎ (۲)اگر باہم محکومـین مـیں کوئی جھگڑا ہوجائے تو عدل وانصاف کی رعایت کرے؛ی کی طرف داری نہ ہو۲؎ (۳)ہرطرح ان کی حفاظت وآرام رسانی کی فکر مـیں رہے، داد خواہوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسان طریقہ مقرر کرے۳؎ (۴)اگراپنی شان مـیں اس سے کوئی کوتاہی یـاغلطی ہوجائے تو کثرت سے معاف کردیـا کرے، ناروا اور ناجائز سختی کرنے سے پرہیز کرے۴؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ رَأَيْتُ عَلَيْهِ بُرْدًا وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدًا فَقُلْتُ لَوْ أَخَذْتَ هَذَا فَلَبِسْتَهُ كَانَتْ حُلَّةً وَأَعْطَيْتَهُ ثَوْبًا آخَرَ فَقَالَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ كَلَامٌ وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً فَنِلْتُ مِنْهَا فَذَكَرَنِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي أَسَابَبْتَ فُلَانًا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَفَنِلْتَ مِنْ أُمِّهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ قُلْتُ عَلَى حِينِ سَاعَتِي هَذِهِ مِنْ كِبَرِ السِّنِّ قَالَ نَعَمْ هُمْ إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا يُكَلِّفُهُ مِنْ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ" بخاری، باب ماینھی من السباب واللعن:۵۵۹۰۔ (۲)"وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ" المائدۃ:۴۲۔ (۳)……؟؟؟ (۴)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَقَالَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً"ترمذی، باب ماجاء فی العفو عن الخادم، حدیث نمبر: ۱۸۷۲۔ "عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِي فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِي صَوْتًا اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ فَقَالَ أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْكَ النَّارُ أَوْ لَمَسَّتْكَ النَّارُ" مسلم، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، حدیث نمبر:۳۱۳۶)
حاکم کے حقوق
(۱)حاکم کی خیرخواہی واطاعت کرے؛ البتہ خلافِ شرع امور مـیں اطاعت نہ کرے۱؎ (۲)اگرحاکم سے کوئی امرخلافِ طبع پیش آئے تو صبر کرے شکایت وبددعا نہ کرے؛ البتہ اس کے نرم مزاجی کے لیے دعا کرے اور خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اہتمام کرے تاکہ حکام کے دل نرم کردے۲؎ (۳)اگرحاکم سے آرام پہنچے تو اس کے ساتھ شکرگزاری کریں۳؎ (۴)اپنی ذات کے واسطے اس سے سرکشی نہ کرے اور جہاں غلام پائے جاتے ہوں، غلاموں کا نان ونفقہ واجب ہے اور غلام کو اس کی خدمت چھوڑ کر بھاگنا حرام ہے باقی غلام کے علاوہ محکومـین آزاد ہیں، دائرۂ حکومت مـیں رہنے تک اس پر حقوق ہوں گے اور خارج ہونے کے بعد ہروقت مختار ہے۴؎۔حوالہ
(۱)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ" النساء:۵۹۔ "لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶۔ "عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: نعما للعبد أن يتوفاه الله بحسن عبادة ربه وبطاعة سيده نعما له ونعما له" مسنداحمد، مسند ابی ھریرۃؓ: ۷۶۴۲۔ (۲)"يَابُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" لقمان:۱۷۔ "والدعاء له بظهر الغيب ليصلحه الله ويصلح على يديه، والنصيحة له في جميع أموره، والصلاة والجهاد معه" آداب الصحبۃ، باب الصحبۃ مع السلطان:۱/۱۷۶۔ (۳)"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللَّهَ" ترمذی، باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک، حدیث نمبر:۱۸۷۸۔ "عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن السلطان ظل الله في الأرض ، يأوي، إليه كل مظلوم من عباده، فإذا عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر، وإذاجار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر"شعب الایمان، باب فضل الامام العادل، حدیث نمبر:۷۱۱۷۔
سسرالی رشتہ داروں کے حقوق
قرآن مجید مـیں حق تعالیٰ نے نسب کے ساتھ علاقہ مصاہرۃ (سسرالی رشتہ) کا بھی ذکر فرمایـا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ساس، خسر، سالے، بہنوئی، داماد، بہو اور ربیب (بیوی کی پہلی اولاد) کا بھی حق ہوتا ہے، اس لیے ان تعلقات مـیں بھی احسان واخلاق کی رعایتی قدر خصوصیت کے ساتھ رکھنا چاہیے۔
(الفرقان:۵۴)
عام مسلمان،پڑوسی،یتیم،کمزور،مہمان،دوست احباب،لے پالک اورغیرمسلم کے حقوق
عام مسلمانوں کے حقوق
رشتہ داروں کے علاوہ اجنبی مسلمانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں، علامہ اصبہانی رحمہ اللہ نے "ترغیب وترہیب" مـیں بروایت حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ حقوق نقل کئے ہیں:
(۱)مسلمان بھائی کی لغزش کو معاف کرے (۲)اس کے رونے پر رحم کرے (۳)اس کے عیب کو ڈھانکے (۴)اس کے عذر کو قبول کرے (۵)اس کے تکلیف کو دور کرے (۶)ہمـیشہ اس کی خیرخواہی کرتا رہے (۷)اس کی حفاظت ومحبت کرے (۸)اس کے ذمہ کی رعایت کرے (۹)بیمار ہو تو عیـادت کرے (۱۰)مرجائے تو جنازے مـیں حاضر ہو (۱۱)اس کی دعوت قبول کرے (۱۲)اس کا ہدیہ قبول کرے (۱۳)اس کے احسان کی مکافات کرے (۱۴)اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرے (۱۵)وقت پڑنے پر اس کی مدد کرے (۱۶)اس کے اہل وعیـال کی حفاظت کرے (۱۷)اس کی حاجت پوری کرے (۱۸)اس کی درخواست کو سنے (۱۹)اس کی سفارش قبول کرے (۲۰)اس کی مراد سے ناامـید نہ کرے (۲۱)وہ چھینک کر الحمد للہ کہے تو جواب مـیں "یَرْحَمُک اللہ" کہے (۲۲)اس کی گمشدہ چیز کو اس کے پاس پہنچا دے (۲۳)اس کے سلام کا جواب دے (۲۴)نرمـی وخوش خلقی کے ساتھ اس سے گفتگو کرے (۲۵)اس کے ساتھ احسان کرے (۲۶)اگر وہ اس کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھے تو اس کو پورا کردے (۲۷)اگر اس پر کوئی ظلم کرتا ہو تو اس کی مدد کرے اگر وہی پر کوئی ظلم کرتا ہے تو روک دے (۲۸)اس کے ساتھ محبت کرے، دشمنی نہ کرے (۲۹)اس کو رسوا نہ کرے (۳۰)جو بات اپنے لیے پسند کرے اس کے لیے بھی پسند کرے۔
(الترغیب والترھیب، للأصبھانی، باب فی الترغیب فی قضاء حوائج المسلم، حدیث نمبر:۱۱۶۸)
"یہ تیس حقوق مختلف احادیث مـیں الگ الگ موجود ہیں"۔
دوسری احادیث مـیں یہ حقوق زیـادہ ہیں: (۳۱)ملاقات کے وقت اس کو سلام کرے اور مصافحہ بھی کرے۱؎ (۳۲)اگرباہم اتفاقاً کچھ رنجش ہوجائے تو تین دن سے زیـادہ ترک کلام نہ کرے۲؎ (۳۳)اس پر بدگمانی نہ کرے۳؎ (۳۴)اس پر حسد وبغض نہ کرے۴؎(۳۵)امربالمعروف ونہی عن المنکر ممکنہ حد تک کرے۵؎ (۳۶)چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت کرے۶؎ (۳۷)دومسلمانوں مـیں جھگڑا ہوجائے تو ان کو باہم ملاکر اصلاح کرادے۷؎ (۳۸)اس کی غیبت نہ کرے۸؎ (۳۹)اس کوی طرح کا نقصان نہ پہنچائے، نہ مال مـیں نہ آبرو مـیں۹؎ (۴۰)اگر سواری پر سوار نہ ہوسکے یـااس پر اسباب نہ لادسکے تو اس کو سہارا لگادے۱۰؎ (۴۱)اس کو اٹھاکر اس کی جگہ نہ بیٹھے۱۱؎(۴۲)تیسرے کو تنہا چھوڑ کر دوآدمـی باتیں نہ کریں۱۲؎ (۴۳)اس کے راستہ مـیں کوئی نقصان دہ چیز ہو تو ہٹادے۱۳؎ (۴۴)اس کی چغلی نہ کرے۱۴؎ (۴۵)اگر اپنیی کے پاس کچھ حیثیت ہو اور کوئی اس کے پاس سفارشی چاہتا ہو تو سفارش کرے۱۵؎۔
نوٹ:یـاد رکھیے! کہ جن لوگوں کے حقوق اوپر ذکر کئے گئے ہیں وہ خاص حقوق ہیں اور ان عام لوگوں کے حقوق مـیں وہ سب بھی شریک ہونگے۔حوالہ
(۱)"عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَاسْتَغْفَرَاهُ غُفِرَ لَهُمَا" ابوداؤد، باب فی المصافحۃ، حدیث نمبر:۴۵۳۵۔ (۲۔۳۔۴)"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ"بخاری، باب الھجرۃ، حدیث نمبر:۵۶۱۲۔ (۵)"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" الاعراف:۱۹۹۔ (۶)"عن بن عباس رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال ليس منا من لم يوقر الكبير ويرحم الصغير ويأمر بالمعروف وينـه عن المنكر" صحیح ابن حبان، باب ذکر الزجر عن ترک توقیرالکبیر، حدیث نمبر:۴۵۸۔ (۷)"عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا" ترمذی، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین،حدیث نمبر:۱۸۶۱۔ (۸)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا" مسلم، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ، حدیث نمبر:۴۶۵۰۔ (۹)"عن القاسم، مولى عبد الرحمن أن النبيﷺ أوصى رجلا غزا قال: ولاتقطع شجرة مثمرة، ولاتقتل بهيمة ليست لك بها حاجة، واتق أذى المؤمنين" مراسیل ابی داؤد، باب ولاتقطع شجرۃ مثمرۃ، حدیث نمبر:۲۹۴۔ (۱۰)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" مسلم، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن، حدیث نمبر:۴۸۶۷۔ (۱۱)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَقْعَدِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ" مسلم، باب تحریم اقامۃ الانسان من موضعہ المباح، حدیث نمبر:۴۰۴۴۔ (۱۲)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةٌ فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ" بخاری، باب لایتناجی اثنان دون الثالث، حدیث نمبر:۵۸۱۴۔ (۱۳)"عَنْ أَبُو بَرْزَة قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَنْتَفِعُ بِهِ قَالَ اعْزِلْ الْأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ" مسلم، باب فضل ازالۃ الأذی عن الطریق، حدیث نمبر:۴۷۴۷۔ (۱۴)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا" مسلم، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ، حدیث نمبر:۴۶۵۰۔ (۱۵)"عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَهُ السَّائِلُ أَوْ طُلِبَتْ إِلَيْهِ حَاجَةٌ قَالَ اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا وَيَقْضِي اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ" بخاری، باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعت، حدیث نمبر:۱۳۴۲۔
پڑوسیوں کے حقوق
پڑوسیوں کے حقوق یہ ہیں: (۱)اس کے ساتھ احسان وہمدردی سے پیش آئے۱؎ (۲)اس کے اہل وعیـال کی عزت کی حفاظت کرے۲؎ (۳)وقتاً فوقتاً اس کے گھر ہدیہ وغیرہ بھیجتا رہے؛ خاص کر جب وہ فاقہ سے ہو تو ضرور تھوڑا بہت کھانا دے۳؎ (۴)اس کو تکلیف نہ دے اور چھوٹی چھوٹی باتوں مـیں اس سے نہ الجھے۴؎۔
حدیث مـیں تین طرح کے پڑوسی کا ذکر ہے (۱)مسلمان رشتہ دار پڑوسی (۲)مسلمان پڑوسی (۳)غیرمسلم پڑوسی… ان مـیں پہلے پڑوسی کا حق زیـادہ؛ پھردوسرے کا؛ پھرتیسرے کا۵؎۔حوالہ
(۱۔۲)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ" بخاری، باب الوصاۃ بالجار، حدیث نمبر:۵۵۵۶۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ" مسلم، باب الحث علی اکرام الجاروالضیف، حدیث نمبر:۶۸۔ (۳)"عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ" مسلم، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، حدیث نمبر:۴۷۵۸۔ (۴)"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" الاعراف:۱۹۹۔ "فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ" الحجر:۸۵۔ (۵)"عَنْ طَلْحَة بْن عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي قَالَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا"بخاری، باب ای الجار اقرب، حدیث نمبر:۲۰۹۹۔ "ثم قال رسول اللهﷺ: الجيران ثلاثة: فمنـهم من له ثلاثة حقوق، ومنـهم من له حقان، ومنـهم من له حق، فأما الذي له ثلاثة حقوق فالجار المسلم القريب له حق الجار، وحق الإسلام، وحق القرابة، وأما الذي له حقان فالجار المسلم له حق الجوار، وحق الإسلام، وأما الذي له حق واحد فالجار الكافر له حق الجوار" شعب الایمان،فصل فیما یقول العاطس فی جواب التشمـیت، حدیث نمبر:۹۲۳۸۔
غیرمسلم پڑوسی کے حقوق
اس کے حقوق بھی مسلم پڑوسی کی طرح ہیں، جس کا ذکر پڑوسی کے حقوق کے ذیل مـیں آچکا ہے۔
پڑوسی کی تحدید
گھر کے آگے چالیس گھر، گھر کے پیچھے چالیس گھر، گھر کے دائیں حصہ کے چالیس گھر اور گھر کے بائیں حصہ کے چالیس گھرپڑوسی مـیں داخل ہیں۔حوالہ
("عن أبيه قال: أتى النبيﷺ رجل فقال: يارسول الله إني نزلت في محلة بني فلان وإن أشدهم لي أذى أقدمـهم لي جوارا فبعث رسول اللهﷺ أبابكر وعمر وعليا يأتون المسجد فيقومون على بابه فيصيحون ألاأن أربعين داراجار ولايدخل الجنة من خاف جاره بوائقه" المعجم الکبیر، باب کعب بن مالک الانصاری، حدیث نمبر:۱۴۳۔ "عن الحسن، أنـه سئل عن الجار، فقال: أربعين دارا أمامـه، وأربعين خلفه، وأربعين عن يمينـه، وأربعين عن يساره" الادب المفرد للبخاری، باب الادنی فالادنی من الجیر، حدیث نمبر:۱۰۹)
یتیموں اور ضعیفو ں کے حقوق
جو دوسروں کا محتاج ہو جیسے یتیم، بچے، عاجز، ضعیف، مسکین، بیمار، معذور، مسافر اور سائل ان لوگوں کے حقوق کچھ زائد ہیں:
(۱)ان لوگوں کی مالی خدمت کرنا۱؎ (۲)ان لوگوں کے کام مـیں ہاتھ بٹانا۲؎ (۳)ان لوگوں کی دلجوئی وتسلی کرنا۳؎ (۴)ان کے حاجت وسوال کو رد نہ کرنا۴؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُودُوا الْمَرِيضَ وَفُكُّوا الْعَانِيَ" بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما، حدیث نمبر:۴۹۵۴۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي قَالَ يَارَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَمَاعَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ" مسلم، باب فضل عیـادۃ المریض، حدیث نمبر:۴۶۶۱۔ (۲)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ"بخاری، باب فضل النفقۃ علی الاھل، حدیث نمبر:۴۹۳۴۔ "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْن عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"بخاری، باب لایظلم المسلم المسلم ولایسلمہ، حدیث نمبر:۲۲۶۲۔ (۳)"عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ أَنَّ أَبَاهَا قَالَ اشْتَكَيْتُ بِمَكَّةَ فَجَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي ثُمَّ مَسَحَ صَدْرِي وَبَطْنِي ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ" ابوداؤد، باب الدعاء للمریض بالشفاء عند العیـادۃ،حدیث نمبر:۲۶۹۸۔ (۴)"فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْo وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ" الضحیٰ:۹،۱۰۔
مہمان کے حقوق
مہمان کے حقوق یہ ہیں: (۱)مہمان کی آمد کے وقت بشاشت (خوشی) ظاہر کرنا، جاتے وقت کم ازکم دروازہ تک ساتھ چلنا۱؎(۲)اس کی معمولات وضروریـات کا انتظام کرنا کہ جس سے اس کو راحت پہنچے۲؎ (۳)عاجزی، تواضع اور اکرام کے ساتھ پیش آنا؛ بلکہ خود سے اس کی خدمت کرنا۳؎ (۴)کم از کم ایک روز اس کے لیے کھانے مـیںی قدر متوسط (درمـیانی) درجہ کا تکلف کرنا؛ مگراتنا ہی کہ جس مـیں خود کو کوئی دشواری نہ ہو اور نہ ہی کوئی حجاب ہو اور کم ازکم تین دن تک اس کی مـیزبانی کرنا، اتنا تو اس کا ضروری حق ہے، اس کے بعد جب تک وہ رہے مـیزبان کی طرف سے احسان ہے؛ مگرخود مہمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو تنگ نہ کرے، نہ زیـادہ ٹھہر کر، نہ بے جا فرمائشیں کرکے، نہ اس کے طعام وخدمت وغیرہ مـیں دخل اندازی کرکے، نہ اس کی مصروفیـات مـیں زیـادہ خلل ڈالے، اس کی مـیزبانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے اس کے لیے دعائے خیر کرے۴؎۔حوالہ
(۱)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ"مسلم، باب الحث علی اکرام الجار والضیف، حدیث نمبر:۶۷۔ (۱۔۲)"وإظهار السرور، والكون عند أمره ونـهيه، ورؤية فضله، واعتقاد المنزلة حيث أطربك ب منزلك، وتكرم بطعامك" "يسترسل الضيف فيما بيننا كرما فليس يعرف فينا أينا الضيف" آداب الصحبۃ، باب الصحبۃ مع الضیف بحسن البشر:۱/۱۸۲، ۱۸۵۔ (۱۔۲۔۳)"هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَo إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَo فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ" ذاریـات:۲۴،۲۵،۲۶۔ "قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِoوَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ" الحجر:۶۸،۶۹۔ (۳)"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ قُلْنَا يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلَا يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ" بخاری، باب اکرام الضیف وخدمتہ ایـاہ بنفسہ، حدیث نمبر:۵۶۷۲۔ (۴)"عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ قَالُوا وَمَا جَائِزَتُهُ قَالَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ" ترمذی، باب ماجاء فی الضیـافۃ وغایۃ الضیـافۃ، حدیث نمبر:۱۸۹۰، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔"عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِؓ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يُؤْثِمُهُ قَالَ يُقِيمُ عِنْدَهُ وَلَا شَيْءَ لَهُ يَقْرِيهِ بِهِ" مسلم، باب الضیـافۃ ونحوھا، حدیث نمبر:۳۲۵۶۔
دوستوں کے حقوق
جس سے خصوصیت کے ساتھ دوستی ہو قرآن مجید مـیں اس کو اقارب ومحارم (خصوصی رشتہ دار) کے ساتھ ذکر فرمایـا ہے۔
اس کے آداب یہ ہیں: (۱)جس سے دوستی کرنا ہو اول اس کے عقائد، اعمال، معاملات اور اخلاق خوب دیکھ بھال لے؛ اگر سب امور مـیں اس کو درست وصالح پائے تو اس سے دوستی کرے ورنہ دور رہے، (صحبتِ بد (بُری صحبت) سے بچنے کی بہت تاکید آئی ہے اور مشاہدہ سے بھی اس کا ضرر محسوس ہوتا ہے) جب کوئی ایسا ہم جنس، ہم مشرب مـیسر ہو تو اس سے دوستی کا مضائقہ نہیں؛ بلکہ دنیـا مـیں سب سے بڑھ کر راحت کی چیز دوستی ہے۱؎ (۲)اپنی جان ومال سے کبھی اسے تکلیف نہ دے۲؎ (۳)کوئی امرخلافِ مزاج اس سے پیش آجائے تو اُسے نظرانداز کردے اگر اتفاقاً کوئی رنجش (آپس مـیں کچھ تکلیف دہ بات ہوجائے) فوراً صفائی کرلے اس کو طول (لمبا) نہ دے، دوستوں کی شکایت کو لیکر نہ بیٹھ جائے۳؎ (۴)اس کی خیرخواہی مـیںی طرح کوتاہی نہ کرے، نیک مشورہ سے کبھی محروم نہ کرے، اس کے مشورہ کو نیک نیتی سے سنے اور اگر قابلِ عمل ہو تو قبول کرلے۴؎۔حوالہ
(۱)"عن مالك بن مغول، قال: قال عيسى ابن مريم عليه السلام: تحببوا إلى الله عز وجل ببغض أهل المعاصي، وتقربوا إليه بالتباعد منـهم، والتمسوا مرضاته بسخطهم قالوا: ياروح الله من نجالس؟ قال: جالسوا من يذكركم الله رؤيته، ومن يزد في عملكم منطقه، ومن يرغبكم في الآخرة عمله" شعب الایمان، فصل فیما یقول العاطس فی جواب التشمـیت، حدیث نمبر:۹۱۲۶۔ "عن أبي هريرة قال قال رسول اللهﷺ: المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالط وقال مؤمل من يخالل"مسنداحمد، مسند ابی ھریرۃ، حدیث نمبر:۸۰۱۵۔ "اعلم أنـه لايصلح للصحبة كل إنسان. قال ﷺ: "المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل" ولابد أن يتميز بخصال وصفات يرغب بسببها في صحبته وتشترط تلك الخصال بحسب الفوائد المطلوبة من الصحبة إذمعنى الشرط مالابد منـه للوصول إلى المقصود فبالإضافة إلى المقصود تظهر الشروط" الخ بطولہ، احیـاء علوم الدین، بیـان البغض فی اللہ: ۲/۱۸۔ "أناعمر بن أحمد بن شاہین، ببغداد قال: قبیداللہ بن عبدالرحمن قال: نازکریـا بن یحیی قال: ناالأصمعی قال: ناسلیمان بن بلال، عن مجالد، عن الشعبی قال: قال علی بن أبی طالب کرم اللہ وجہہ وقد ذکر صحبۃ رجل فقال: لاتصحب أخاالجھل و۔یـاک و۔یـاہ فکم من جاھل أردی حلیما حین آخاہ یقاس المرء بالمرء ۔ذاماالمرء ماشاہ وللشیء من الشیء مقاییس وأشباہ وللقلب من القلب دلیل حین یلقاہ، من آداب الصحبۃ حسن الخلق، فمن آداب العشرۃ وحسن الخلق مع الإخوان والأقران والأصحاب اقتداء بسنۃ رسول اللہﷺ" آداب الصحبۃ، باب احذر صحبۃ الجھال:۱/۱۳۔ "عَن الْمَدَائِنِی، قال: قال علی بن ابی طالبؓ: لاتؤاخ الفاجر؛ فإنہ یزین لک فعلہ، ویحب لوأنک مثلہ، ویزین لک أسوأخصالہ، ومدخلہ علیک ومخرجہ من عندک شین وعار، ولاالأحمق؛ فإنہ یجھد نفسہ لک ولاینفعک، وربما أراد أن ینفعک فیضرک؛ فسکوتہ خیر من نطقہ، وبعدہ خیر من قربہ، وموتہ خیر من حیـاتہ، ولاالکذاب؛ فإنہ لاینفعک معہ عیش، ینقل حدیثک، وینقل الحدیث ۔لیک، و۔ن تحدّث بالصدق فمایصدق" المجالسۃ وجواھرالعلم لابی بکراحمد بن مروان بن محمدالدینوری، باب الجزء العاشر، حدیث نمبر:۱۳۷۹۔ (۲)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّﷺ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ" بخاری، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، حدیث نمبر:۹۔ (۳)"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" الاعراف:۱۹۹۔ "وَلَايَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَاتُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ" النور:۲۲۔ (۴)"فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ" آل عمران:۱۵۹۔ "عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ" بخاری، باب قول النبیﷺ الدین النصیحۃ للّٰہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمـین وعامتھم، حدیث نمبر:۵۵۔
متبنیٰ(لےپالک) کا حکم
یـادرکھیے! کہ ہندوستان مـیں جس طرح متبنٰی (لے پالک) بنانے کی رسم ہے کہ اس کو بالکل تمام احکام مـیں اولاد کی طرح سمجھتے ہیں، شریعت مـیں اس کی کوئی اصل نہیں، لے پالک "منھ بولے" بیٹے کا اثر دوستی کے اثر سے زیـادہ نہیں چونکہ اس کے ساتھ جان بوجھ کر خصوصیت پیدا کی ہے اس لیے دوستی کے ضابطہ مـیں اس کو داخل کرسکتے ہیں، باقی مـیرا ث وغیرہ اس کو مل سکتی کیونکہ مـیراث اضطراری امر ہے، اختیـاری نہیں کہ جس کو چاہا مـیراث دلوادیـا، جس کو چاہا محروم کردیـا۔
"عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ مِنْ بَعْدِهِ فَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنْ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنْ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَا يَمْلِكُهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ وَلَا يُورَثُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنًا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ يَعْنِي بِذَلِكَ مَا قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ "
( ابن ماجہ، باب فی ادعاء الولد، حدیث نمبر:۲۷۳۶)
غیرمسلموں کے حقوق
جس طرح اسلام یـارشتہ دار کی وجہ سے بہت سے حقوق ثابت ہوتے ہیں، بعض حقوق صرف معمولی مطابقت کی وجہ سے بھی ثابت ہوجاتے ہیں، یعنی صرف آدمـی ہونے کی وجہ سے ان کی رعایت واجب ہوتی ہے گومسلمان نہ ہو وہ یہ ہیں:
(۱)بلاوجہی کو جانی یـامالی تکلیف نہ دیں۱؎ (۲)بلاوجہ شرعیی کے ساتھ بدزبانی نہ کرے۲؎ (۳)اگری کو مصیبت، فاقہ اور مرض مـیں دیکھے تو اس کی مدد کرے، کھانا پانی دیدے، علاج معالجہ کردے۳؎ (۴)جس صورت مـیں شریعت نے سزا کی اجازت دی ہے، اس مـیں بھی ظلم وزیـادتی نہ کرے، اس کوی بات مـیں نہ ترسائے۴؎۔حوالہ
(۱۔۲)"عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْحَمُ اللَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ" بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى {قُلْ ادْعُوا اللَّهَ أَوْ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى}، حدیث نمبر:۶۸۲۸۔ "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ" ترمذی، باب ماجاء فی رحمۃ الناس، حدیث نمبر:۱۸۴۷۔ "عَنْ مُحَمَّد عن جده، قال: قال رسول اللهﷺ: اصنع المعروف إلى من هو أهله وإلى من ليس هو أهله ، فإن أصبت أهله فهو أهله، وإن لم تصب أهله فأنت من أهله" مسندشہاب القضاعی، باب اصنع المعروف الی من ھواھلہ والی منھو اھلہ، حدیث نمبر:۶۹۷۔ (۳)"عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُودُوا الْمَرِيضَ وَفُكُّوا الْعَانِيَ" بخاری،باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات، حدیث نمبر:۴۹۵۴۔ "عَنْ مُحَمَّد عن جده، قال: قال رسول اللهﷺ: اصنع المعروف إلى من هو أهله وإلى من ليس هو أهله ، فإن أصبت أهله فهو أهله، وإن لم تصب أهله فأنت من أهله" مسندشہاب القضاعی، باب اصنع المعروف الی من ھواھلہ والی منھو اھلہ، حدیث نمبر:۶۹۷۔ (۴)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ" ترمذی، باب ماجاء فی رحمۃ الناس، حدیث نمبر:۱۸۴۷۔ "عَنْ مُحَمَّد عن جده، قال: قال رسول اللهﷺ: اصنع المعروف إلى من هو أهله وإلى من ليس هو أهله ، فإن أصبت أهله فهو أهله، وإن لم تصب أهله فأنت من أهله"مسندشہاب القضاعی، باب اصنع المعروف الی من ھواھلہ والی منھو اھلہ، حدیث نمبر:۶۹۷۔ "عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ" مسلم، باب الامر باحسان الذبح والقتل وتجدید الشقرۃ، حدیث نمبر:۳۶۱۵۔ "عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى عَنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّي فَتَضُرُّونِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي فَتَنْفَعُونِي يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ " مسلم، باب تحریم الظلم، حدیث نمبر:۴۶۷۴۔ "عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفاحش والمتفحش، وإياكم والظلم فإن الظلم، هي الظلمات يوم القيامة، وإياكم والشح فإن الشح، دعا من كان قبلكم، فسفكوا دماءهم وقطعوا أرحامـهم" صحیح ابن حبان، باب ذکر الزجر عن الظلم والفحش والشح، حدیث نمبر:۵۱۷۷عن ابی ھریرۃؓ۔
وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسٰنًا وَبِذِى القُربىٰ وَاليَتٰمىٰ وَالمَسٰكينِ وَالجارِ ذِى القُربىٰ وَالجارِ الجُنُبِ وَالصّاحِبِ بِالجَنبِ وَابنِ السَّبيلِ وَما مَلَكَت أَيمٰنُكُم ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَن كانَ مُختالًا فَخورًا {4:36}
اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کای کو [۷۰] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والےاور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ بیشک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا [۷۱]
یعنی عبادت اور نیک عمل خدا پر یقین کر کے اور ثواب آخرت کی توقع سے کرو فخر اور ریـا سے مال دینا یہ بھی شرک ہے گو کم درجہ کا ہے۔
یتامٰی اور نساء اور ورثہ اور زوجین کے حقوق اور انکے ساتھ حسن معاملہ کو بیـان فرما کر اب یہ ارشاد ہےکہ ہر ایک کا حق درجہ بدرجہ تعلق کے موافق اور حاجتمندی کے مناسب ادا کرو سب سے مقدم اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر ماں باپ کا پھر درجہ بدرجہ سب واسطہ داروں اور حاجتمندوں کا اور ہمسایہ قریب اور غیر قریب سے مراد قرب و بُعد نسبی ہے یـا قرب و بُعد مکانی صورت اولیٰ مـیں یہ مطلب ہوگا کہ ہمسایہ قرابتی کا حق ہمسایہ اجنبی سے زیـادہ ہوگا اورصورت ثانیہ کا مدعا یہ ہو گا کہ پاس کا ہمسایہ کا حق بعید یعنی جو کہ فاصلہ سے رہتا ہے اس سے زیـادہ ہے اور پاس بیٹھنے والے مـیں رفیق سفر اور پیشہ کے اور کام کے شریک اور ایک آقا کے دو نوکر اور ایک استاد کے دو شاگرد اور دوست اور شاگرد اور مرید وغیرہ سب داخل ہیں اور مسافر مـیں مہمان غیر مہمان دونوں آ گئے اور مال مملوک غلام اور لونڈی کے علاہ دیگر حیوانات کو بھی شامل ہے آخر مـیں فرما دیـا کہ جس کے مزاج مـیں تکبر اور خود پسندی ہوتی ہے کہی کو اپنے برابر نہ سمجھے اپنے مال پر مغرور اور عیش مـیں مشغول ہو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتا سو اس سے احتراز رکھو اور جدا رہو۔
ظلم تین (3) ہیں:
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الظُّلْمُ ثَلاثَةٌ : فَظُلْمٌ لا يَتْرُكُهُ اللَّهُ ، وَظُلْمٌ يُغْفَرُ ، وَظُلْمٌ لا يُغْفَرُ ، فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لا يُغْفَرُ فَالشِّرْكُ لا يَغْفِرُهُ اللَّهُ ، وَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يُغْفَرُ فَظُلْمُ الْعَبْدِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ ، وَأَمَّا الَّذِي لا يُتْرَكُ فَقَصُّ اللَّهِ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ " .
[مسند أبي داود الطيالسي » أَحَادِيثُ النِّسَاءِ » وَمَا أَسْنَدَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ ... » يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ۔۔۔ رقم الحديث: 2209(2223)]
حَتَّى يَدِينَ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ .
[البحر الزخار بمسند البزار 10-13 » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ » زِيَادٌ النُّمَيْرِيُّ عَنْهُ ۔۔۔ رقم الحديث: 2029(6493)]
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر ... » كِتَابُ الْفُتُوحِ » بَابُ الْمَظَالِمِ ۔۔۔ رقم الحديث: 4734(4581)]
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایـا: ظلم کی تین (3) قسمـیں ہیں: ایک ظلم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائیں گے، اور ایک ظلم وہ ہے جسے معاف فرمادیں گے، اور ایک ظلم وہ جسے معاف نہیں کریں گے۔
تو جس ظلم کو بخش نہیں فرمائیں گے وہ شرک ہے [اللہ نے فرمایـا: بیشک شرک عظیم ظلم ہے(لقمان:13)]۔ اور جس ظلم کو معاف فرمادیں گے تو وہ بندوں کا (اپنی جانوں پر) ظلم ہے جس کا تعلق بندے اور اس کے رب سے ہے۔ اور وہ ظلم جسے نہیں چھوڑیں گے تو وہ بعض بندوں کا بعض پر ظلم وستم ہوگا، یہاں تک کہ ایک دوسرے سے بدلہ لےلیں گے۔
[أخرجه ابوداود الطيالسى (ص 282، رقم 2109) . وأخرجه أيضًا: أبو نعيم فى الحلية (6/309).]
خلاصة حكم المحدث : حسن
[المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع:3961، السلسلة الصحيحة:1927]
تشریح:
1۔ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہےی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا، مثلای کا حق دوسرے کو دے دینا، علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے، اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یـا زیـادہ، اس لیے بڑا گناہ ہو یـا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے، دیکھیئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیـا او رابلیس کو بھی ظالم کہا گیـا، حالانکہ دونوں مـیں بے حد فرق ہے۔ (مفردات راغب)
2۔ ظلم کی تین قسمـیں ہیں:
الف: اللہ تعالی کے متعلق ظلم:
اس کی سب سے بڑی قسمـیں کفر، شرک او نفاق ہے کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایـا:
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴾ [لقمان: 31/13]
’’ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
اور فرمایـا:
﴿وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾ [هود:11/ 18]
’’ اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبر دار! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘
ب: لوگوں پر ظلم:
ان آیـات مـیں یہی مراد ہے:
﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ [الشوری: 42/ 40]
’’برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔‘‘
اور فرمایـا:
﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ [42/ 40]
’’ یقینا وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ﴾ [الشوری:42/ 42]
’’صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘
ج: اپنی جان پر ظلم :
ان آیـات مـیں یہی مراد ہے:
﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ﴾ [الفاطر: 35/ 32]
’’ پھر ان مـیں بض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
اور فرمایـا:
﴿ظَلَمْتُ نَفْسِي﴾ [القصص: 28/ 16]
’’ مـیں نے اپنی جان پر ظلم کیـا۔‘‘
اور فرمایـا:
﴿فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ [البقرة: 2/ 35]
’’ بعد تم دونوں ظالموں مـیں سے ہو جاؤ گے۔‘‘
ان تینوں قسموں مـیں سے درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایـا:
﴿وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾
[الأعراف: 7/ 160]
’’ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیـا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیـا کرتے تھے۔‘‘
3۔ ظلم قیـامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، اندھیروں مـیں سے مراد یـا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیـامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی، جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا:
﴿نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ﴾ [التحریم: 66/8 ]
’’ ان کا نور ان کےآگے اور ان کے دائیں طرف دور رہا ہو گا۔‘‘
یـا قیـامت کے دن کی سختیـاں مراد ہیں جیسا کہ
﴿قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ [الأنعام: 6/ 63]
’’ کہہ دیجئے! جو تمہیں خشکی اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔‘‘
اس آیت مـیں مذکورہ ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیـاں ہیں یـا قیـامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں وہ مراد ہیں۔ (سبل)
4۔ ظلم قیـامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، کیونکہ وہ کفر و شرک کی صورت یمں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے:
﴿إِنَّهُ ُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ [المائدة: 5/ 72]
’’پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔‘‘
ظالموں مـیں سے نہ ہونے کی دعا
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ
اے ہمارے رب ہمـیں ظالموں کے ساتھ نہ ملا (سورۃ الاعراف،آیت 47)
دفتر تین (3) ہیں:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ : أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى , قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدَّوَاوِينُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ دِيوَانٌ لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِ شَيْئًا , وَدِيوَانٌ لَا يَتْرُكُ اللَّهُ مِنْهُ شَيْئًا , وَدِيوَانٌ لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ , فَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ فَالشِّرْكُ بِاللَّهِ , قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ سورة المائدة آية 72 وَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِ شَيْئًا فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ مِنْ صَوْمِ يَوْمٍ تَرَكَهُ أَوْ صَلَاةٍ تَرَكَهَا , فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَغْفِرُ ذَلِكَ وَيَتَجَاوَزُ إِنْ شَاءَ , وَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَتْرُكُ اللَّهُ مِنْهُ شَيْئًا فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا , الْقِصَاصُ لَا مَحَالَةَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » سادس عشر الأنصار » حَدِيثُ السَّيِّدَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ... رقم الحديث: 25448(25499)]
ﺍﻡ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺩﻓﺘﺮ ﺗﯿﻦ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮕﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﯾﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮕﺎ ﻭﮦ ﺷﺮﯾﮏ ﭨﮭﮩﺮﺍﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭ ﺟﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭ ﺟﻞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺑﯿﺸﮏ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮧ ﺑﺨﺸﮯ ﮔﺎ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﭨﮭﮩﺮﺍﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺨﺶ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ) ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ( ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ) ﺳﻮﺭﮦ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ : ٤٨ ( ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﭼﺎﮨﯿﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺭ ﮔﺰﺭﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮕﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﯾﮕﺎ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﮑﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ ۔
[أخرجه أحمد (6/240، رقم 26073) ، قال الهيثمى (10/348) : فيه صدقة بن موسى، وقد ضعفه الجمـهور، وكان صدوقًا، وبقية رجاله ثقات. والحاكم (4/619، رقم 8717) وقال: صحيح الإسناد. قال المناوى (3/552) : رده الذهبى بأن صدقة ضعفوه، وابن بابنوس فيه جهالة. وأخرجه أيضًا: البيهقى فى شعب الإيمان (6/52، رقم 7473) .]
حقوق العباد (بندوں کے حقوق):
جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کی ادائیگی مـیں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر ان گناہوں کا تعلق‘ حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاًی شخص کا سامان چرایـا، یـای شخص کو تکلیف دی یـای شخص کا حق مارا، تو قرآن وحدیث کی روشنی مـیں تمام علماء و فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے او پر حق ہے، اس کا حق ادا کریں یـا اس سے حق معاف کروائیں، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـاہے : شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، مگری شخص کاقرضہ۔ (مسلم، ۱۸۸۶) یعنی اگری شخص کا کوئی قرضی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیـا جائے، وہ ذمہ مـیں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیـا جائے۔ مشہور محدث حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح مـیں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد ‘ تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے مـیں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔ (شرح مسلم)
معلوم ہوا کہ ہمـیں حقوق العباد کی ادائیگی مـیں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـاہے : کیـا تم جانتے ہو کہ مفلسہے؟ صحابہ نے عرض کیـا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیـا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـا: مـیری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیـامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نےی کو گالی دی ہوگی،ی پر تہمت لگائی ہوگی،ی کا مال کھایـا ہوگا،ی کا خون بہایـا ہوگا یـای کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں مـیں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیـاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں مـیں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیـاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیـاں ختم ہوجائیںتو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیـا مـیں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ مـیں پھینک دیـا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم) یہ ہے اس امت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود ‘ حقوق العباد مـیں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم مـیں ڈال دیـا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد مـیں بھی کوتا ہی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمـین۔
حقوق العباد کیسے معاف ہوں گے؟؟؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے “آپ ﷺ نے فرمایـا کہ مـیری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیـامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیـا مـیںی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،ی کا مال کھایـا ہوگا،ی کو قتل کیـا ہوگا،ی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں مـیں اس کی نیکیـاں بانٹ دی جائیںپھر اگر اس کی نیکیـاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیـاں اس کے حساب مـیں ڈال دی جائیںاور پھر اسے جہنم مـیں گھسیٹ کر پھینک دیـا جائے گا” (رواہ مسلم)
ﻋﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ :ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ کچھ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﯿﮟ، ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺻﺒﮩﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ " ﺗﺮﻏﯿﺐ ﻭﺗﺮﮨﯿﺐ " ﻣﯿﮟ ﺑﺮﻭﺍﯾﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﯾﮧ ﺣﻘﻮﻕ ﻧﻘﻞ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ:((للمسلم على المسلم ثلاثون حقاً ولا براءة له منـها إلا بالأداء أو العفو، يغفر له زلته، ويرحم عبرته، ويستر عورته، ويقيل عثرته، ويقبل معذرته، ويرد غيبته ويديم نصيحته، ويحفظ خلته، ويرعى ذمته، ويعود مرضته، ويشـهد ميتته، ويجيب دعوته، ويقبل هديته ويكافئ صلته، ويشكر نعمته، ويحسن نصرته، ويحفظ حليلته، ويقضي حاجته، ويشفع مسألته ويشمت عطسته، ويرشد ضالته، ويرد سلامـه، ويطيب كلامـه، ويبر إنعامـه، ويصدق أقسامـه، وينصره ظالماً أو مظلوماً، ويواليه ولا يعاديه، وأما نصرته ظالماً فيرده عن ظلمـه، وأما نصرته مظلوماً فيعينـه على أخذ حقه ولا يسلمـه ولا يخذله، ويحب له من الخير ما يحب لنفسه ويكره له من الشر ما يكره لنفسه، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أحدكم ليدع من حقوق أخيه شيئاً فيطالبه بـه يوم القيامة. [ص:70] فقال أمير المؤمنين: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أحدكم ليدع تشميت [العاطس] إذا عطس فيطالبه بـه يوم القيامة فيقضي له عليه)) .
[ﺍﻟﺘﺮﻏﯿﺐ ﻭﺍﻟﺘﺮﮬﯿﺐ، ﻟﻼٔﺻﺒﮭﺎﻧﯽ: ﺑﺎﺏ ﻓﯽ ﺍﻟﺘﺮﻏﯿﺐ ﻓﯽ ﻗﻀﺎﺀ ﺣﻮﺍﺋﺞ ﺍﻟﻤﺴﻠﻢ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۱۱۶۸(1170)]
(۱) ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻟﻐﺰﺵ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﮮ (۲) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﮮ (۳) ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﯿﺐ ﮐﻮ ﮈﮬﺎﻧﮑﮯ (۴) ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺬﺭ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ (۵) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﮮ (۶) ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﮯ (۷) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻭﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ (۸) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮐﺮﮮ (۹) ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﮮ (۱۰) ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ (۱۱) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ (۱۲) ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺪﯾﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ (۱۳) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﮑﺎﻓﺎﺕ ’یعنی بدلہ عطا‘ ﮐﺮﮮ (۱۴) ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﺎ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﮮ (۱۵) ﻭﻗﺖ ﭘﮍﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ (۱۶) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﮨﻞ ﻭﻋﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ (۱۷) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ (۱۸) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﻮ ﺳﻨﮯ )(۱۹) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻔﺎﺭﺵ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ (۲۰) ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺮﺍﺩ ﺳﮯ ﻧﺎﺍﻣﯿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ (۲۱) ﻭﮦ ﭼﮭﯿﻨﮏ ﮐﺮ "ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ" ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ "ﯾَﺮْﺣَﻤُﮏ ﺍﻟﻠﮧ" ﮐﮩﮯ (۲۲) ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﻤﺸﺪﮦ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﮮ (۲۳) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ (۲۴) ﻧﺮﻣﯽ ﻭﺧﻮﺵ ﺧﻠﻘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﮮ (۲۵) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺮﮮ (۲۶) ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﭘﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺩﮮ (۲۷) ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﮎ ﺩﮮ (۲۸) ﺍﺱ ﮐﮯ ساتھ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ، ﺩﺷﻤﻨﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ (۲۹) ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﺳﻮﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ (۳۰) ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﮮ۔
[البدر المنير: 9/50]
"ﯾﮧ ﺗﯿﺲ ﺣﻘﻮﻕ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ" ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺣﻘﻮﻕ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ:
(۳۱) ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ۱؎
(۳۲) ﺍﮔﺮﺑﺎﮨﻢ ﺍﺗﻔﺎﻗﺎً ﮐﭽﮫ ﺭﻧﺠﺶ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮﮎ ﮐﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۲؎
(۳۳) ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۳؎
(۳۴) ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﻭﺑﻐﺾ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۴؎
(۳۵) ﺍﻣﺮﺑﺎﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻭﻧﮩﯽ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﻨﮑﺮ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮐﺮﮮ۵؎
(۳۶) ﭼﮭﻮﭨﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﮮ۶؎
(۳۷) ﺩﻭﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﻢ ﻣﻼﮐﺮ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﺍﺩﮮ۷؎
(۳۸) ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺒﺖ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۸؎
(۳۹) ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ، ﻧﮧ ﻣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﺑﺮﻭ ﻣﯿﮟ۹؎
(۴۰) ﺍﮔﺮ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﮯ ﯾﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻧﮧ ﻻﺩﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮕﺎﺩﮮ۱۰؎
(۴۱) ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ۱۱؎
(۴۲) ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺁﺩﻣﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۱۲؎
(۴۳) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﮦ ﭼﯿﺰ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﭩﺎﺩﮮ۱۳؎
(۴۴) ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻐﻠﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۱۴؎
(۴۵) ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ کچھ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﻔﺎﺭﺷﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺳﻔﺎﺭﺵ ﮐﺮﮮ۱۵؎۔
ﻧﻮﭦ : ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ! ﮐﮧ ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻭﭘﺮ ﺫﮐﺮ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺧﺎﺹ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔
ﺣﻮﺍﻟﮧ
(۱) ﻋَﻦْ ﺍﻟْﺒَﺮَﺍﺀِ ﺑْﻦِ ﻋَﺎﺯِﺏٍ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺇِﺫَﺍ ﺍﻟْﺘَﻘَﻰ ﺍﻟْﻤُﺴْﻠِﻤَﺎﻥِ ﻓَﺘَﺼَﺎﻓَﺤَﺎ ﻭَﺣَﻤِﺪَﺍ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞَّ ﻭَﺍﺳْﺘَﻐْﻔَﺮَﺍﻩُ ﻏُﻔِﺮَ ﻟَﻬُﻤَﺎ " ﺍﺑﻮﺩﺍﻭٔﺩ، ﺑﺎﺏ ﻓﯽ ﺍﻟﻤﺼﺎﻓﺤۃ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۵۳۵۔
(۲۔۳۔۴) ﻋَﻦْ ﺃَﻧَﺲِ ﺑْﻦِ ﻣَﺎﻟِﻚٍ ﺃَﻥَّ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ ﻟَﺎ ﺗَﺒَﺎﻏَﻀُﻮﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺤَﺎﺳَﺪُﻭﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺪَﺍﺑَﺮُﻭﺍ ﻭَﻛُﻮﻧُﻮﺍ ﻋِﺒَﺎﺩَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺇِﺧْﻮَﺍﻧًﺎ ﻭَﻟَﺎ ﻳَﺤِﻞُّ ﻟِﻤُﺴْﻠِﻢٍ ﺃَﻥْ ﻳَﻬْﺠُﺮَ ﺃَﺧَﺎﻩُ ﻓَﻮْﻕَ ﺛَﻠَﺎﺙِ ﻟَﻴَﺎﻝٍ " ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺑﺎﺏ ﺍﻟﮭﺠﺮۃ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۵۶۱۲۔
(۵) ﺧُﺬِ ﺍﻟْﻌَﻔْﻮَ ﻭَﺃْﻣُﺮْ ﺑِﺎﻟْﻌُﺮْﻑِ ﻭَﺃَﻋْﺮِﺽْ ﻋَﻦِ ﺍﻟْﺠَﺎﻫِﻠِﻴﻦَ " ﺍﻻﻋﺮﺍﻑ : ۱۹۹۔
(۶) ﻋﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﻓﻌﻪ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻮﻗﺮ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ ﻭﻳﺮﺣﻢ ﺍﻟﺼﻐﻴﺮ ﻭﻳﺄﻣﺮ ﺑﺎﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻭﻳﻨﻪ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﻨﻜﺮ " ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﺑﺎﺏ ﺫﮐﺮ ﺍﻟﺰﺟﺮ ﻋﻦ ﺗﺮﮎ ﺗﻮﻗﯿﺮﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۵۸۔
(۷) ﻋَﻦْ ﺃُﻣِّﻪِ ﺃُﻡِّ ﻛُﻠْﺜُﻮﻡٍ ﺑِﻨْﺖِ ﻋُﻘْﺒَﺔَ ﻗَﺎﻟَﺖْ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳَﻘُﻮﻝُ ﻟَﻴْﺲَ ﺑِﺎﻟْﻜَﺎﺫِﺏِ ﻣَﻦْ ﺃَﺻْﻠَﺢَ ﺑَﻴْﻦَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺧَﻴْﺮًﺍ ﺃَﻭْ ﻧَﻤَﻰ ﺧَﻴْﺮًﺍ " ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﺫﺍﺕ ﺍﻟﺒﯿﻦ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۱۸۶۱۔ ) ۸ "( ﻋَﻦْ ﺃَﺑِﻲ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻟَﺎ ﺗَﺤَﺎﺳَﺪُﻭﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﻨَﺎﺟَﺸُﻮﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺒَﺎﻏَﻀُﻮﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺪَﺍﺑَﺮُﻭﺍ ﻭَﻟَﺎ ﻳَﺒِﻊْ ﺑَﻌْﻀُﻜُﻢْ ﻋَﻠَﻰ ﺑَﻴْﻊِ ﺑَﻌْﺾٍ ﻭَﻛُﻮﻧُﻮﺍ ﻋِﺒَﺎﺩَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺇِﺧْﻮَﺍﻧًﺎ " ﻣﺴﻠﻢ، ﺑﺎﺏ ﺗﺤﺮﯾﻢ ﻇﻠﻢ ﺍﻟﻤﺴﻠﻢ ﻭﺧﺬﻟﮧ ﻭﺍﺣﺘﻘﺎﺭﮦ ﻭﺩﻣﮧ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۶۵۰۔ ) ۹ "( ﻋﻦ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ، ﻣﻮﻟﻰ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲﷺ ﺃﻭﺻﻰ ﺭﺟﻼ ﻏﺰﺍ ﻗﺎﻝ : ﻭﻻﺗﻘﻄﻊ ﺷﺠﺮﺓ ﻣﺜﻤﺮﺓ، ﻭﻻﺗﻘﺘﻞ ﺑﻬﻴﻤﺔ ﻟﻴﺴﺖ ﻟﻚ ﺑﻬﺎ ﺣﺎﺟﺔ، ﻭﺍﺗﻖ ﺃﺫﻯ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ " ﻣﺮﺍﺳﯿﻞ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭٔﺩ، ﺑﺎﺏ ﻭﻻﺗﻘﻄﻊ ﺷﺠﺮۃ ﻣﺜﻤﺮۃ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۲۹۴۔ ) ۱۰ "( ﻋَﻦْ ﺃَﺑِﻲ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻣَﻦْ ﻧَﻔَّﺲَ ﻋَﻦْ ﻣُﺆْﻣِﻦٍ ﻛُﺮْﺑَﺔً ﻣِﻦْ ﻛُﺮَﺏِ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ﻧَﻔَّﺲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻛُﺮْﺑَﺔً ﻣِﻦْ ﻛُﺮَﺏِ ﻳَﻮْﻡِ ﺍﻟْﻘِﻴَﺎﻣَﺔِ ﻭَﻣَﻦْ ﻳَﺴَّﺮَ ﻋَﻠَﻰ ﻣُﻌْﺴِﺮٍ ﻳَﺴَّﺮَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻓِﻲ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ﻭَﺍﻟْﺂﺧِﺮَﺓِ " ﻣﺴﻠﻢ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﻻﺟﺘﻤﺎﻉ ﻋﻠﯽ ﺗﻼﻭۃ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۸۶۷۔ ) ۱۱ "( ﻋَﻦْ ﺍﺑْﻦِ ﻋُﻤَﺮَ ﻋَﻦْ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ ﻟَﺎ ﻳُﻘِﻴﻢُ ﺍﻟﺮَّﺟُﻞُ ﺍﻟﺮَّﺟُﻞَ ﻣِﻦْ ﻣَﻘْﻌَﺪِﻩِ ﺛُﻢَّ ﻳَﺠْﻠِﺲُ ﻓِﻴﻪِ " ﻣﺴﻠﻢ، ﺑﺎﺏ ﺗﺤﺮﯾﻢ ﺍﻗﺎﻣۃ ﺍﻻﻧﺴﺎﻥ ﻣﻦ ﻣﻮﺿﻌﮧ ﺍﻟﻤﺒﺎﺡ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۰۴۴۔ ) ۱۲ "( ﻋَﻦْ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﺃَﻥَّ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ ﺇِﺫَﺍ ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﺛَﻠَﺎﺛَﺔٌ ﻓَﻠَﺎ ﻳَﺘَﻨَﺎﺟَﻰ ﺍﺛْﻨَﺎﻥِ ﺩُﻭﻥَ ﺍﻟﺜَّﺎﻟِﺚِ " ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺑﺎﺏ ﻻﯾﺘﻨﺎﺟﯽ ﺍﺛﻨﺎﻥ ﺩﻭﻥ ﺍﻟﺜﺎﻟﺚ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۵۸۱۴۔ ) ۱۳ "( ﻋَﻦْ ﺃَﺑُﻮ ﺑَﺮْﺯَﺓ ﻗَﺎﻝَ ﻗُﻠْﺖُ ﻳَﺎ ﻧَﺒِﻲَّ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠِّﻤْﻨِﻲ ﺷَﻴْﺌًﺎ ﺃَﻧْﺘَﻔِﻊُ ﺑِﻪِ ﻗَﺎﻝَ ﺍﻋْﺰِﻝْ ﺍﻟْﺄَﺫَﻯ ﻋَﻦْ ﻃَﺮِﻳﻖِ ﺍﻟْﻤُﺴْﻠِﻤِﻴﻦَ " ﻣﺴﻠﻢ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﺯﺍﻟۃ ﺍﻻٔﺫﯼ ﻋﻦ ﺍﻟﻄﺮﯾﻖ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۷۴۷۔ ) ۱۴ "( ﻋَﻦْ ﺃَﺑِﻲ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻟَﺎ ﺗَﺤَﺎﺳَﺪُﻭﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﻨَﺎﺟَﺸُﻮﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺒَﺎﻏَﻀُﻮﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺪَﺍﺑَﺮُﻭﺍ ﻭَﻟَﺎ ﻳَﺒِﻊْ ﺑَﻌْﻀُﻜُﻢْ ﻋَﻠَﻰ ﺑَﻴْﻊِ ﺑَﻌْﺾٍ ﻭَﻛُﻮﻧُﻮﺍ ﻋِﺒَﺎﺩَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺇِﺧْﻮَﺍﻧًﺎ " ﻣﺴﻠﻢ، ﺑﺎﺏ ﺗﺤﺮﯾﻢ ﻇﻠﻢ ﺍﻟﻤﺴﻠﻢ ﻭﺧﺬﻟﮧ ﻭﺍﺣﺘﻘﺎﺭﮦ ﻭﺩﻣﮧ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۴۶۵۰۔ ) ۱۵ "( ﻋَﻦْ ﺃَﺑِﻴﻪِ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻗَﺎﻝَ ﻛَﺎﻥَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺇِﺫَﺍ ﺟَﺎﺀَﻩُ ﺍﻟﺴَّﺎﺋِﻞُ ﺃَﻭْ ﻃُﻠِﺒَﺖْ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ﺣَﺎﺟَﺔٌ ﻗَﺎﻝَ ﺍﺷْﻔَﻌُﻮﺍ ﺗُﺆْﺟَﺮُﻭﺍ ﻭَﻳَﻘْﻀِﻲ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻰ ﻟِﺴَﺎﻥِ ﻧَﺒِﻴِّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻣَﺎ ﺷَﺎﺀَ " ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺘﺤﺮﯾﺾ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺼﺪﻗۃ ﻭﺍﻟﺸﻔﺎﻋﺖ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : ۱۳۴۲۔
حضرات صحابہ کرامؓ کے حقوق وآداب
قال الله تعالیٰ:﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار الذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنھم ورضوا عنہ وأعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار، خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾۔(سورة توبہ،آیت:100)ترجمہ:مہاجرین وانصار مـیں سے جو سب سے پہلے ( ایمان لانے مـیں ) سبقت کرنے والے ہیں او رپھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے او رالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیـار کر رکھی ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں، ان مـیں یہ ہمـیشہ ہمـیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یـابی ہے۔
بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عہنم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان، سنت نبوی ( علی صاحبھا الصلوٰة والسلام) کے عامل ومبلغ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی او رامت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ مـیں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ، کیوں کہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت وراہ نمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامـی سانچہ مـیں ڈھال کر پوری امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ وآئیڈیل بنا دیـا تھا۔ قرآن مجید مـیں ہے کہ ” اور اسی طرح ہم نے تم (مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایـا ہے، تاکہ تم دنیـا کے عام لوگوں پر گواہ رہو۔“ (سورہ بقرہ/143) اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح مـیں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام مـیں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یـا ا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔
حضرات صحابہٴ کرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیـات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث مـیں روایـات منقول ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اور ان صحابہٴ کرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہر بار نے کیـا خوب کرایـا ہے کہ:
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیـار کیے ہوئے افراد مـیں سے ایک ایک نبوت کا شاہ کار ہے اور نوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع مـیں بلکہ اس پوری کائنات مـیں حضرات پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیـادہ حسین وجمـیل، اس سے زیـادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی، جو ان کی زندگی مـیں نظر آتی ہے ، ان کا پختہ یقین، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل ، ان کی بے تکلف زندگی ، ان کی بے نفسی، خدا ترسی، ان کی پاک بازی، پاکیزگی، ان کی شفقت ورافت او ران کی شجاعت وجلادت، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی شہ سواری او ران کی شب زندہ داری ، ان کی سیم وزر سے بے پروائی او ران کی دنیـا سے بے رغبتی ، ان کا عدل ، ان کا حسن انتظام دنیـا کی تاریخ مـیں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اور مختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحد القلوب خاندان مـیں تبدیل ہو گئے اور اسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کو شِیروشکر بنا دیـا۔“ ( دو متضاد تصویریں)
اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب ”سنین اسلام“ مـیں صحابہٴ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل مـیں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امـین تھے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت اوران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم مـیں پہنچا دیـا تھا، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحولی نے دیکھا نہیں تھا، درحقیقت ان لوگوں مـیں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا اور بعد مـیں انہوں نے جنگ کے مواقع پر، مشکل ترین حالات مـیں ،اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیززمـین مـیں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود مـیں آئے ، یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امـین او راس کے حافظ تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یـا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“
ان صحابہٴ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث مـیں بہت کثرت سے بیـان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ، حج، مجادلہ، حشر، صف اور بینہ) مـیں حضرات صحابہٴ کرام کی بہت سی امتیـازی صفات او رکمالات مختلف انداز واسلوب مـیں بیـان ہوئے ہیں ، ان سے قابل ذکر خصوصیـات یہ ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام ، الله تعالیٰ کے منتخب ومختار بندے ہیں او رحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیـا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78)
نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور بخشے بخشائے ہیں،حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ”رضی الله عنہم ورضوا عنہ“ کا پراونہ خوش نودی عطا فرما دیـا ہے۔ ( سورہ توبہ:100)
اور الله تعالیٰ نے دنیـا مـیں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے ۔ (سورہ حج:21)
اور آخرت مـیں الله تعالیٰ نے ہرصحابی سے ان کے ایمان ، انفاق اورجانی قربانیوں کے نتیجہ مـیں ” جنت“ کا اہم وعدہ فرمایـا ہے ۔ (سورہ حدید :10)
اسی طرح احادیث مبارکہ مـیں حضرات صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ،احادیث کی تمام کتابوں مـیں بہت اہتمام کے ساتھ مناقبِ صحابہ بیـان ہوئے ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ، ایک حدیث شریف مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـا ہے کہ ” سب سے بہتر مـیرے زمانہ کے لوگ ہیں “۔ (بخاری ومسلم)
ایک دوسری حدیث مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا کہ ” تم لوگ تمام روئے زمـین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ ( بخاری ومسلم)
حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” الله تعالیٰ نے حضرات انبیـا علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق مـیں سے مـیرے صحابہ کو چھانٹا ہے او ران مـیں سے چار ( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی) کو ممتاز کیـا ہے ،ان کو مـیرے سب صحابہ سے افضل قرار دیـا ہے۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ”آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب او راپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایـا۔“ (مؤ طا امام محمد)
اسی طرح حضرات صحابہٴ کرام دنیـا مـیں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث مـیں ہے کہ ” مـیرے صحابہ مـیری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب مـیرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیـارے ہو جائیں گے تو مـیر ی امت پر تمام وہ آفات اور مصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدان کو دی گئی ہیں۔ “( مسلم)
حضرات صحابہٴ کرام اس دنیـامـیں خیروبرکت اور فتح ونصرت کا موجب ہیں ، ایک حدیث مـیں ہے کہ ” ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیـا جائے گا او ر( بوقت روانگی وجہاد ) لوگ اس تلاش وجستجو مـیں ہوں گے کہ کیـا اس لشکر مـیں کوئی صحابی موجود ہیں؟ ایک صحابی اس لشکر مـیں مل جائیں گے او رانہی کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“ (بخاری ومسلم)
اور حضرات صحابہٴ کرام قیـامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے، ایک حدیث مـیں ہے کہ ”کوئی صحابیی سر زمـین وعلاقہ مـیں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز قیـامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے“۔ ( ترمذی)
حضرات صحابہٴ کرام مـیں سے ہر ایک صحابی جنت جائیں گے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث مـیں ہے کہ ” جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یـا مـیرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے ۔ “ ( ترمذی)
قرآن وحدیث مـیں حضرات صحابہٴ کرام کے کچھ حقوق وآداب بیـان ہوئے ہیں ،ان مـیں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایـانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ حضرات صحابہ کرام کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز مـیں دیـا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” مـیرے صحابہ کا اکرام کرو، کیوں کہ صحابہ تم تمام مـیں سب سے زیـادہ بہتر ہیں ۔“ (نسائی)
حضرات صحابہٴ کرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے مـیں بڑی احتیـاط سے کام لیـا جائے، کیوں کہ حضرات صحابہٴ کرام کے پاس ولحاظ کرنے مـیں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے، روز قیـامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہواور حوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” جوشخص حضرات صحابہ کے بارے مـیں مـیری رعایت کرے گا، مـیں قیـامت کے دن ان کا محافظ ہوں گا“۔ ایک دوسری حدیث مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامـی ہے کہ ”جو مـیرے صحابہ کے بارے مـیں رعایت رکھے گا وہ مـیرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے مـیں مـیری رعایت نہ کرے گا وہ مـیرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا او رمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔“ (حکایت صحابہ)
حضرات صحابہٴ کرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اور تعلق رکھا جائے ، کیوں کہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومـی وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث مـیں بہت ہی جامع انداز مـیں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے مـیرے صحابہ کے بارے مـیں ڈرو، الله تعالیٰ سے مـیرے صحابہ کے سلسلہ مـیں ڈرو، مـیرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ، جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے ، مـیری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے او رجوان سے بغض رکھتا ہے وہ مـیرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ، جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دے ، اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی ، اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتا ہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیـا وآخرت مـیں ) سزا اور عذاب مـیں مبتلا کر دے ۔“ ( ترمذی)
ایک دوسری حدیث مـیں بہت ہی بلیغ ومؤثر اسلوب مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا کہ ” مـیرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم مـیں سے کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مُد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ ) یـا نصف مد ( جَو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا ۔“ (بخاری ومسلم)
یقینا حضرات صحابہٴ کرام کی شان مـیں گستاخی کرنا الله تعالیٰ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے، ایک حدیث مـیں ہے کہ ” جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیـاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمـیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل۔“ ( حکایت صحابہ)
ایک دوسری حدیث مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیـا ہے کہ “ جب تم لوگ حضرات صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے (منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو۔“( ترمذی)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ حضرات صحابہ کرام کو گالی دینا حرام اورگناہ کبیرہ مـیں سے ہے ۔ اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ حضرات صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیوں کہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے او ران کی تنقیص ( بے عزتی) نفاق کی پہچان ہے ۔ حضرت ایوب سختیـانی نے بالکل بجا فرمایـا ہے کہ ” جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق اور سنت کا مخالف ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایت صحابہ)
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام کی شان عالی مـیں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیـار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث مـیں اپنی امت کو زور دار انداز مـیں متنبہ فرمایـا ہے کہ ” بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں مـیں ) مجھے منتخب فرمایـا ہے او رمـیرے لیے اصحاب، انصار اور رشتہ داروں کو منتخب فرمایـا ہے ،عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو مـیرے اصحاب کو برا کہیں گے اوران کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے بعد تم ان کے ساتھ مـیل ملاپ نہ کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیـاہ کرنا۔ “( مرقاة)
حضرات صحابہٴ کرام کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال مـیں او ران کے اخلاق مـیں ان کی اتباع وپیروی کی جائے ،کیوں کہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوش نودی کی بشارت دی ہے ۔( سورہ توبہ:100)
اور ان کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ نمونہ قرار دیـا ہے او ران کے عمل کو مثالی قرار دیـا ہے ۔ ( سورہ، حج:78)
اسی طرح احادیث مبارکہ مـیں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیـان ہوئی ہے، ایک حدیث مـیں ہے کہ ” مـیرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤگے۔“ محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت:100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایـان امت ہیں او رتمام صالحین ان کے تابع ہیں ۔ (تفسیر ماجدی)
چناں چہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد حضرات صحابہٴ کرام کے نقش قدم پر چلنا دنیـا وآخرت مـیں کام یـابی وکام رانی کا موجب ہے، ایک طویل حدیث مـیں ہے کہ ” مـیر ی امت تہتر(73) فرقوں مـیں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم مـیں جائیں گے۔ حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یـا رسول الله ! جنت مـیں جانے والا فرقہسا ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب مـیں ارشاد فرمایـا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر مـیں اور مـیرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی)
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” مـیں تم لوگوں مـیں اپنے قیـام کی مقدار نہیں جانتا، بعد مـیرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر او رحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایـا۔“ ( ترمذی)
اور ایک دوسری حدیث مـیں چاروں خلفائے راشدین کی سنت پر گام زن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” مـیری سنت او رحضرات خلفائے راشدین کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی داڑھوں ( دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)
مذکورہ بالا دو حق کے علاوہ حضرات صحابہٴ کرام کے اور بھی حقوق وآداب ہیں، ان مـیں سب سے زیـادہ قابل ذکر حق ” دفاعِ صحابہ“ ہے، موجود حالات مـیں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلو تہی باعث لعنت ہے، چناں چہ ایک حدیث مـیں ہے کہ ” جب فتنے یـا بدعات ظاہر ہونے لگیں او رمـیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام مـیں لاکر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے او رجو شخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور الله تعالیٰ نہ اس کے فرض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل ۔“ ( مرقاة)
بہرکیف حضرت قاضی عیـاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ مـیں حضرات صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیـان کرتے ہوئے کیـا خوب تحریر فرمایـا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یـاد نہ کرے ، بلکہ ان کی خوبیـاں او ران کے فضائل بیـان کیـا کرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب مـیرے صحابہ کا ذکر ( برا ذکر) ہوتو سکوت کیـا کرو۔“
یقینا حضرات صحابہٴ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیـات کا مجموعہ ہیں اور یہ حضرات الله تعالیٰ کی نعمت عظمـی کے پر تو ، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ او راسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں او ریہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان مـیں ” زمـین کا نمک او رپہاڑی کا چراغ “ تھے ، جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیـا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیـا اور آج کی تاریکیوں مـیں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیـاں منور کرسکتے ہیں او ران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیـا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یـاب و کام راں ہو سکتے ہیں ، الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے او ران کی محبت وعظمت ہمارے دلوں مـیں راسخ فرمادے۔ آمـین
﴿ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾۔ (حشر:10)
معاملات کی صفائی
دنیـا مـیں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں کہ وہ اپنے باقی رہنے مـیں اپنی ہم جنس کی محتاج نہیں ہیں، جیسے درخت ہے، درخت کو اپنے ہی جیسی درخت کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلند وبالا پہاڑ اپنے باقی رہنے مـیں دوسرے پہاڑ کے محتاج نہیں ہیں، لیکن جان دار او رخاص کر انسان اپنی زندگی مـیں اپنی ہم جنس مخلوق اور انسان کے محتاج ہیں، ماں باپ کا ” بوڑھا پا“ بال بچوں کے بغیر گزارے نہیں گزرتا، بچے باپ کی شفقت او رماں کی ممتا کے بغیر بچپن سے جوانی تک کا سفر طے نہیں کرسکتے، ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد ہر شخص کو ایک رفیق کی ضرورت پیش آتی ہے ، جو شوہر وبیوی کی شکل مـیں مہیـا ہوتا ہے ، یہ ضرورتیں تو چھوٹے سے خاندان سے متعلق ہیں، اس سے باہر نکلیے تو ضرورتوں کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے ، تاجرو گاہک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور آجرو مزدور کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔سماج مـیں اس سے زیـادہ افراد کے درمـیان باہمـی احتیـاج وضرورت کی بنا پر جو مالی تعلق قائم ہوتا ہے، اُسے فقہ وقانون کی زبان مـیں ”معاملہ“ کہتے ہیں ، معاملات مـیں بعض دفعہ ” ادھار“ کی بھی نوبت آتی ہے اورمہلت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں ، ایسے وقت مـیں خاص کر باہمـی نزاع کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے ، عام طور پر معاملات مـیں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ، وہ بڑی شدت اختیـار کر جاتے ہیں ، اس لیے کہ مال کی حرص او رمال کے سلسلہ مـیں بخل انسانی فطرت مـیں داخل ہے ، ایسے اختلافات محبت کے رشتوں کو کڑواہٹوں مـیں تبدیل کر دیتے ہیں ، کینہ وکدورت کی آگ سینوں کو سلگا کر رکھ دیتی ہے، یہاں تک کہ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور قتل وقتال تک نوبت آجاتی ہے، یہ اختلاف عام طور پر دو اسباب کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، ایک بددیـانتی ، دوسرے معاملات مـیں ابہام۔
بد دیـانتی او رخیـانت کے واقعات تو دن رات پیش آتے رہتے ہیں، اس لیے کہ بد دیـانتی آج کی دنیـا مـیں جرم کے بجائے آرٹ بن چکا ہے اور بعض لوگ ایسی حرکتوں کو ہوش مندی او رعقل مندی باور کرتے ہیں ، لیکن بہرحال جو لوگ دین وشریعت سے جڑے ہوئے ہیں ، نماز وروزہ کے پابند ہیں او راسلامـی وضع قطع رکھتے ہیں ، وہ بڑی حد تک اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن معاملات مـیں ابہام اور صفائی ووضاحت کا نہ ہونا ایسی بیماری ہے ، جس مـیں یہ طبقہ بھی گرفتار رہتا ہے ، قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت سورة البقرة کی آیت نمبر282 ہے ، جو آیت ”مداینت“ کہلاتی ہے ، اس مـیں قرض کا ایک اہم حکم بتایـا گیـا ہے او رخاص طور پر ایسے معاملات کو لکھ لینے کا حکم دیـا گیـا ہے ، عداء بن خالد بن ہوذہ کے پاس خریدوفروخت کی ایک دستاویز تھی، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تحریر کرائی تھی ، اس مـیں خریدار کی حیثیت سے عداء کا نام تھااور فروخت کنندہ کی حیثیت سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا۔ ( سنن الترمذی، کتاب البیوع ، باب ماجاء فی کتابة الشروط، حدیث نمبر:1260)
اس سے معلوم ہوا کہ خرید وفروخت نقد ہو تب بھی لکھ لینا بہتر ہے۔
خریدو فروخت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کر دی جائے اور خریدی جانے والی شیء ادھار رکھی جائے ، اس کو شریعت کی اصطلاح مـیں ”سلم“ کہتے ہیں،رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں ایسی خرید وفروخت کا عام رواج تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ، لیکن فرمایـا کہ پیمانہ متعین ہونا چاہیے او رمدت متعین ہونی چاہیے:”من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم، ووزن معلوم، الی اجل معلوم“․ (صحیح البخاری، کتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم، حدیث نمبر:2240)
فقہا نے اس سلسلہ مـیں مزید تفصیل کی ہے کہ چوں کہ شریعت کا منشا نزاع کو روکنا او رجھگڑے کا سدباب کرنا ہے ، اس لیے ان تمام چیزوں کا متعین اور واضح ہونا ضروری ہے ، جن کے بارے مـیں آئندہ اختلاف پیدا ہو سکتا ہے ، جوشے ادھار ہے وہ بھی متعین ہو جیسے چاول ، گیہوں، پھر اس کی قسم بھی متعین ہو ، جیسے باسمتی چاول ، کوالٹی اور کیفیت مـیں بھی ابہام نہ ہو ، جیسے اعلیٰ درجہ، درمـیانی درجہ وغیرہ، سامان کی ڈیلیوری کی جگہ بھی مقرر ہو ، مثلا یہ چیز فلاں شہر مـیں مہیـا کی جائےوغیرہ۔
حضرت عبدالله بن عباس نے قرض وادھار کی تمام صورتوں کے بارے مـیں اصولی بات فرمائی ہے کہ ادائیگی کی مدت واضح اور متعین ہونی چاہیے ، کوئی شخص کہے کہ کھیت کی کٹائی یـا فلاں شخص کے دینے تک کے لیے ادھار ہے ، تو اس کا اعتبار نہیں، بلکہ مدت یـا ادائیگی کا وقتی ابہام کے بغیر مقرر ہونا چاہیے ”لا تسلف الی العطاء، ولا الی الحصاد، واضرب اجلا“ ․ ( اعلاء السنن:381/14 بہ حوالہ، مصنف ابن ابی شیبہ)․
آج کل دارالافتاء، دارالقضاء اور محکمہ شرعیہ وغیرہ مـیں متعدد ایسے معاملات آتے رہتے ہیں ، جن مـیں آپسی جھگڑے کی بنیـاد معاملات کا واضح نہ ہونا ہے ، اس وقت اس کی چند صورتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
بعض اوقات والد ایک کاروبار شروع کرتے ہیں ، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں ، بچے جیسے جیسے بڑے ہوئے ان مـیں سے بعض والدکے ساتھ کاروبار مـیں لگ جاتے ہیں ، بعض ملک یـا بیرون ملک مـیں اچھی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے لڑکے تو کاروبار مـیں شامل ہو گئے ، تاکہ تجارت کو فروغ دیں اور اس کی وجہ سے وہ آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکے ، چھوٹے بھائیوں نے تعلیم حاصل کی او راعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہو گئے ، اب والد کے انتقال کے بعد جب ترکہ کی تقسیم کا مسئلہ آیـا تو جس بھائی نے کاروبار مـیں تعاون کیـا تھا ، وہ چاہتا ہے کہ اس کو اس کی محنت کا معاوضہ ملے اور چھوٹے بھائیوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ترکہ برابر تقسیم کیـا جائے ، بعض دفعہ اس مـیں ان بھائیوں کے ساتھ بہ ظاہر ناانصافی ہوتی ہے، جنہوں نے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے خود الگ سے کوئی ملازمت نہیں کی یـا اپنی تعلیم کو قربان کیـا ، بعض دفعہ اس کے برعصورت حال بھی پیش آتی ہے کہ جو بھائی کاروبار مـیں شریک تھا، وہ پورے کاروبار پر قابض ہو جاتا ہے اور دوسرے بھائی بہنوں کو بے دخل کر دیتا ہے …، اگر والدین بچوں کو کاروبار مـیں شریک کرتے ہوئے وضاحت کر دیں کہ تمہاری حیثیت پارٹنر کی ہواور تم اس مـیں اتنے فیصد کے مالک ہو گے ، یـا تمہاری حیثیت ملازمت کی ہواور تم ماہانہ اتنی تنخواہ کے مستحق ہو گے، یـا تم مـیرے معاون ومدد گار ہو ، الگ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں ہو گا تو بعد کو چل کر اس طرح کا اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔
عملی تعاون ہی کی طرح بعض دفعہ مالی تعاون مـیں بھی یہ صورت پیش آتی ہے ، جیسے والد کی تجارت مـیں ان کے مطالبہ پر یـا بلا مطالبہ بعض بچوں نے مختلف موقعوں پر پیسے دیے ، یہ سرمایہ کاروبار کا حصہ بن گیـا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہوئی کہ سرمایہ لگانے والوں کا کاروبار مـیں خصوصی شیئر ہو گا یـا ان کی یہ رقم قرض ہے، جوبعد مـیں ادا کی جائے، یـا اپنے والد کا تعاون ہے ؟ یہ عدم وضاحت پھر بعد مـیں بڑے جھگڑے کا سبب بنتی ہے، جن لڑکوں نے رقم دی تھی وہ زائد حصہ چاہتے ہیں اور دوسرے بھائی پورے کاروبار کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بھائی نے کاروبار شروع کیـا ، سب لوگ مل کر رہ رہے تھے، مختلف بھائیوں نے حسب گنجائش موقعہ بہ موقعہ کاروبار مـیں رقم لگائی ، بعض نے نہیں لگائی، بعض محنت مـیں شامل ہوئے ، بعض نہیں ہوئے ، اب ہوتا یہ ہے کہ جس بھائی نے کاروبار شروع کیـا تھا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ پورا کاروبار تنہا اسی کی ملکیت ہے اور دوسرے بھائی اپنے حصہ کے دعوے دار ہوتے ہیں ، یہ بات اس وقت زیـادہ پیش آتی ہے ، جب والد کی زندگی مـیں اس نوعیت کا کاروبار شروع ہوا ہو ، کبھی کبھار وہ بھی دکان پر بیٹھ جاتے ہیں ، یـا تجارت شروع کرنے والے بچے نے اپنے والد کے نام سے تجارت شروع کی، اگر شروع ہی مـیں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ کاروبار مشترکہ ہے ، یـا جس بھائی نے شروع کیـا ہے ، اس کا ہے او رجن دوسرے بھائیوں نے کچھ پیسے لگائے ہیں یـا محنت کی ہے ، وہ تعاون ہے یـا قرض ہے یـا شرکت ہے ؟ او راگر اسی کاروبار سے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں تو یہ بہ طور شرکت کے ہے ، یـا جس کا کاروبار ہے اس کی طرف سے تبرع واحسان ہے ؟ تاکہ بعد مـیں اختلاف پیدا نہ ہو۔
اسی طرح کی صورت حال بعض دفعہ اراضی کی خریداری مـیں پیش آتی ہے، ایسا ہوتا ہے کہ بعض لڑکے بیرون ملک ملازمت کر رہے ہوتے ہیں ، وہ زمـین یـا مکان کی خریداری کے لیے رقم بھیجتے ہیں، اب والد نے اس رقم سے اپنے نام مکان یـا زمـین خرید لی یـا اپنےی ایسے لڑکے کے نام خرید کر دی جو وطن مـیں ہے، حالاں کہ پیسے بھیجنے والے کا مقصد اس کے لیے جائیداد خا ہے او روالدکی بھی یہی نیت ہے ، بھائیوں کو معلوم ہے ، لیکن جب والد کا انتقال ہوا تو نیت بد ل گئی اور اصل صاحب حق کا نقصان ہو گیـا، اس لیے اولاً تو خود رقم بھیجنے والے لڑکے کو چاہیے کہ اپنے والد پر اس بات کو واضح کر دے کہ اس کی نیت خود اپنے لیے زمـین خے کی ہے اور والد کو بھی چاہیے کہ اس کی نیت دریـافت کرکے اس کے نام سے زمـین خریدے اور اگر اس مـیں کوئی قانونی دقت ہو تو اپنے نام سے خرید کر اس لڑکے کے نام ہبہ نامہ بنا دے ، یـا اس کو پاور آف اٹارنی دے دے ، یـا کم سے کم اپنا یہ اقرار نامہ رجسٹرڈ کرادے کہ یہ زمـین حقیقت مـیں مـیرے فلاں لڑکے کی ملکیت ہے، مـیں اس کا مالک نہیں ہوں اورمـیرے دوسرے ورثہ کا بھی اس سے حق متعلق نہیں ہے ۔
اسی طرح کا اختلاف بعض اوقات مکان کی تعمـیر مـیں بھی پیدا ہوتا ہے ، جیسے والد نے مکان کی تعمـیر شروع کی اور بعض لڑکوں نے اس مـیں پیسے دیے، لیکن ان کا پیسہ دینا حیثیت سے ہے ؟ یہ واضح نہیں ہوتا، بعد مـیں پیسہ دینے والے لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مکان مـیں اس کا خصوصی شیئر ہو اور دوسرے لڑکے پورے مکان کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں، یہی صورت حال اس وقت بھی پیش آتی ہے جب اتفاق واتحاد کے ماحول مـیں کوئی بھائی مکان کی تعمـیر شروع کرتا ہے ، اب کئی بھائیوں مـیں سے ایک دو کچھ پیسے لگا دیتے ہیں ، کوئی اپنا وقت دے دیتا ہے اور یہ بات طے نہیں ہوتی کہ اس مالی اورعملی تعاون کی حیثیت کیـا ہو گی؟ اگر یہ شروع مـیں طے پا جائے تو نہ دل کے آبگینے ٹوٹیں گے، نہ کینہ وکدورت کی آگ سلگے گی۔
ایک قابل توجہ بات تقسیم مـیراث کی ہے ، جیسے ہی مورث کا انتقال ہوا، اس کے ترکہ سے تمام ورثہ کا حق متعلق ہو جاتا ہے او رترکہ مـیں مرنے والے کی تمام چیزیں شامل ہیں ، مثلاً اگر ایک لڑکا مرنے والے کے ساتھ اس مکان مـیں مقیم تھا ، اب والد کی وفات کے بعد تنہا اس مکان کو یـا والد کی دوسری اشیـاء کو استعمال کر رہا ہے تو اپنے شیئر سے زیـادہ حصہ ،جو اس کے استعمال مـیں ہے وہ اس کے حق مـیں گناہ اور حرام ہے ، پھر تقسیم مـیں جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں اور اختلاف کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے شریعت کا مقرر کیـا ہوا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے گزرنے کے بعد جلد سے جلد ایک دودنوں کے اندر تمام ورثہ بیٹھ کر شریعت کے حکم کے مطابق اپنے حصے تقسیم کر لیں اور اس تقسیم مـیں ہر چیز کو شامل کریں ، کیوں کہ قرآن مجید مـیں ترکہ کے لیے ”ماترک“ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مرنے والا جو بھی چھوڑ جائے ، اس لیے گلاس اورپلیٹیں بھی ترکہ مـیں شامل ہیں ، ہاں! اگر مرحوم کی بعض اشیـا کے استعمال کے بارے مـیں ورثہ کا اتفاق ہو جائے کہ یہ چیز فلاں کے استعمال مـیں رہےتو حرج نہیں ہے ، کیوں کہ یہ دوسرے حق داروں کی طرف سے اس کے حق مـیں ہبہ ہے۔
یہ او راس طرح کے معاملات مـیں جہاں وضاحت ضروری ہے ، وہیں یہ بھی مناسب ہے کہ ان معاملات کو تحریر مـیں لے آیـا جائے اور اس تحریرپر تمام متعلقہ لوگوں اور کچھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں ، تاکہ آئندہ طے پانے والے امور کے سلسلہ مـیں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر معاملات کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے اور اسے تحریر مـیں لایـا جائے تو زمـین وجائیداد کے پچاس فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور اختلاف کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
بوڑھوں اور حیوانات کے ساتھ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کریمانہ سلوک
اُداس چہرہ، سفید ڈاڑھی، ہاتھ مـیں لاٹھی، کھال مـیں سِلْوٹ، چال مـیں سستی، بات مـیں لرزہ، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم ”بوڑھا“ کہتے ہیں، انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہونچتی ہے، بڑھاپا گویـا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامـی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن سہن مـیں دشواری بھی نہیں؛ لیکن آج جو صورتحال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے عمر رسیدہ افراد کی پریشانی مـیں اور بھی اضافہ ہوگیـا ہے؛ حالانکہ والد نے بچے کی پرورش اس امـید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے مـیں سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ صورتحال ہے، دوسری جانب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ کمزوروں کے ساتھ ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیـادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیـا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیـا فرمایـا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن رسیدہ افراد کی اہمـیت بیـان کرتے ہوئے ارشاد فرمایـا: اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیـا جائے (ابوداوٴد: ۴۸۴۳ باب فی تنزیل الناس منازلہم، حسن) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت مـیں سفید ہوئے ہوں، اس کے لیے قیـامت کے دن نور ہوگا (ترمذی: ۱۶۳۴ باب ماجاء فی فضل من شاب، صحیح) ان احادیث سے سن رسیدہ افراد کی اہمـیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول الذکر مـیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ کو حاملِ قرآن وعادل بادشاہ پر بھی مقدم کیـا ہے؛ حالانکہ ان دونوں کی اہمـیت وعظمت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی حمایت فرمائی، دوسری حدیث مـیں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیـان کیـا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت مـیں آیـا ہو تواس کے لیے اللہ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایـا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (بخاری: ۶۲۳۴ باب تسلیم الصغیر علی الکبیر) بڑوں کے اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے،بڑوں کی عمر ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کیـا کریں؛ تاکہ یہ سلام چھوٹوں کی جانب سے بڑوں کے اکرام کا جذبہ بھی ظاہر کرے، اور بڑوں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان ہو، کئی مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بچے انھیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں، کیوں نہ ہم ان کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے سلام کے ذریعہ ان کے جی کو خوش کریں، مجالس مـیں کوئی آئے تو اس مـیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ کیـا اس کو اولاً بڑے نوش فرمائیں، بڑوں سے آغاز ہو، فرمایـا: بڑوں سے آغاز کرو؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو مـیں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت فرمائی (ابوداوٴ: ۵۰ باب فی الرجل یستاک، صحیح) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کی اہمـیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایـا: اَلْبَرَکَةُ مَعَ أکَابِرِکُمْکہ برکت تو تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے،ہے جو برکت کا متلاشی نہ ہو؟ہے جو برکت کا طلبگار نہ ہو؟ آج تو کئی ایک بے برکتی کے شاکی ہیں، ایسے مـیں بر کت کے حصول کا آسان طریقہٴ کار یہ ہے کہ بوڑھوں کو اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کے اخراجات کی کفالت کی جائے، اس سے آمدنی مـیں برکت ہوگی، نیز ایک موقع پر فرمایـا: بات چیت مـیں بھی بڑوں کو موقع دیـا، کَبِّرِ الکِبَرَ، اس کی تشریح کرتے ہوئے یحییٰ نے فرمایـا: بات چیت کا آغاز بڑے لوگوں سے ہو، (بخاری: ۶۱۴۲ باب اکرام الکبیر) ایک موقع پر بوڑھوں کے اکرام کے فضائل وفوائد ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: جس نوجوان نےی بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی بنیـادپر کیـا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بڑھاپے مـیں اکرام کرنے والا شخص مقرر فرمائیں گے(ترمذی: ۲۰۲۲ باب ما جاء فی اجلال الکبیر، ضعیف)کون ہے جو اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی پورا نہیں کرنا چاہتا ؟ہے جو بڑھاپے مـیں خدمت گزاروں سے کتراتا ہے؟ہے جو بڑھاپے مـیں آرام وسکون نہیں چاہتا؟ ان سب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک آسان نسخہ عنایت فرمایـا کہ اپنے بوڑھوں کا اکرام کرو تمہیں بڑھاپے مـیں خدمت گار مل جائیں گے، الغرض! مختلف مواقع پر مختلف انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی اہمـیت وعظمت کو واضح کیـا، اور امت کو ان پر توجہ کی تعلیم دی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق ہیں کہ امت کے ہر کمزور طبقہ پر بذاتِ خود بھی رحم وکرم کا معاملہ کیـا، اور وں کو بھی رحم وکرم سے پیش آنے کی تلقین کی۔
بڑوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل
ایک سن رسیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مـیں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس مـیں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہو کر فرمایـا: جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم مـیں سے نہیں (ترمذی: ۱۹۱۹ باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان مـیں جو صفات ہونی چاہیے ان مـیں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویـا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامـی صفت کا خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام مـیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، فتحِمکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انھیں مـیں ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ص کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیـا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پر ست پر اسلام قبول کرنے کے لیے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مـیں حاضر کیـا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایـا: ان کو گھر ہی مـیں کیوں نہ چھوڑا؟ مـیں خود ان کے گھر پہونچ جاتا (مستدرک حاکم: ۵۰۶۵ ذکر مناقب ابی قحافہ)
واضح رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ مـیں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ وکریمانہ سلوک ہے؛ حالانکہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے، جسے قرآن حکیم نے بیـان کیـا ہے کہ جب فاتحینی بستی مـیں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں، اہلِ عزت کو ذلیل کرتے ہیں، یہی ان کا طرہٴ امتیـاز ہے، (النمل: ۳۴) یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیـا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت مـیں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سےی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالانکہ اس مـیں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی بہر صورت تعظیم کی جائے، نماز کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حریص اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی رعایت مـیں نماز مـیں تخفیف فرمادی، ابو مسعود ص انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مـیں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ مـیں ظہر کی نماز مـیں فلاں شخص کی طویل قرأت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود ص کہتے ہیں کہ مـیں نے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس غضبناک کیفیت مـیں دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایـا: نمازیوں مـیں نماز سے نفرت مت پیدا کرو، لہٰذا جو بھی شخص امامت کرے وہ ہلکی نماز پڑھا یـا کرے، کیوں کہ اس مـیں کمزور بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں (بخاری: ۷۰۲ باب إذا طول الامام وکان الرجل ذاحاجة) ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل قرأت کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ص پر غصہ ہوتے ہوئے فرمایـا: فَتَّانٌ فَتَّانٌ!(بخاری: ۷۰۱ باب إذا طول الامام) اے معاذ! کیـا تم لوگوں کو فتنہ مـیں ڈالنے والے ہو! تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو دھرایـا، غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ اور کمزور افراد کی رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ مـیں بھی جاری ہے، بڑھیـا کا مشہور واقعہ جس مـیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھیـا کا سامان اٹھا کر شہر مکہ کے باہر پہونچا دیـا تھا؛ حالانکہ وہ بڑھیـا جو اسلام سے کنارہ کشی اختیـار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی مـیں مصروف تھی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے طفیل اس بڑھیـا نے بھی اسلام قبول کر لیـا تھا۔ ایک دفعہ مجلس مـیں بائیں جانب اکابر صحابہٴ کرام ث تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا اور مجلس مـیں کوئی پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چونکہ تم دائیں جانب ہو اگر تم اجازت دو تو مـیں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام ث سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پری کو ترجیح دینے سے انکار کردیـا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اسی کے ہاتھ مـیں تھما دیـا، (بخاری: ۲۳۶۶، باب من رأی أن الحوض الخ) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی؛ لیکن بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوش کردہ برکت کی وجہ سے اپنے آپ پری کو ترجیح نہ دی، اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی کوشش کی جائے، ان کی توہین سے بیزارگی کا اظہار ہو۔
ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایـا،ی بھی بوڑھے کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیـاد پر کیـا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیـا جائے، ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں،ی چیز کے ذریعہ بڑھاپے مـیں انھیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریـات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں مـیں شامل ہوں، بعض دفعہ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں سے نظر انداز کریں۔
حیوانات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحیمانہ سلوک
اس دور مـیں جب کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو مسیحا کے بجائے قاتل، صلح پسند کے بجائے جنگجو، امن پسند کے بجائے شدت پسند کے عنوان سے متعارف کرنے کی پیہم کوشش جاری ہے، دشمنانِ اسلام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلمان کبھی شدت پسند وجنگجو ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ اس کا رشتہ ایسے نبی کریم ا سے ملتا ہے، جو صرف انسانیت ہی کے لیے نہیں؛ بلکہ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہٴ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمـی کی ہدایـات دیں، وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کردکھا یـا، آج جب کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر کئی تنظیمـیں بیدار ہورہی ہیں، کئی حکومتیں جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم مہمـیں چلارہی ہیں، جانوروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں تجویز کی جارہی ہیں، ان قوانین کے پامال کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑرہی ہیں، قربان جائیے نبیِ اکرم ا پر جنہوں نے آج سے چودہ صدی قبل حیوانات کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حمایت کا اعلان فرمایـا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو بھوکا رکھنے، اسے تکلیف دینے، اس پر سکت سے زائد بوجھ لادنے سے منع فرمایـا، نیز جانور کو نشانہ بنانے، جانور پر لعنت کرنے والے کو مجرم قرار دیـا، جانوروں کو تکلیف دینے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی سختی مـیں سے شمار کیـا ۔
جانور کے ساتھ رحم وکرم ان کے ساتھ نرمـی کے بے شمار واقعات کتابوں مـیں مذکور ہیں؛ لیکن ہم چند واقعات واقوال کے نقل پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نشانہ بازی
زمانہٴ جاہلیت مـیں جانوروں کو تکلیف دینے کی رائج صورتوں مـیں ایک اہم صورت زندہ جانور کو نشانہ بازی کے لیے مقرر کرنا تھا، غور کیجیے زندہ جانور کو جب تیروں کے ذریعہ چھلنی کیـا جاتا ہوگا تو وہ قدر انھیں تکلیف ہوتی ہوگی، آپ ں نے اس سے منع فرمایـا، ایک دفعہ ابن عمر ص قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جو ایک زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمر ص کو دیکھ کر متفرق ہوگئے، ابن عمر ص نے ان سے دریـافت کیـا: یہ نے کیـا ہے؟ اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے،پھر ابن عمر ص نے آپ ں کا قول نقل کیـا: اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی روح کو استعمال کیـا(مسلم: ۹۵۸، باب صبر البہائم) ایک دفعہ ابن عمر ص یحییٰ بن سعید ص کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک غلام مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کررہا ہے، ابن عمر ص نے اس مرغی کو کھول دیـا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراوٴ! اس طرح پرندہ کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایـا ہے(بخاری: ۵۵۱۴ مایکرہ من المثلة)
پرندہ اور اس کے والدین مـیں جدائیگی
اولاد سے فطری محبت جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں مـیں ودیعت کررکھی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیـا ہے، بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائیگی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں؛ لیکن جو جانور کمزور ہو اولاد سے وہ جدائیگی کے غم مـیں گھٹ جاتا ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر مـیں پیش آیـا، ابن مسعود ص فرماتے ہیں ہم سفر مـیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمـی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے، اتنے مـیں ہم نے ایک سرخ پرندے کو اس کے چوزوں سمـیت دیکھا، لہٰذا ہم نے بچوں کو اٹھالیـا، ان چوزوں کی ماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مـیں حاضر ہوئی، اور اپنے بازوہلا کر کچھ کہنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے پوچھا نے اس پرندے کے بچوں کو اس سے جدا کر کے تکلیف دی ہے، اس کے بچوں کو لوٹا دو (ابوداوٴد: ۳۶۷۵،کراہیةاحراق العدو بالنار)
مثلہ کی ممانعت
جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء وجوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوگی؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی، انھیں مـیں ایک طریقہ زمانہٴ جاہلیت مـیں مثلہ کا بھی رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہٴ کار کی مذمت کی، اور اس کے مرتکب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ، جس شخص نے جانور کا مثلہ کیـا، اس پر آپ ں نے لعنت فرمائی (بخاری: ۵۵۱۵ مایکرہ من المثلة) ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر لعنت فرمائی (مسلم: ۲۱۱۷ باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ)
جانوروں پر احسان، مغفرت کا ذریعہ
کسی کی ضرورت کی تکمـیل،ی کی تکلیف کا دفعیہ، جس طرح اس کی ضرورت انسانوں مـیں پائی جاتی ہے، اسی طرح جانور بھی احسان کے مستحق ہوتے ہیں؛ بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے مـیں کچھ زیـادہ ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تکلیف بیـانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی ہے، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی ہے؛ بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا ذریعہ قرار دیـا؛ چنانچہ آپ ں نے فرمایـا: ایک راہ رو پیـاس سے بے تاب ہوکر کنواں مـیں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنواں سے باہر نکلتا ہے تو کیـا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیـاس کی شدت سے کیچڑ کھارہا ہے، اس شخص نے محسوس کیـا کہ یہ کتا بھی مـیری ہی طرح پیـاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنواں مـیں اترا، اور اپنے موزے مـیں پانی بھر لیـا، اور کتے کو سیراب کیـا، اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی، صحابہٴ کرام نے سوال کیـا؟ کیـا ہمـیں جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا (بخاری: ۶۰۰۹، باب رحمة الناس والبہائم) اس سے تعجب خیز واقعہ وہ ہے جو ابوہریرةص سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: ایک دفعہ پیـاس کی شدت سے ایک کتا کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا، قریب تھا کہ پیـاس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائے، اچانک ایک گنہ گارعورت جو بنی اسرائیل کی تھی، اس نے اپنے موزے کو نکالا، اور کتے کو پانی پلایـا، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مغفرت فرمادی، (بخاری:۳۴۶۷) غور کرنے کا مقام ہے، ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیـا ہے ، جسے بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیـا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن مـیں منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیـا ہے، اس کے بالمقابل جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم مـیں بھی لے جاتا ہے، ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کے سلسلے مـیں جہنم مـیں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیـا تھا، اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑتی تھی کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کرسکے، حتی کہ وہ کمزور ہوگئی اور مر گئی(مسلم: ۲۶۱۹)
جانوروں کے ساتھ نرمـی کا معاملہ
نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نرمـی کا برتاوٴ کرتے تھے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام ث کو بھی اس کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ ایک اونٹ بدک گیـا، صحابہٴ کرام ث کے لیے اس اونٹ کو سنبھالنا دشوار ہوگیـا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ مـیں داخل ہوئے جس مـیں یہ اونٹ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، تو صحابہٴ کرا م ث نے کہا: یہ اونٹ کٹخنے کتے کی طرح ہوگیـا ہے، یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ پر نظر التفات کیـا تووہ اونٹ سجدہ ریز ہوگیـا، آپ ں نے اس کی پیشانی پکڑی اور اسے کام پر لگادیـا، یہ دیکھ صحابہٴ کرام ث کہنے لگے، جب جانور آپ کو سجدہ کرسکتا ہے، ہم انسان ہو کر آپ کو سجدہ کیوں نہ کریں،ی انسان کے لیے سجدہ درست نہیں، اگری انسان کے لیے سجدہ درست ہوتا تو مـیں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے(مسند احمد: ۱۲۶۱۴) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ مـیں داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنسو پوچھے، وہ خاموش ہوگیـا، آپ ں نے اس کے مالک کے سلسلہ مـیں دریـافت کیـا تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ مـیں اس کامالک ہوں، آپ ں نے فرمایـا: کیـا تم جانور کے سلسلہ مـیں اللہ سے نہیں ڈرتے، جس کا اللہ تمہیں مالک بنایـا ہے، اس سے کام زیـادہ لیتے ہو، اور بھوکا رکھتے ہو، (ابوداوٴد:۲۵۴۹)
ذبح مـیں احسان کا پہلو
جانور بھی بڑی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، وہ بھی آثار وقرائن سے پتہ لگالیتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیـا معاملہ ہونے والا ہے؛ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے سامنے چاقو وغیرہ تیز کرنے سے منع کیـا، اس سے جانور کو گھبراہٹ ہوگی، نیز آپ ں نے ذبح مـیں احسان کے پہلو کو اپنانے کی بھی ترغیب دی کہ جانور کو مکمل طور پر ذبح کیـا جائے، کہیں اسے تڑپتا ہوا نہ چھوڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز مـیں احسان کو لازم کیـا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے انداز مـیں قتل کرو، جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کر لیـا کرو، اور مذبوح کو راحت پہونچاوٴ(مسلم : ۱۹۵۵) ایک صحابی نے فرمایـا: یـا رسول اللہ …! مـیں بکری کو ذبح کرتا ہوں، اس پر رحم بھی آتا ہے، آپ ں نے فرمایـا: اگر تم نے بکری پر رحم کیـاتو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا(مسند احمد: ۱۵۵۹۲)
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک صحابی جانور کو لٹا کر چھری تیز کرنے لگے، آپ ں نے فرمایـا: تم اس جانور کو کئی موتوں سے مارنا چاہتے ہو، لٹانے سے پہلے ہی چھری کیوں نہ تیز کی (مستدرک حاکم: ۷۵۶۳)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے مذبوحہ چڑیـا ہی پر رحم کیوں نہ کیـا ہو، اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس پر رحم فرمائیں گے، (طبرانی کبیر:۷۹۱۵) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایـا، ایک سفر مـیں ایک صاحب جانور پر لعنت کرنے لگے، آپ ں نے فرمایـا: جس نے اس اونٹنی پر لعنت کی ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ آئے (مسند احمد: ۱۹۷۶۵)
الغرض! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جانوروں پر رحم کے واقعات سے بھر ی پُری ہے، یہ چند نقول ہیں جس سے ہمـیں عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خلقِ خدا کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کریں۔
معذورین کے حقوق ومراعات: اسلامـی نقطئہ نظر
انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور مـیں نظر انداز کردیـا گیـا ہے، ”معذورین“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے، سماج کے اس طبقہ مـیں وہ افراد شامل سمجھے جاتے ہیں، جو رفتارِ زمانہ اور زندگی کی دوڑ مـیں اپنی طبعی دائمـی اور پیدائشی مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ہوں، بینائی، شنوائی سے محروم، بے دست وپا دماغی طور پر مفلوج، دائمـی روگ مـیں مبتلا افراد عام طور پر اس مـیں داخل مانے جاتے ہیں۔
یوں تو دنیـا بھر مـیں ان کے تعلق سے ہمدردی کی لہرچل پڑی ہے، ایک عالمـی ادارہ باقاعدہ طور پر ان کا نگران سمجھاجاتا ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ سماج کا یہ طبقہ جس قدرہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، فی الحال عملی طور پر محرومـی کے شکوہ سے دوچار ہے، ان حضرات کا قضیہ وقتی عبوری اقدامات سے حل نہیں ہوسکتا، ان کے مستقل حل کے لیے مضبوط حکمتِ عملی اور بڑے دیرپا اقدامات ناگزیر ہیں، ویسے تو معذورین کے تعلق سے جذبہٴ ترحم انسانی فطرت کا تقاضا اور لازمہ ہے؛ لیکن صرف اسلام نے اس جذبہ کو صحیح رخ دیـا ہے، معذورین کے مختلف حقوق ومراعات کووضاحت کے ساتھ بیـان کیے ہیں، قانونِ اسلامـی کا ایک معتدبہ حصہ ان کے حقوق سے متعلق مختص کردیـا گیـا ہے، ذیل مـیں اسلامـی نقطہٴ نظر سے معذورین کے معاشی، معاشرتی، مذہبی اورسیـاسی وحربی حقوق ومراعات پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔
معاشی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد پری طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے،بِ معاش کی الجھنوں سے انھیں آزاد رکھا ہے، وہ تمام قرآنی آیـات اور احادیثِ مبارکہ جن مـیں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم مـیں داخل ہیں، کتبِ فقہ مـیں نفقہٴ اقارب کے عنوان سے جو تفصیلات بکھری پڑی ہیں؛ ان کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان معذورین کے معاش وزیست مـیں تعاون ہو، علامہ کاسانی رحمہ اللہ نفقہٴ اقارب کے وجوب (بعض رشتہ داروں کے نفقہ کا بعض رشتہ داروں پر وجوب) کی ایک نہایت ہی اہم اور بنیـادی شرط کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خاندان کے کچھ مفلس رشتہ دار، اپاہج ولاچار ہوں یـامعذور ومفلوج ہوں یـا مجنون واندھے پن کا شکاہوں، دست وپا بریدہ یـا شل زدہ ہوں تو ان کا نفقہ معہود ترتیبِ فقہی کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح الاعضاء متمول رشتہ داروں پر واجب ہوتا ہے“ (بدائع الصنائع: ۴/۴۴۶)
معذورین کے حقوق کی یہ رعایت خاندانی سطح سے تھی، اسلامـی دورِ درخشاں مـیں حکومتی سطح پر معذورین کی نگرانی اور دیکھ بھال کا جو نظم تھا وہ حددرجہ بے مثال اور قابلِ رشک تھا۔
علامہ شبلی ”الفاروق“ مـیں لکھتے ہیں: (حضرت عمر کے زمانے مـیں) عام حکم تھا اور اس کی ہمـیشہ تعمـیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکاررفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں سے متجاوز آدمـی فوجی دفتر مـیں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں (الفاروق: ۲/۱۹۶، ۱۹۷)
غرض حکومتی سطح پر جو معاشی مراعات مسلم معذورین کو حاصل تھیں، پوری رواداری کے ساتھ غیرمسلم معذور رعایـا بھی نفع اندوز ہوتی تھی، ایک اور مقام پر علامہ موصوف رقمطراز ہیں:
یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتا تھا اور محنت ومزدوری سے معاش نہیں پیدا کرسکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا، اسی قسم کی؛ بلکہ اس سے زیـادہ فیـاضانہ رعایت ذمـیوں کے ساتھ بھی تھی (الفاروق: ۲/۱۵۷)
سید قطب شہید مرحوم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت عمر نے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریـافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے، آپ نے اس سے پوچھا: تمھیں چیز نے اس حالت تک پہنچایـا؟ اس نے جواب دیـا: جزیہ، ضرورت اور بڑھاپا، عمر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیـا جو اس وقت کی ضروریـات کے لیے کافی تھا، پھر آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے مـیں اسے دُھتکار دیں․․․․ آپ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیـا، جب آپ نے دِمَشق کا سفر کیـا تو ایک ایسی بستی سے گذرے جہاں کچھ جُذام کے مریض عیسائی بستے تھے، آپ نے حکم دیـا کہ ان کو زکوٰة کی مد سے امداد دی جائے اور ان کے لیے راشن جاری کیے جائیں (العدالة الاجتماعیة فی الاسلام اردو: ۳۷۸)
ایک صحابی جن کی بینائی مـیں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدوفروخت مـیں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت مـیں خیـارِ شرط مشروع فرمایـا، جس کی رو سے بیچنے والے یـاخے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے (تکمہ فتح الملھم: ۱/۳۷۸، ۳۸۲)
معاشرتی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگمپرسی کی زندگی گذارنے کے بجائے اجتماعی معاشرت کا حوصلہ دیـا، ان کے مقام ومرتبہ کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے، احساسِ کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے ان کو تحفظ فراہم کیـا، عبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے، ایک دفعہ وہ بغرضِ دریـافت مسئلہ بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مـیں ایک ایسے وقت حاضرہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعیـانِ قریش سے اسلام پر گفتگو فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ بے وقت سوال پوچھنا ناگوار ہوا، بس اتنا ہونا تھا کہ سورہٴ عبس کا نزول ہوا، جس مـیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس رویہ کے تعلق سے ہلکا سا عتاب کیـا گیـا، روایـات مـیں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مـیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تعظیم وتکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید اے وہ ساتھی جس کے بارے مـیں پروردگار نے مجھ پر تنبہ فرمایـا۔
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہٴ احد کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا ابن ام مکتوم کو اپنا نائب فرمایـا (السیرة النبویة لابن ہشام: ۳/۱۷)غور کیجیے کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیـا جارہا ہے اور تو اور ایک جُذامـی آدمـی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ کھانے مـیں شریک فرمایـا ہے (تکملہٴ فتح الملہم: ۴/۳۷۲، نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر: ۴۵) سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، حضرت عمر نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ مـیں کیوں نہیں آتے انھوں نے کہا: مـیرے پاس آدمـی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے، حضرت عمر نے ایک آدمـی مقرر کردیـا جو اُن کے ساتھ رہتا تھا (الفاروق: ۲/۲۰۵) حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانے مـیں حضرت عمر مدینہ کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیـا کرتے تھے، پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے یہ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر آکر اس کے کام کر جاتے ہیں (اسلام مـیں عدلِ اجتماعی: قطب شہید: ۳۸۶)
مذہبی حقوق ومراعات:
بہت سی وہ عبادات جو جسمانی تعب ومشقت کی متقاضی ہیں، اسلام نے معذور حضرات کو یـا تو ان سے بالکلیہ مستثنیٰ رکھا ہے یـا پھر ان کا متبادل تجویز کیـا ہے، جمعہ وجماعات کی لازمـی حاضری سے معذور حضرات مستثنیٰ ہیں، مالدار ہوں؛ مگر اپاہج ولاچار ہوں تو عبادتِ حج مـیں، حجِ بدل اور روزہ مـیں فدیہ کی شکل رکھی گئی ہے، جہاد جیسی عظیم عبادت سے بھی یہ حضرات مستثنیٰ رکھے گئے ہیں، ارشادِ باری ہے: اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے (سورہٴ فتح: ۱۷)
بصارت سے محرومـی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری ہے، یہ دونوں عذر تو لازمـی ہیں، ان اصحابِ عذر یـا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کردیـا گیـا، حد تو یہ کہ یہ معذور حضرات جو اپنی معذوری کے سبب جہاد سے پیچھے رہ گئے، ان کے لیے بھی مجاہدین کے برابر اجروثواب کا وعدہ گھر بیٹھے حاصل ہے۔
عزوہٴ تبوک کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذورین کے بارے مـیں جہاد مـیں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایـا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ مـیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر مـیں برابر کے شریک ہیں، صحابہٴ کرامنے پوچھا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینہ مـیں بیٹھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: حَبَسَھُمُ الْعُذْرُ: عذر نے ان کو وہاں روک دیـا ہے (بخاری شریف: کتاب الجہاد)
سیـاسی وحربی حقوق ومراعات:
اسلام سے قبل جنگ مـیں مقاتلین اور غیرمقاتلین کے درمـیان کوئی امتیـاز نہ تھا، دشمن قوم کے ہرفرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمالِ جنگ کا دائرہ تمام طبقوں اور جماعتوں پر یکساں محیط تھا، عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمـی کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا (الجہاد فی الاسلام: ۱۹۸)اسلام نے اس سلسلہ مـیں سب سے پہلی چیز یہ کی کہ محاربین (Belligerents) کو دوطبقوں مـیں تقسیم کردیـا، ایک اہلِ قتال (Combatants) دوسرے غیر اہلِ قتال (Non Combatants) اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ مـیں حصہ لیتے ہیں یـا عقلاً وعرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد اور غیراہلِ قتال وہ ہیں جو عقلاً وعرفاً جنگ مـیں حصہ نہیں لے سکتے، یـا عموماً نہیں لیـا کرتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمـی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیـاح، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں کے پجاری اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ، اسلام نے طبقہٴ اوّل کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقہٴ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کردیـا ہے (الجہاد فی الاسلام: ۲۲۳)
آج معذورین کے حقوق کے علمبردار اور دعویدار طاقتیں اپنی طاقت کے نشہ مـیں نہ صرف معذورین سمـیت بستی کی بستی اور ملک کے ملک اجاڑ رہی ہیں؛ بلکہ ہلاکت خیز کیمـیائی ہتھیـاروں کے استعمال کے ذریعہ، نسلوں؛ معذورین کی افزائش وآبادی مـیں اضافہ کا سامان بہم پہنچارہی ہیں، ناطقہ سربہ گریباں اور خرد معرکہٴ حیرت بنی ہوئی ہے کہ ان کے قول وعمل کے اس تفاوت وتضاد کی آخر کیـا توجیہ کی جائے۔
اس کائناتِ ارضی وسماوی مـیں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایـات تضاد ونفاق کے جراثیم سے مکمل پاک ہیں اور اسلام ہی روئے زمـین پر وہ اکیلا مذہب ہے جو معذورین سمـیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے؛ آج شرط ہے اس کے نظام کو اپنانے اور برتنے کی ہے۔
مـیت کے حقوق اوراُن کی ادائیگی
حافظ محمد زاہد
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیـا مـیں آیـا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام مـیں اس دنیـا مـیں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیـا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔ذیل مـیں ان حقوق اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بیـان کیـاجارہا ہے۔
قریب المرگ شخص کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنا
جس شخص پر موت کے آثار واضح ہونے شروع ہو جائیں اس کے پاس موجود ورثا کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنے لا الٰہ الا اللہ کا ورد شروع کردیں، تاکہ ان کو دیکھ کر قریب المرگ شخص بھی لا الٰہ الا اللہ پڑھنا شروع کردے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قریب المرگ لوگوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنے کا حکم دیـا ہے۔حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”تم اپنے قریب الموت (بھائیوں)کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کیـاکرو۔“(ترمذی)
لا الٰہ الا اللہ کا انسان کا آخری کلام ہونابہت فضیلت کا باعث ہے۔حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جس شخص کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہو گا وہ جنت مـیں جائے گا۔ “(ابوداوٴد)
تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس مـیں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یـا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کروہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔
جان کنی کے وقت سورہٴ یٰسین کی تلاوت کرنا
قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے ،تاکہ اگراُس پر”غَمَرَاتُ الْمَوْت“ یعنی موت کی سختیـاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”تم اپنے مرنے والوں پر سورئہ یٰسٓ پڑھا کرو۔“(ابوداوٴد)
انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا اور اس کی فضیلت
جبی کی وفات کا علم ہو تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیـا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون صرفی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہی بھی نقصان کی صورت مـیں اسے پڑھا مسنون عمل ہے ۔اس کے علاوہ احادیث مـیں اس کے فضائل بھی موجود ہیں۔مثلاً حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جبی انسان کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں:تم نے مـیرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کیـا اُس کے دل کے مـیوہ کو بھی قبض کر لیـا؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں :اس پر مـیرے بندے نے کیـا کہا؟فرشتے کہتے ہیں:اُس نے آپ کی حمد بیـان کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”مـیرے بندے کے لیے جنت مـیں ایک گھر بناوٴ اور اس کا نام”بیت الحمد “رکھو۔“(ترمذی)
اس کے علاوہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت سے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بدل عطا فرمادیتے ہیں۔اس حوالے سے روایـات مـیں حضرت اُم سلمہ کا واقعہ مذکور ہے۔جن کو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کی بدولت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔
مـیت کو غسل دینا
جب انسان فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اُس کی آنکھیں بند کریں‘اس کے ہاتھ سیدھے کریں اور اُس کی ٹانگیں ساتھ جوڑ دیں ۔اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم ٹھنڈا ہوکر اکڑ جاتا ہے اور پھر وہ جس حالت مـیں ہو اسی حالت مـیں رہتا ہے۔اس کے بعد مـیت کو غسل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔
مـیت کو غسل دینے کا طریقہ
غسل دینے والے دوآدمـی ہونے چاہئیں‘ ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والااور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر مـیت کو غسل دیں۔سب سے پہلے مـیت کوی تختہ‘جو عموماً مساجد مـیں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایـا جائے ۔ پھرپانی مـیں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیـا جائے۔مـیت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پری کپڑے کو رکھ دیـا جائے۔پھر مـیت کے پیٹ کو نرمـی سے دبایـاجائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ مـیں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر مـیت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیـا جائے۔پھر مـیت کو وضو کرایـا جائے لیکن منہ اور ناک مـیں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ کپڑا یـا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایـا جائے۔اس کے بعد مـیت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایـا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیـا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویـا جائے۔مـیت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیـا جاسکتا ہے۔مـیت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویـا جائے۔اس کے بعد مـیت کو خشک کپڑے سے صاف کیـا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر مـیں مـیت کو کافور یـا کوئی اورخوش بو لگائی جائے۔
یہ ہے مـیت کو غسل دینے کا طریقہ ۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مـیت کو اس طرح تین یـا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”اس کو طاق یعنی تین یـا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یـا اور کوئی خوش بو لگا لینا۔“(مسلم)
کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائدہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو مـیت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوش بو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے مـیت کے جلدی قریب نہیں آتے۔
مـیت کو غسل دینے کی فضیلت
مـیت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھنا ایک تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ مـیت کا ورثا کے ذمے حق ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مـیت کو غسل دینا فضیلت کا باعث بھی ہے۔احادیث مـیں مـیت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والے کو گناہوں سے ایسے پاک قرار دیـا گیـا ہے جیسے نومولود اپنے پیدائش کے دن گناہوں سے پاک صاف ہوتاہے۔حضرت علی سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جس نے مـیت کو غسل دیـا‘اس کو کفن دیـا‘اس کو خوش بو لگائی‘اس کو کندھا دیـا‘اس پر نماز(جنازہ)پڑھی اور اس کے راز کو ظاہر نہیں کیـا جو اس نے دیکھا تو وہ غلطیوں (اور گناہوں)سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے آج ہی جناہے۔“(ابن ماجہ)
مـیت کو کفن پہنانا
مـیت کو غسل دینے کے بعد مـیت کو کفن پہنایـا جائے گا۔کفن کے بارے مـیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کاصاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا :
”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی مـیں اپنے مرنے والوں کو کفن دیـا کرو۔“(ابوداوٴد)
کفن کے بارے مـیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیـادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمـیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”زیـادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“(ابوداوٴد)
مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں مـیں کفن دیـا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمـیصجب کہ عورت کو پانچ کپڑوں مـیں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمـیص دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔
کفن کے حوالے سے یہ بھی یـاد رکھنا چاہیے کہ مجبوری کی حالت مـیں ایک کپڑے کا کفن بھی ہو سکتا ہے اور پرانے اور سفید رنگ کے علاوہی اور رنگ کے کپڑے کا کفن بھی دیـا جا سکتا ہے۔
کفن پر دعائیہ کلمات لکھنا کیسا ہے؟
بعض اوقات یہ دیکھا گیـا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیـات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیـات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔
مـیت کو لے جانے مـیں جلدی کرنا
غسل اور کفن دینے کے بعد مـیت کو جلد سے جلدنماز جنازہ کے لیے لے جانا بھی مـیت کا حق ہے ۔ بہت دیر تک رشتہ داروں کو مـیت کا دیدار کرانے کے لیے انتظار کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جنازے کو تیز لے جایـا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)
نماز ِجنازہ اداکرنا
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے اداکرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد مـیں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ سے اس مـیت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ مـیت کے حق مـیں بھی بہتر ہوگا اور پڑھنے والے بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا :
” جس مـیت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس مـیت کے لیے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش مـیت کے حق مـیں ضرور قبول ہو گی۔ “(مسلم)
نماز جنازہ پڑھانے کا حق دار کون؟
یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ نمازجنازہ پڑھانے کے حق دار مـیت کے قریبی ورثا ہیں ‘ بالخصوص والدین کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیـادہ حق دار بیٹا ہے …اس حوالے سے یہ نوٹ کریں کہ ہمارے معاشرے مـیں اکثر لوگوں کو نمازِ جنازہ کا طریقہ اور جنازہ کی دعا یـاد نہیں ہے۔ہمـیں چاہیے کہ نمازِ جنازہ اوراس کی دعا کو سیکھیں اور اپنے والدین اور ورثا کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کریں۔
جنازے کے ساتھ جانا اور جنازے کوکندھا دینا
نمازِ جنازہ اداکرنے کے بعد مـیت کو دفنانے کے لیے قبرستان لے جایـا جاتا ہے ۔مـیت کے ساتھ قبرستان جانا اور جنازے کو کندھا دینا ایک طرف مـیت کا حق ہے تو دوسری طرف بہت اجر وثواب کا باعث بھی۔اس لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جنازے کے ساتھ جانے‘نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفنانے تک مـیت کے ساتھ رہنے والے کو اُحد پہاڑ جتنے دو قیراط اجر وثواب کا مستحق قرار دیـا ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا :
”جو آدمـی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سےی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس مـیں سے ہر قیراط گویـااُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمـی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)
جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ اور اس کی فضیلت
ہر اچھے کام کو دائیں طرف سے شروع کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لیے سب سے پہلے مـیت کی چارپائی کے دائیں پائے کو کندھا دیـا جائے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہوئے پچھلے پائے کو کندھا دیـا جائے۔اس کے بعد چارپائی کے آگے والے بائیں پائے کو کندھا دیـا جا ئے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہو ئے پچھلے پائے کو کندھا دیـاجائے۔ایک دفعہ چاروں طرف کندھا دینا مسنون عمل ہے۔اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود کاقول ملاحظہ ہو:
”جو جنازے کے ساتھ چلے اس کو چاہیے کہ چارپائی کے ہر طرف (پائے)کو کندھا دے، اس لیے کہ یہ مسنون ہے۔پھر اگر چاہے تو مزید کندھا دے اور اگر چاہے تو نہ دے۔“(ابن ماجہ)
جنازے کو کندھا ایک طرف مـیت کا حق ہے تو دوسری طرف یہ انسان کے کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول مبارک ملاحظہ ہو:
”جس نے جنازے کے چاروں جانب کندھادیـا تو اللہ تعالیٰ (جنازہ کو کندھا دینے کو)اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔“(مجمع الزوائد)
عورت کی مـیت کو بھی ہر شخص کندھا دے سکتا ہے اس مـیں محرم ‘غیر محرم کا کوئی فرق نہیں ہے‘البتہ عورت کی مـیت کو قبر مـیں اتارنے کی ذمہ داری محرم ہی پوری کرے۔
جنازے کے احترام مـیں کھڑا ہونا کیسا ہے؟
احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ شروع زمانہ مـیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنازہ کے احترام مـیں کھڑے ہوا کرتے تھے‘ لیکن ایک بار جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوئے تو پاس موجود ایک یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔اُس وقت سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں کی مخالفت مـیں جنازہ کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمادیـا۔حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ مـیت کو لحد مـیں اتار دیـا جاتا۔ایک مرتبہ ایک یہودی کا گزر ہوا(اور آپ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کے احترام مـیں کھڑے تھے)۔اُس یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔پس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فوراً بیٹھ گئے اور فرمایـا:(جنازہ دیکھ کر)اِن کی مخالفت مـیں بیٹھے رہو(اور کھڑے نہ ہو)۔“(ابوداوٴو)
آج بھی اگر کوئی جنازہ کو دیکھ کر مـیت کے احترام کی نیت سے کھڑا ہوجاتا ہے تو ایسا کرنے مـیں کوئی قباحت نہیں ہے‘لیکن اولیٰ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طرزِعمل کو اپنایـا جائے۔
مـیت کو دفن کرنا اور مٹی ڈالنا
مـیت کوتیـار کی گئی قبر کے پاس رکھا جائے ۔اگر قبر مـیں کوئی چٹائی یـا کپڑا بچھا لیـا جائے تو اس مـیں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کوئی قریبی رشتہ دار احتیـاط کے ساتھ مـیت کو قبر مـیں اتارے۔ مـیت کو قبر مـیں اتارتے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ((بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ)) پڑھنا چاہیے اور اگری کو یہ یـاد نہ ہوتو بسم اللہ پڑھ لے۔
مـیت کو قبر مـیں اتارنے کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عمل کے مطابق تین بار مٹھی بھر کر سر والی طرف مٹی ڈالیں۔علمائے کرام نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ﴾‘ دوسری دفعہ ﴿وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ﴾‘اور تیسری دفعہ ﴿وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾پڑھنا چاہیے۔
دفنانے کے بعد دعا کرنا
جب مـیت کو مکمل طور پر دفنادیـا جائے تو پھر وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ مـیت کی بخشش اور اس کی استقامت کے لیے دعاگو ہوں، اس لیے کہ اب اُس کے اصل امتحان کا وقت شروع ہو گیـا ہے۔حضرت عثمان غنی اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معمول کو بیـان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب مـیت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے:”اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمـی کی دعا کرو،اس لیے کہ اِس وقت اُس سے سوال کیـا جارہا ہے۔“(ابوداوٴو)
اس کے علاوہ بھی ورثا اور خاص کر اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی بخشش کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں اور نیک کاموں مـیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس لیے کہ اولاد کے نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ والدین کے نامہ اعمال مـیں بھی لکھا جاتا ہے۔
مـیت کے لواحقین سے تعزیت کرنا
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ مـیت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیـامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے مـیں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمـیں چاہیے کہ تعزیت کومـیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں۔
مـیت کے ذمے واجب الادا قرض کو ادا کرنا
مـیت کی تدفین اور باقی معاملات سے فراغت کے بعد ورثا کو چاہیے کہ مـیت کے ذمے اگرکوئی قرض ہے تو اس کی جلد ادا ئیگی کی فکر کریں۔اس لیے کہ جب تک قرض ادا نہیں ہوجاتا انسان کی روح معلق رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”موٴمن کی روح اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیـا جائے۔“(ابن ماجہ)
قرض ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر قرض ادا نہ کیـا گیـا تو قیـامت کے دن اس قرض کے بدلے مـیں اِس مـیت کی نیکیـاں لے لی جائیںاوراس طرح مقروض صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے محروم کر دیـا جائے گا۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”جس کی روح اُس کے جسم سے اس حال مـیں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں تکبر دھوکہ دہی اورقرضہ سے بچا رہا تو وہ جنت مـیں داخل ہوگیـا۔“(ابن ماجہ)
مـیت کی طرف سے حج کرنا
اگری نے حج کرنے کی نذر مانی ‘لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیـاتواب اس کے ورثا پر لازم ہے کہ وہ اُس کی اِس نذر کو پورا کریں۔اس لیے کہ یہ بھی مـیت کے ذمے قرض ہے، جسے ادا کرنا ورثا پر لازم ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیـا کہ مـیری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی۔کیـا مـیں اس کی طرف سے حج کروں؟رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:
”ہاں‘اس کی طرف سے حج کرو۔تیرا کیـا خیـال ہے کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیـا تو اسے ادا نہ کرتی؟(یہ نذر اللہ کا قرض ہے‘لہٰذا) اللہ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ اللہ زیـادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیـا جائے۔“(بخاری)
اس کے علاوہ اگر نذر نہ بھی مانی ہو تب بھی اولاد اپنے والدین یـا قریبی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتے ہیں ‘اس کا اجر و ثواب ان شاء اللہ تعالیٰ مـیت کو ضرورپہنچے گا۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنا فرض حج ادا کرے اور بعد مـیں والدین یـا رشتہ دارکی طرف سے حج یـا عمرہ کرے۔
مـیت کے قضا روزوں اور نمازوں کا فدیہ اداکرنا
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگری شخص نے روزہ رکھنے کی نذر مانی اور روزے رکھنے سے پہلے وفات پا گیـا تو اس کے ورثا نذر کے روزوں کو بالفعل رکھ سکتے ہیں‘ لیکن رمضان کے فرض روزوں اور فرض نمازوں کو بالفعل ادا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگر ممکن ہو تو حساب کرکے مـیت کی طرف سے فی روزہ اور فی نماز صدقہ فطر کے برابر فدیہ اداکریں۔اس حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیـانوی کا جواب ملاحظہ ہو:
”فرض نماز اور روزہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا‘البتہ نماز روزے کا فدیہ مرحوم کی طرف سے اس کے وارث اداکرسکتے ہیں۔پس اگر آپ اپنی والدہ کی طرف سے نمازیں قضا کرنا چاپتی ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو ان کی نمازوں کاحساب کرکے ہر نماز کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ادا کریں۔وتر کی نماز سمـیت ہر دن کی نمازوں کے چھ فدیے ہوں گے۔ویسے آپ نوافل پڑھ کر اپنی والدہ کو ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔“(آپ کے مسائل اور ان کا حل)
مـیت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا
فوت شدہ قریبی رشتہ داروں اور خاص کر فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا فوت شدگان کے لیے بھی باعث ثواب ہے اور صدقہ خیرات کرنے والے کے حق مـیں بھی باعث برکت ہے۔
” حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کا ان کی عدم موجودگی مـیں انتقال ہو گیـا۔(جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت مـیں حاضرہو کر گزارش کی :) یـارسول اللہ! مـیری والدہ نے مـیری غیر حاضری مـیں وفات پائی‘ اگر مـیں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیـا انہیں کوئی نفع پہنچے گا ؟تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا :”ہاں‘ پہنچے گا“ ۔ انہوں نے عرض کیـا: آپ صلی الله علیہ وسلم گواہ رہیں ‘مـیں نے اپنا مخراف نامـی باغ ان کی طرف سے صدقہ کردیـا۔ “ (بخاری)
اسی طرح اور بھی بہت سی روایـات ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب فوت شدگان کو پہنچتا ہے۔
عورت کا عدت گزارنا
مـیت کے لیے تین دن سے زیـادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے‘البتہ عورت کے لیے اپنے خاوند کے مرنے پر عدت گزارنا لازم ہے اور یہ مـیت کا حق بھی ہے۔عدت کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اُ س کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔اس مدت مـیں وہ گھر مـیں سادگی اختیـار کرتے ہوئے رہے اوربغیری مجبوری اور شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ نکلے۔اگر مجبوری کے وقت گھر سے باہر جانا بھی پڑے تو سادگی اور پردہ کا خصوصی لحاظ رکھے۔
نتیجہ کلام
پیدائش‘ شادی اور وفات انسانی زندگی کے تین اہم مراحل ہیں اور ان مراحل کے حوالے سے کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جو دین اسلام سے ثابت ہیں جب کہ کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جنہیں اسلامـی معاشروں نے ہندوانہ تہذیب سے مستعار لیـا ہے ۔ان کے بارے مـیں قاعدہ تو یہی ہے کہ جو افعال اسلامـی پہلوسے ثابت ہیں اُن کو اپنایـا جائے اور جن کا ثبوت نہیں ملتا اُن سے کنارہ کشی کی جائے۔
سن رسیدہ کے حقوق
محترم محمد شمشاد ندوی
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات مـیں انسان کو اشرف بنایـا۔اس کو علم،عقل،صلاحیت اور فہم و فراست عطا فرمائی۔انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اُن مـیں نیک و بد، عالم وجاہل،مشرک ومومن،اپنے اور پرائے، ہمسایہ واجنبی وغیرہ ہیں۔مردو عورت مـیں مختلف رشتہ داریـاں اور حقوق وواجبات ہیں۔ان مـیں بچے،جوان، بوڑھے،محتاج وکمزور،یتیم و بیوہ اور بیمار واپاہج بھی ہیں۔انسانی نسل مـیں مختلف قبائل وخاندان،رسم ورواج،مذہب ومسلک،رنگ ونسل،ملک ووطن ہیں، لیکن تمام تر تفریقات کے باوجود کچھ قدریں مشترک ہیں اور انسانی آبادی مـیں ان قدروں پر عمل ہوتا رہا ہے۔ بچوں سے شفقت و محبت اور بوڑھوں کا ادب و احترام تمام قوموں اور مذہبوں مـیں پایـا جاتا ہے اور انسانی سماج مـیں ہر عمر کے لوگوں کے لیے الگ الگ برتاؤ پایـا جاتا ہے، لیکن آج بدلتے حالات کے ساتھ بہت سی پرانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔مغربی ممالک اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے سماج مـیں بوڑھے مرد اور عورت پر ظلم و زیـادتی پائی جارہی ہے۔ان کا ادب و احترام،ان کی خدمت و خبرگیری سے خود اولاددورہوتی جارہی ہے۔بوڑھے اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور سرکاری رہائش گاہوں مـیں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔آئے دن ان پر زیـادتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
مسلم خاندان و معاشرے مـیں بھی بتدریج تبدیلیـاں آرہی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ عمر رسیدہ کے حقوق اور ان کے ادب و احترام اور خدمت وخبر گیری کے سلسلے مـیں اسلامـی تعلیمات کو قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا جائے اور وعظ ونصیحت اور آپسی ملاقاتوں مـیں بھی بڑوں کے ادب و خدمت کو بار بار دہرایـا جائے اور بچوں پر شفقت و محبت اور بڑوں کے ادب و احترام کا عمومـی ماحول پیدا کیـا جائے۔
اسلام نے چھوٹوں پرشفقت و محبت کرنے اور عمر رسیدہ لوگوں کی عزت و احترام کا حکم دیـا ہے۔اس سلسلے مـیں احادیث اور اسلاف کے قول وعمل کے نادر نمونے موجود ہیں۔حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا…”من لم یرحم صغیرنا ولم یعرف حق کبیرنا فلیس منا“ (جوہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حقوق کونہ پہچانے وہ ہم مـیں سے نہیں ہے)۔
اس حدیث مـیں بڑوں کے ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے۔ایسے لوگوں کا رشتہ اسلام سے کمزور ہے۔
نماز ایک اہم رکن ہے،اس مـیں بھی بوڑھوں کا خاص خیـال رکھا گیـا ہے۔انفرادی نماز مـیں انسان کو بڑی سورت اور لمبی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن جماعت کی نماز مـیں بوڑھے ،کمزور اور بیمار شریک ہوتے ہیں اس لیے امام کو حکم دیـا گیـا کہ آسانی اختیـار کرے اور نماز زیـادہ لمبی نہ کرے۔
”عن أبی ھریرة ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اذا أم أحدکم الناس فلیخفّف، فان فیھم الصغیر والکبیر والضعیف والمریض، فاذا صلی وحدہ فلیصلّ کیف شاء“․
ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا،جب تم مـیں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے(یعنی زیـادہ طول نہ دے)،کیوں کہ مقتدیوں مـیں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔“
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امام پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایـا جو بوڑھے،کمزور اور ضرورت مندوں کاخیـال نہ رکھتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتے تھے۔چناں چہ صحیحین مـیں ہے:
”عن قیس بن أبی حازم قال أخبرنی أبو مسعود ان رجلاً قال: واللّٰہ یـا رسول اللّٰہ، انی لاتاخر عن صلاة الغداة من أجل فلان مما یطیل بنا، فمارأیت رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم فی موعظة أشد غضباً منہ یومئذ، ثم قال: ان منکم منفرین، فایکم ما صلی بالناس فلیتجوز، فان فیھم الضعیف والکبیر وذاالحاجة“
ترجمہ :”قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری نے بیـان کیـا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مـیں عرض کیـا کہ یـا رسول اللہ! بخدا مـیں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز مـیں شریک نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں۔حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری بیـان کرتے ہیں کہ مـیں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت مـیں اس دن سے زیـادہ غضبناک نہیں دیکھا،پھر اس خطبہ مـیں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایـا کہ تم مـیں سے بعض وہ لوگ ہیں جو ( اپنے غلط طرزِعمل سے اللہ کے بندوں کو)دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم مـیں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ نماز مختصر پڑھائے،کیوں کہ ان مـیں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔“
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیـات امامت فرمائی۔مرض الموت مـیں صحابہ کرام کے درمـیان سب سے معزز ہستی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کے فریضہ کو انجام دیـا۔یہاں بھی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو فراموش نہیں فرمایـا۔قرآن و حدیث مـیں مہارت،عمر مـیں برابری،ہجرت مـیں سبقت مـیں سب برابر ہوں تو اس وقت سب سے زیـادہ عمر دراز کو امامت کرنی چاہیے۔
”عن ابی مسعود الأنصاری قال:قال رسول للہ صلی الله علیہ وسلم: یوٴم القوم أقروٴھم لکتاب اللہ، فان کانوا فی القرأة سواءً، فاعلمھم بالسنة، فان کانوا فی السنة سواءً فاقدمھم سناً، ولا یوٴمن الرجل الرجل فی سلطانہ، ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ، الا باذنہ“ ․
ترجمہ:”حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا ، جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان مـیں سب سے زیـادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہواور اگر اس مـیں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمـی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیـادہ علم رکھتا ہو اور اگر اس مـیں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت مـیں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے،جو سن کے لحاظ سے مقدم ہواور کوئی آدمـی دوسرے آدمـی کے حلقہ سیـادت و حکومت مـیں ا س کا امام نہ بنے اور اس کے گھر مـیں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔“
امام بخاری نے کتاب الاذان کے تحت ایک روایت کو ذکر کیـا ہے جس مـیں عمر مـیں سب سے بڑے کو امامت سپرد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
”عن مالک بن الحویرث: اتیت النبی صلی الله علیہ وسلم فی نفر من قومـی، فأقمنا عندہ عشرین لیلة، وکان رحیماً رفیقاً، رأی شوقنا الی أھالینا، قال: ارجعوا وکونوا فیھم، وعلموھم وصلوافاذا حضرت الصلوٰة فلیوٴذن لکم احدکم ولیوٴمکم اکبرکم“․
ترجمہ:”حضرت مالک بیـان کرتے ہیں کہ مـیں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مـیں حاضر ہوا اور ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان اور نرم مزاج تھے۔چناں چہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم لوگ اپنے اہل وعیـال کی طرف واپس جانے کے مشتاق ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا:تم لوگ اب واپس چلے جاوٴاور اپنے قبیلے مـیں ٹھہر کر انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھاوٴ، جب نماز کا وقت ہو تو تم مـیں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر مـیں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔“
بیہقی نے کتاب الزہد مـیں حضرت انسسے روایت کیـا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا جو شخص اسلام مـیں چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیـا تو اللہ تعالیٰ اس سے جنون اور جذام اور برص کو رفع کردیتا ہے،پھر جب پچاس سال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب نرم فرما دیں گے،پھر جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ا س سے محبت فرماتے ہیں اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جب اسّی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کے حسنات کو قبول فرمالیتے ہیں اور اس کی سیئات کو معاف فرمادیتے ہیں، پھرجب نوّے سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کا نام خدائی قیدی ہو جاتا ہے اور اس کے اہل کے بارے مـیں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔
حافظ ابن حجر نے فرمایـا کہ اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا…”ان من اِجلال اللہ تعالیٰ اِکرامَ ذی الشیبة المسلم، وحامل القرآن غیر الغالی فیہ، والجافی عنہ، واِکرام ذی السلطان المقسط“․
ترجمہ:”اللہ کی عظمت واحترام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عمر رسیدہ کا اکرام کیـا جائے اور اس قرآن کے حامل وحافظ کا جو اس مـیں غلو نہ کرنے والا ہو اور نہ اس کو چھوڑنے والا اور عادل بادشاہ کا“۔
جس شخص نے عمر رسیدہ کی عزت کی اس کا بدلہ یہ کہ بڑھاپے مـیں اس کی بھی عزت کی جائے گی۔
”عن أنس بن مالک رضی ا للہ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ما اکرم شابٌ شیخاً لسنہ الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ“․
ترجمہ:”حضرت انس رضی ا للہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا جو نوجوانی بوڑھے کی عزت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے شخص کو مامور کرے گا جو اس کے بڑھاپے مـیں اس کے عزت کرے۔“
جو شخص اسلام کے دائرے مـیں رہتے ہوئے بوڑھا ہو جائے اور اس کے بال سفید ہو جائیں ،اس کو اللہ تعالیٰ قیـامت مـیں ایک نور عطا فرمائے گا۔یہ اس کی عظمت وبڑائی کی علامت ہوگی جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں مـیں ممتاز ہو گا۔
”عن کعب بن مرة قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من شاب شیبة فی الِاسلام کانت نوراً یوم القیـامة“․
ترجمہ:”حضرت کعب بن مرہ روایت کرتے ہیں کہ مـیں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جونوجوان اسلام مـیں بوڑھا ہو گیـا اس کے لیے قیـامت کے دن نور ہوگا“۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بوڑھے شخص کے لیے ایک سفید بال کے بدلہ ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ مٹائے گا۔
”کتب اللّٰہ بھا حسنة وحط عنہ بھا خطیئة“ لأصحاب السنن بلفظ ابی داوٴد․
ایک اور حدیث مـیں ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے اس بات سے کہ اپنے بندے اور بندی کو جب کہ وہ اسلام مـیں بوڑھے ہوں،عذاب دیں۔
عمر دراز کی عظمت و بڑائی کا تقاضا ہے کہ چھوٹا سلام کرنے مـیں پہل کرے اور بعض روایتوں مـیں بڑوں کے ادب و احترام کے لیے کھڑے ہونے اور ہاتھ چومنے کی بابت معلوم ہوتاہے اور امت کے دین دار ومہذب طبقہ مـیں اس کا معمول پایـا جاتا ہے۔
حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایـا کہ جب ہم رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھی کھانے مـیں شریک ہوتے تو اس وقت تک برتن مـیں ہاتھ نہیں ڈالتے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک برتن مـیں نہ ڈالیں۔
اسی طرح ادب یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد عمر دراز کو سب سے پہلے ہاتھ دھونے کا موقع دیـا جائے یـا ان کا ہاتھ دھلایـا جائے۔اسی طرح اپنے ہر اجتماعی کام مـیں اپنے بڑوں کو شریک کرے ،ان سے مشورہ کرے۔ان کی رائے پر عمل کرنے سے کام یـابی ملتی ہے اور کام پایہ تکمـیل تک پہنچتا ہے اور اس کام مـیں برکت ہوتی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا:”البرکة من أکابرنا ،فمن لم یرحم صغیرنا، ویجل کبیرنا فلیس منا“ ․
ترجمہ:”برکت اکابر کے ساتھ ہے جو، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم مـیں سے نہیں ہے“۔
حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا:”الخیر مع أکابرنا“یعنی خیر اکابر کے ساتھ ہے۔
کئی افراد جمع ہوں اور ان کے سامنے کوئی چیز پیش کی جائے اور بڑوں کی عزت و مرتبہ کا خیـا ل رکھا جائے۔مسلم شریف مـیں ہے۔
”عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: أرانی فی المنام أتسوک بسواک وجاء نی رجلان، أحدھما أکبر من الآخر، فناولت السواک للأصغرفقیل لی:کبر، اِلی الکبیر منھما “․
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا مـیں نے خواب مـیں دیکھا کہ مسواک کررہا ہوں،مـیرے پاس دو آدمـی آئے،ان مـیں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا،تو مـیں نے چھوٹے کو مسواک پیش کیـا تو مجھ سے کہا گیـا،بڑے کو دیجیے،لہٰذا مـیں نے وہ مسواک دونوں مـیں سے جو بڑا تھا اس کے حوالے کردی۔“
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے شفقت و محبت اور رحم وکرم کا معاملہ فرماتے تھے ۔ان کے نقش قدم پر صحابہ کرام بھی بچوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے تھے۔بچے بھی اپنے بڑوں کا ادب و احترام کرنے مـیں اپنی سعادت و نیک بختی سمجھتے تھے۔کیوں کہ ان کی تربیت ایسی ہی کی گئی تھی۔ایک مرتبہ صحابہ کرام کے مجمع مـیں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیـا کہ وہسا درخت ہے جس کی تمام چیزیں کار آمد ہیں؟حضرت عبداللہ بن عمر کو اس کا جواب معلوم تھا، لیکن معمر صحابہ کرام کی موجودگی مـیں جواب دینا ادب کے خلاف سمجھا۔
”عن عبداللہ بن عمر قال قال: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: أخبرونی بشجرة مثَلھا مَثل المسلم، توٴتی اکلَھا کل حین باذن ربھا، لا تحث ورقھا، فوقع فی نفسی النخلة فکرھت ان أتکلم وثم أبوبکروعمر رضی اللہ عنھما فلما لم یتکلما، قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ھی النخلة، فلما خرجت مع أبی قلت یـا أبت وقع فی نفسی النخلة، قال:مامنعک أن تقولھا؟ لو کنت قلتھا کان احب الی من کذا و کذاَ قال: ما منعنی اِلا لم أرک ولا أبابکر تکلمتما فکرھت“․
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عمررو ایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایـا۔آپ لوگ ایسے درخت کے بارے مـیں بتایئے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔اللہ کے حکم سے ہرموسم اس کا پھل آتا ہے،اس کے پتے نہیں گرتے ۔راوی کہتے ہیں کہ مـیرے دل مـیں آیـا کہ وہ کھجور کا درخت ہے،مـیں نے جواب دینا ناپسندکیـا، اس لیے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے کوئی جواب نہیں دیـا۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا وہ کھجور کا درخت ہے۔جب مـیں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو مـیں نے کہا اے مـیرے والد!مـیرے دل مـیں آیـا کہ وہ کھجور کادرخت ہے۔حضرت عمرنے فرمایـا بات نے تم کو جواب دینے سے روک دیـا؟اگرتم جواب دیتے تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ۔حضرت عبداللہ نے فرمایـا مـیرے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس اتنا کہ آپ اور حضرت ابو بکر نے جواب نہیں دیـا تو مـیں نے جواب دینا نا پسند کیـا“۔
اسلام نے بڑوں کی بے حرمتی کرنے،مذاق اُڑانے،برابھلا کہنے اور ان پر ہنسنے سے منع کیـا ہے اور بڑوں کی توہین کرنے والوں کو منافق قرار دیـاہے۔طبرانی اپنی کتاب معجم کبیر مـیں حضرت ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا:”ثلاث لا یستخف بہم الا منافق: الشیبة فی الِاسلام، وذوالعلم، واِمام مقسط.“
ترجمہ: ”تین آدمـیوں کی توہین منافق کرسکتا ہے،ایک وہ شخص جو حالتِ اسلام مـیں بڑھاپے کو پہنچا ہو اور عالم اور عادل امام و بادشاہ“۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی اس طرح تربیت فرمائی کہ قرآن وحدیث کی مکمل تعلیمات ان کے اعمال و اقوال سے ظاہر ہوتی تھیں،گویـا کہ وہ قرآن و حدیث کے سانچے مـیں ڈ ھلے ہوئے تھے۔حکیم بن قیس بن عاصم فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:”عن قتادة سمعت مطرفا، عن حکیم بن قیس بن عاصم، أن أباہ أوصی عند موتہ بنیہ فقال اتقوا اللہ، وسوّدوا أکبرہم، فان القوم اذا سودوا أکبرہم خلفوا أباہم، واذا سودوا أصغرہم أزری بھم ذلک فی أکفائھم، وعلیکم بالمال واصطناعہ، فانہ منبھة لکریم، ویستغنی بہ عن اللئیم، وایـاکم ومسألة الناس، فانھما من آخرب الرجل، واذا متُّ فلا تنوحوا، فانہ لم ینح علی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم واذا متُّ فادفنونی بأرض لا تسعیر بدفنی بکر بن وائل، فانی کنت أغافلھم فی الجاہلیة“․
ترجمہ: ”حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ مـیں نے مطرف سے سنا، وہ حکیم بن قیس بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایـا،اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا واجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں مـیں ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔تم پر مال حاصل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازم ہے۔مال شریعت کے لیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے کمـینہ سے بے نیـاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو…“۔
ایک بوڑھا شخص ،چاہے اس کا تعلقی بھی قوم ووطن سے ہو،کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اس کے ادب و احترام کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا۔“:(اذا أتاکم کبیر قوم فأکرموہ،رواہ الطبرانی)(یعنی جب تمہارے پاسی قوم کا بڑا آدمـی آئے تو تم ان کا اکرام کرو)۔
قاضی ابو یوسف نے”کتاب الخراج“مـیں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ایک بوڑھا، جو اندھا بھی تھا، ایک دروازے پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔حضرت عمر نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی؟اس نے کہا جزیہ ادا کرنے،اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کے سبب بھیک مانگ رہا ہوں۔حضرت عمراس کا ہاتھ پکڑکراپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے کچھ دیـا،پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا اور کہلوایـا کہ اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو! خدا کی قسم! ہم انصاف نہیں کریں گے،اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔قرآن مـیں صدقہ کی اجازت فقرا اور مساکین کے لیے ہے ۔فقراء تو وہی لوگ ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ مساکین اہل ِکتاب مـیں ہیں ،ان سے جزیہ لیـا جائے۔
اسلام پورے عالم مـیں امن وآتشی چاہتا ہے۔برائیوں و گم راہیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔شرک و بدعات،اوہام وخرافات،قتل و غارت گری اور زنا وبے حیـائی سے عالمِ انسانیت کو محفوظ و پاک رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے تمام انسانوں تک اسلام کی ابدی و لازوال دولت پہنچاناامتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
﴿ادع اِلی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی أحسن ﴾․
”اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاوٴ اور ان کے ساتھ بحث کرو بہترین طریقے پر “۔
یہ بھی تعلیم ہے کہ”لا اِکراہ فی الدین“دین مـیں کوئی زبردستی نہیں۔لیکن اس کے باوجود حق وباطل مـیں معرکہ آرائی روزِاوّل سے جاری ہے۔حق کے سامنے باطل نے سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔اس موقع پر بھی اسلام نے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے اور عورتوں کی طرف نگاہِ بد ڈالنے سے منع کیـا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس خطہ مـیں تشریف لے گئے،آپ حضرات کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کی موجودگی کو باعث خیر وعافیت اور سعادت و نیک بختی خیـال کیـا گیـا۔
الغرض اسلام نے عمر رسیدہ و بزرگ کی عزت و احترام کا حکم دیتے ہوئے ان کی موجودگی کو معاشرہ کے لیے خیر و برکت کا بہترین ذریعہ قراردیـا ہے۔ایک بوڑھا شخص، چاہےی بھی مذہب کا ماننے والا ہو،اس کا کوئی بھی وطن ہو،اس کاتعلقی بھی نسل و برادری سے ہو،ا س کی عزت و توقیر اور ادب واحترام کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے ۔ جو کوئی ان کی عزت واحترام کو ناقابل ِاعتناء سمجھتا ہے،اس کا تعلق و وابستگی کمزور ہے۔دنیـا مـیں بوڑھے و عمر دراز ادب و احترام اور عزت ووقعت کے مستحق ہیں اور آخرت مـیں ان کو ایک نور سے نوازا جائے گا،جوان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہو گا۔اللہ ہر سفید بال کے بدلے ان کو ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ کو مٹائے گا۔
عمر رسیدہ و بوڑھوں کی قدر و منزلت اور عزت و احترام اس سے بڑھ کر کیـا ہو گا کہ اللہ ان کو آخرت مـیں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ اورلوگوں مـیں ممتاز ہوں گے ، یہ ان کی بڑائی اور عظمت کی نشانی ہوگی۔اللہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔دنیـاوی معاشرہ مـیں بھی ان کی موجودگی خیر وبرکت کا بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا ان کے ادب و احترام ،سکون واطمـینان اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے عمومـی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ امتِ مسلمہ کو انسانی برادری کے سامنے قابلِ تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے۔
وما توفیقی الا باللّٰہ وعلیہ توکلت والیہ اُنیب.
قرآن وحدیث کے تناظر مـیں حقوقِ انسانی کی تشریح
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے وہ خونچکاں حالات، جہاں جان ومال، عزت وآبرو ہر چیز خطرے مـیں تھی، اس کا تصور ذہن مـیں آتے ہی ایک روح فرسا کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اخوت ومحبت ، ہمدردی وغم گساری، نامانوس بلکہ ناپید تھی، معمولی معمولی سی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی اور ایسی بھیـانک شکل اختیـار کرلیتی، جس کا تذکرہ تو کجا تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، غرض ہر طرف ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا، ایسے مہیب سائے مـیں فاران کی چوٹی سے ایک آفتاب عالمتاب نمودار ہوا جس کی ضیـاء پاش کرنوں سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا، دم توڑتی اور جاں بلب انسانیت کو آبِ حیـات ملا، اور انسانیت پہلی بار اپنے حقوق سے آشنا ہوئی۔
حقوق انسانی کے معنی: یہ دو کلموں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے: وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یـا جماعت کیلئے) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے، انسان کی تعریف وہ جاندار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔
حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیـا مـیں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریـاتِ زندگی کی تکمـیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ مـیں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔
حقوق انسانی کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ: حقوق انسانی پر کتاب وسنت کی روشنی مـیں تفصیلی بحث کرنے سے قبل ان حقوق کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا بے محل نہ ہوگا تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور آج کی مہذب دنیـا (امریکہ) جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک وہ اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیـادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیـا تھا۔ خطبہٴ حجة الوداع کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی ہی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیـان فرمایـا ہے۔
حقوق انسانی کے شعور وارتقاء کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ندوی فاضل جناب مولانا سید احمد ومـیض ندوی اپنے وقیع مضمون مـیں رقمطراز ہیں ”صنعتی انقلاب کے آغاز سے مغرب مـیں حقوق انسانی کا شعور پیدا ہوا کہ انسان کے بھی بحیثیت انسان ہونے کے چند فطری حقوق ہوتے ہیں جن سےی بھی فرد کو محروم نہیں کیـا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا شعور بیسویں صدی کے شروع مـیں نمودار ہوا اور انقلابِ فرانس کا اہم جزو قرار پایـا، اس مـیں قوم کی حاکمـیت، آزادی، مساوات اور ملکیت جیسی فطری حقوق وغیرہ کا اثبات کیـاگیـا تھا، تدریجاً حقوق انسانی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیـا، اور اخیر مـیں حقوقِ انسانی کا عالمـی منشور سامنے آیـا، دسمبر ۱۹۴۶/ مـیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزرویشن پاس کیـا جس مـیں انسانوں کی نسل کشی کو ایک بین الاقوامـی جرم قرار دیـاگیـا۔۱۹۴۸/ مـیں نسل کشی کے انسداد کیلئے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲/جنوری ۱۹۸۱/ مـیں نفاذ ہوا۔
حقیقی انسانی حقوق: انسان کے بنیـادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیـاجاتا ہے ان مـیں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمـیر کا حق ضروریـات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق مـیں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمـی حقوق نمایـاں حیثیت کے حامل ہیں۔
حقوقِ انسانی کی صحیح تشریح: سطور بالا مـیں دور حاضر کے انسانی حقوق کے ارتقاء کا جو سرسری جائزہ لیـاگیـا ہے اس سے یہ بات سمجھ مـیں آتی ہے کہ مغرب مـیں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی۔
فاضل مضمون نگار مولانا ندوی حقوقِ انسانی کے اس مغربی منشور کی عدم تاثیر اور فرسودگی کے اسباب ومحرکات متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جن مغربی ممالک نے منشور حقوقِ انسانی کی داغ بیل ڈالی تھی، آج وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں مـیں پیش پیش نظر آتے ہیں، چنانچہ آئے دن ان ممالک مـیں جرائم پیشہ افراد کی شرح مـیں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مفکرین و مدبرین نے اس کے بہت سے اسباب متعین کیئے ہیں، لیکن حقوق انسانی پر ڈاکہ زنی کا بنیـادی سبب ان انسانی حقوق کے نفاذ کیلئےی داخلی قوتِ نافذہ کا فقدان ہے، علاوہ ازیں مغرب کے حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوقِ انسانی ایک نظریہ بن کر رہ گیـا، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور ان کو عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیـا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہوگئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کا جامع ترین تصور اسلام نے دیـا: مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیـا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیـا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن مـیں احترام انسانیت، بشری نفسیـات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمـی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریـات کا مکمل لحاظ کیـاگیـا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمـیت دی ہے کہ اگری شخص نے دنیـا مـیںی کا حق ادا نہیں کیـا تو آخرت مـیں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیـا جائے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایـا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیـامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیـا جائے گا۔
زکوٰة اور حقوق انسانی: یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کے پاس مال ودولت کے منجمد رہنے سے کمزور طبقے بیروزگاری کے شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسلامـی قوانین نے زکوٰة کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں کیلئے خاص کیـا کہ دولت ایک ہاتھ مـیں سمٹ کر نہ رہ جائے، صدقہ وخیرات کی اہمـیت اجاگر کرکے غرباء ومساکین کا بھرپور خیـال رکھا، ارشاد ربانی ہے: وَفِیْ أمْوَالِہِم حَقٌ للسَّائِلِ وَالمَحْرُومِ اور ان کے مالوں مـیں غرباء ومساکین کا حق ہے۔
اسلام مـیں انسانیت کی مـیزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیـا کی تمام مخلوق مـیں سب سے زیـادہ اعزاز بخشا، اس کے احترام واکرام کی تعلیم دی، اس کو خوبصورت سانچہ مـیں ڈھال کر اسے دنیـا کی نعمتوں سے مالا مال کیـا، ارشاد ربانی ہے: ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور خشکی ودریـا مـیں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ہم نے آدمـی کو اچھی شکل وصورت مـیں پیدا کیـا ہے۔ تیسری جگہ فرمایـا: اللہ نے تمہارے نفع کیلئے زمـین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ چوتھی جگہ یوں فرمایـا: مـیں سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیـا ہے۔ اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت وشرافت کی اتنی پاسداری کی کہ انسان کا احترام بعد مرگ تک باقی رکھا، چنانچہ آپ کے زمانے مـیں ایک عورت کا جنازہ گذررہا تھا، اللہ کے رسول کھڑے ہوگئے، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایـا ألیسَتْ نفسًا: یعنی کیـا وہ انسان نہیں؟ اسی طرح نبوت وشریعت کی دولت بھی صرف اور صرف انسان ہی کو عطا کیـاگیـا ہے، اسی طرح اسلام نے علوم وعقل اور خرد جیسی گرانقدر انعام سے نوازا، ارشاد ہے: اللہ کی تمام پیداکردہ چیزوں مـیں عقل اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے۔
انسانی اخوت ومساوات: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومـیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیـازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیـا، اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیـا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبہ مـیں جن بنیـادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان مـیں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمـیت کا حامل ہے، ارشاد نبوی ہے:
اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم مـیں اللہ کے نزدیک سب سے زیـادہ معزز وہ شخص ہے جو تم مـیں سب سے زیـادہ متقی اورپاک باز ہو،ی عربی کوی عجمـی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ مـیں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایـا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیـا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایـا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمـین پر) پھیلادئیے، دوسری جگہ ارشاد ہے: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیـا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم مـیں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیـادہ پرہیزگار ہو۔
انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت: یہ انسانی حقوق مـیں سب سے پہلا اور بنیـادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمـیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایـا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیـا۔ قرآن پاک مـیں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے: جو شخصی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیـا جائے، یـا ملک مـیں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویـا تمام لوگوں کا قتل کیـا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویـا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمـین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث مـیں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیـاگیـا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیـادی حیثیت رکھتا ہے۔
جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیـادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیـادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قومـی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔
تحفظ آزادی (شخصی ومذہبی): اسلامـی معاشرہ مـیں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیںی کای پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی مـیں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازتی کے گھر مـیں سے منع کیـا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں مـیں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ مـیں نہ رہا کرو اور نہ کوئیی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام مـیں مذہب اور ضمـیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام مـیں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانشور مفکر لکھتے ہیں ”صبر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے سیزدہ سالہ دور ابتلاء مـیں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمہ حق کہااور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامـی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایـا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیـا ہو، یـای قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایـا ہو۔
عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجتمندوں کے حقوق: اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی، معاشرہ مـیں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیـادہ نہ تھی، معاشی، سماجی ہرلحاظ سے بے بس تھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریـاد رسی کی اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایـا: چنانچہ حجة الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیـان فرمایـا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی کے ساتھ اس گھناؤنے فعل سے منع کیـا۔ ارشاد ہے: اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت مـیں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کی سطح زندگی بلند کرنے مـیں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ چنانچہ ایسے ایسے اصول وقوانین طے کیے جن سے لوگ زیـادہ سے زیـادہ غلامـی کی طوق سے نکل سکے بریں بنا بہت سے گناہوں اور حکم عدولیوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایـا۔
اسلام اور جانوروں کے حقوق
سید وجاہت، طالب علم جامعہ فاروقیہ کراچی
اسلام ایک مکمل دین ہے، اسلام نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایـا، اسلام ہی نے انسان کو حقوق بتائے کہ اگر وہ مرد ہے تو اس کی بیوی کا اس پر کیـا حق ہے؟ اس پر اس کی اولاد کے کیـا حقوق ہیں؟ اسی طرح اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے صنفِ نازک کو اس کا اصل حق عطا کیـا، اسلام ایک جامع وکامل مذہب ہے، حتی کہ اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں، شریعت محمدیہ نے چو پاؤں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق کا بیـان کیـا ہے، ان سطور مـیں ان تمام حقوق کا احاطہ تو ممکن نہیں، بلکہ اسلام کی تعلیمات نے جانوروں کے کیـا حقوق بیـان کیے ان کی وضاحت مطلوب ہے۔
جانوروں کوکھلانے پلانے کی فضیلت
عن انس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما من مسلم یغرس غرسا او یذرع زرعا، فیـاکل منہ انسان او طیر او بھیمة الا کانت لہ صدقة․
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایـا کہ جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یـا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یـا پرندہ یـا چوپایہ اس مـیں سے کھا لیوے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔
اس سے جان دار چیز کو کھلانے پلانے کا اجر معلوم ہواکہ کوئی بندہ کھیتی بوئے اور اس کھیتی مـیں سے کوئی جان دار کھا لیتا ہے اور اس کھیتی کے مالک کو پتہ بھی نہیں کہ اس کی کھیتی سے چوپائے پرندے وغیرہ جو کھارہے ہیں اس کے نامہٴ اعمال مـیں صدقے کا اجر لکھا جارہا ہے، اب اگری نےی جان دار کو پال رکھا ہو اور پھر اسے چارہ ودانہ وغیرہ دیتا ہو تو اس پر کتنا اجر ہو گا؟! اسی طرحی جانور کو تکلیف دینا، انہیں بھوکا رکھنا سخت ترین گناہ ہے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے۔
وعنہ وعن ابن عمر رضی الله عنہ قالا: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عذبت امرأة فی ھرة امسکتھا حتی ماتت من الجوع، فلم تکن تطعمھا ولا ترسلھا، فتاکل من خشاش الارض․
ترجمہ: حضرت ابن عمر وابوہریرہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایـا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمـین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔
کتنی سخت وعید ہے کہ ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے اس عورت کو جہنم کا عذاب ہو رہا تھا، ایک اور روایت مـیں امام ترمذی ذکر کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایـا کہ مـیں نے دوزخ مـیں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے مـیں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ ہشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کے سرین کو نوچتی تھی۔ ( باب صلوٰة الکسوف)
جانوروں کو لعن طعن کرنے کی ممانعت
اسلام نے جانوروں پر بھی لعن طعن کرنے سے منع کیـا ہے وعن ابی جری جابر بن سلیم رضی الله عنہ فی حدیث طویل قال: قلت: یـا رسول الله اعہد الی، قال النبی علیہ السلام: لا تسبن احداً، قال: فما سبت بعدہ حرا، ولا عبدا، ولا بعیرا، ولا شاة․(رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: ابو جری جابر بن سلیم سے ایک طویل حدیث روایت ہے کہ مـیں نے عرض کیـا کہ کچھ وصیت فرمائیں، حضور علیہ السلام نے فرمایـای کو بُرا مت کہنا۔ وہ کہتے ہیں کہ مـیں نے اس کے بعدی کو بُرا نہیں کہا ،نہ آزاد کو، ناغلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو۔ اسی طرح ایک اور روایت مـیں وارد ہے:”وعن عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم، کان فی سفر، فسمع لعنة، فقال: ما ھذہ قالو: ھذہ فلانة لعنت راحلتھا․ فقال علیہ السلام: ضعوا عنھا، فانھا ملعونة․(رواہ ابوداؤد)
حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام سفر مـیں تھے، بعد آپ علیہ السلام نے لعنت کی آواز سنی، آپ علیہ السلام نے فرمایـا یہ کیـا ہے؟ صحابہ نے عرض کیـا یـا رسول الله! فلاں عورت نے اپنی سواری پر لعنت کی ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایـا اس سواری کو چھوڑ دو، اس پر لعنت کی گئی ہے۔
ان حادیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں پر لعنت کرنا، انہیں گالی دینا، جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے، شریعت کی نظر مـیں انتہائی شنیع فعل ہے۔
جانوروں کو بے جا تکالیف دینے پر وعید
جانوروں کو بے جا تکالیف دینے کے حوالے سے بہت کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں، جن مـیں جانوروں کو تکلیف دینے پر وعید آئی ہے اور آپ علیہ السلام نے ایسے شخص سے جو جانوروں کو بے جا تکلیف دیتا ہو غصے کا اظہار فرمایـا ہے اور بعض جگہ ایسے شخص پر آپ علیہ السلام نے لعنت بھی فرمائی ہے ۔
عن ابن عمر رضی الله عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم لعن من اتخدشیئاً فیہ الروح غرضا․ (متفق علیہ)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جوایسی چیز کو نشانہ بناوے جس مـیں روح ہو۔
بعض لوگ محض نشانہ بازی کی مشق کے لیے یـا شغل کے لیے جانوروں کو باندھ کے کھڑا کرتے ہیں اور اس پر تیر وغیرہ سے نشانہ بازی کرتے ہیں، اس سے حضور علیہ السلام نے منع کیـا اور ایسے شخص پر لعنت کی۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایـا :”عن جابر رضی الله عنہ نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن الضرب فی الوجہ، وعن الوسم فی الوجہ․(رواہ مسلم)
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چہرہ پر مارنے اور چہرے پر داغنے سے منع فرمایـا۔ یعنیی جانور کے چہرے پر مارنے کو بھی آپ علیہ السلام نے منع فرمایـا ہے اور ایک حدیث مـیں وارد ہے کہ حضور علیہ السلام کے سامنے سے ایک گدھا گزرا اور اس کے چہرے پر نشان لگاہوا تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایـا الله تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے چہرے کو داغا ۔جانوروں کی آپس مـیں لڑائی کروانا یہ بھی جانوروں کو تکلیف دینا ہے بعض جگہ اونٹوں کو لڑایـا جاتا ہے،ی جگہ مرغوں کو آپس مـیں لڑایـا جاتا ہے ،جو کہ سخت ناپسندیدہ عمل ہے اور بے زبان جانوروں پر ظلم ہے۔
وعن ابن عباس رضی الله عنھما قال نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم من التحریش بین البھائم․(رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں مـیں لڑائی کروانے سے منع فرمایـا ہے۔ مرغ بازی اور بیٹر بازی اور مـینڈھے لڑانا اسی طرحی اور جانور کو لڑانا سب اسی ممانعت مـیں داخل ہے اور یہ سب حرام ہے۔
جانوروں کو بھوکا رکھنا اور ان کے کھانے پینے کا خیـال نہ رکھنا بھی ظلم ہے، جو موجب عذاب ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے روایت ذکر کی ،اسی طرح ان پر مشقت سے زیـادہ بوجھ ڈالنا بھی گناہ ہے، اس کی ممانعت آئی ہے۔
حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مـیں نے تین واقعے عجیب رسول الله سے دیکھے ( ان مـیں سے ایک یہ ہے کہ) ہم آپ علیہ السلام کے ہم راہ چلے جارہے تھے کہ اچانک ہمارا گذر ایک اونٹ پر ہوا، جس پر ( آب پاشی کے لیے) آب کشی کی جارہی تھی، جب اونٹ نے آپ علیہ السلام کو دیکھا تو بلبلانے لگا اور اپنی گردن کا اگلاحصہ جھکا لیـا، آپ علیہ السلام اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایـا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایـا کہ مـیرے ہاتھ اس کو بیچ دو۔ اس نے عرض کیـا کہ یـا رسول الله نہیں بلکہ ہم یہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں اور یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ بجز اس کے ان کے پاس کوئی ذریعہ معیشت نہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایـا اس اونٹ نے کام زیـادہ لینے کی اور خوراک کم دینے کی شکایت کی ہے، سواس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ( شرح السنہ)
آج کل اس معاملے مـیں بہت کوتاہی برتی جارہی ہے، جانوروں سے بے انتہا کام لیـا جانا معمول کی بات بن گئی ہے اور ان کی خوراک کا خیـال نہیں رکھا جاتا، ہل چلانے والے ،گدھا گاڑی چلانے والے وغیرہ حضرات ان تعلیمات کو غور سے پڑھیں اور اپنے عمل کا جائزہ لیں ۔ درمحتار مـیں بیل اور گدھے سے کام لینے مـیں یہ شرط لگائی ہے کہ ان سے بغیر مشقت اور مار کے کام لیـا جائے ۔ ردالمحتار مـیں ہے کہ ان جانوروں پر ان کی طاقت سے زیـادہ بوجھ نہ ر کھے اور ان کے سر اور منھ پر نہ مارے۔
جانوروں پر سواری کے حقوق
الله تعالیٰ نے بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر کیـا، انسان ان جانوروں سے مختلف فائدے اٹھاتا ہے ،ان مـیں سے ایک ان پر سواری کا فائدہ بھی ہے، شریعت نے اس کے بھی اصول مقرر کیے ہیں۔
وعن سھیل بن الحنظلیة رضی الله تعالی عنہ قال: مر رسول الله ببعیر قد لحق ظھرہ ببطنہ، فقال: اتقوا الله فی ھذہ البھائم المعجمة، فارکبوھا صالحة، واترکوھا صالحة․ (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت سُہیل بن حنظلیہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله کا ایک اونٹ پر گزر ہوا، جس کی کمر (بھوک کی وجہ سے ) پیٹ سے ملی ہوئی تھی، آپ علیہ السلام نے اس کی یہ حالت دیکھ کر فرمایـا: ان بے زبان جانوروں کے بارے مـیں الله سے ڈرو۔ لہٰذا مناسب طریقے پر ان پر سواری کرو اور ان کی بھوک پیـاس کا خیـال رکھو ) اور مناسب طریقے پر ان کو چھوڑ دو (یعنی تھکنے سے پہلے سواری ختم کر دو ۔(ابوداؤد)
او رایک روایت مـیں وارد ہے کہ جب تم چٹیل مـیدان خشک زمـین پر سفر کرو تو وہاں جلدی سفر کرو ( یعنی آرام سے سفر مـیں جانور کو تکلیف ہو گی، کیوں کہ خشک زمـین پر اس کے لیے چارہ نہیں ہو گا ) اور جب سبزہ زار زمـین پر سفر کرو تو جانور کو اس کا حق دو ( یعنی تھوڑا انہیں چارہ کھانے کے لیے چھوڑ دو)۔ (ابوداؤد) اور اسی روایت مـیں ہے کہ ” لا تتخدوا ظھور دوابکم المنابر․“
ترجمہ: تم اپنی سواری کی پشتوں کو منبر مت بناؤ۔ یعنی دوران سفری جگہ پڑاؤڈالا ہو یـای سے بات چیت کی غرض سے روکنا پڑے تو جانوروں کی پیٹھ سے اترنے کا حکم ہے، کیوں کہ اس طرح انہیں تکلیف ہو گی۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہمـی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک کہ ہم سواریوں سے کجاوے کو کھول نہ دیتے۔ ( ابوداؤد)
جانوروں کے ذبح وشکار کے حقوق
الله تعالیٰ قرآن مجید مـیں ارشاد فرماتے ہیں کہ:﴿واحل لکم الطیبات﴾کہ ہم نے تم پر پاک چیزوں کو حلال کیـا، الله رب العزت نے انسان پر بہت سے جانوروں کا گوشت حلال کیـا، انسان ضرورت کے تحت ان جانوروں کو ذبح کرکے کھا سکتا ہے، لیکن اس کے بھی الله رب العزت نے کچھ احکامات دیے ہیں اور ذبح کرتے وقت اسلام کا حکم ہے کہ جانور کو کم سے کم تکلیف دی جائے۔
وعن شداد بن اوس رضی الله تعالی عنہ عن رسول الله قال: ان الله تبارک وتعالی کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، ولیحد احدکم شفرتہ، ولیرح ذبیحتہ․ (رواہ مسلم)
حضرت شداد بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایـا الله تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کو ضروری فرمایـا ہے، سو جب تم (ی مجرم) کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کیـا کر واور جب تم (ی جانور کو) ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کیـا کرو اور اس اچھے طریقے مـیں یہ بھی شامل ہے کہ تم مـیں سے جو شخص بھی اس کام کو کرنے والا ہو وہ اپنے چاقو کو تیز کر لیـا کرے اور ذبیحہ کو راحت دے۔ اور جانور کوی دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے سے بھی شریعت نے منع کیـا اور جانور کے سامنے چھری تیز کرنے کو بھی ناپسند کیـا ہے، شریعت نےی جانور کو بلا ضرورت ذبح کرنا، یعنی اس کا گوشت کھانا جب مقصد نہ ہو یہ بھی مذموم قرار دیـا۔ حضرت عبدالله بن عمرو سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایـای چڑیـا کو یـااس سے بڑے جانور کو اس کے حق کے خلاف قتل کرے تو الله تعالیٰ اس کے قتل کے متعلق باز پرس فرمائیں گے۔ صحابہ نے عرض کیـا کہ یـا رسول الله! اور اس کا حق کیـا ہے؟ فرمایـا یہ کہ اس کو کھانے کے لیے ذبح کرے اور اس کا سر جدا کرکے پھینک نہ دے ۔( رواہ احمد)
مطلب یہ کہ بلاضرورت اور بے کاری جانور کو قتل نہ کرے، بلکہ جس جانور کا گوشت کھایـا جاتا ہو اور اس کا کھانا مقصود ہو تو باقاعدہ ذبح کرے۔ یہ جانوروں کے حقوق سے متعلق اجمالی نظر ہے، ورنہ اس موضوع پر اگر احکام کو جمع کیـا جائے تو ایک کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے۔