قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے،جس مـیں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ

(بنی اسرائیل:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیـادہ سیدھا ہے۔
لہذا جو شخص بھی اس کو اپنائے گا  اس کواللہ کی جانب سے صحیح راستہ دکھایـا جائے گا اور جو اس سے اعراض کرےگا تو اس کے لیے دنیـاوی زندگی بھی تنگ کردی جائیگی اور آخرت مـیں تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔

(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)

جو کوئی مـیری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل مـیں گرفتار ہوگااور جو مـیری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملےاور قیـامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
 الغرض رب کائنات کی جانب سے انسان کی رہبری کے لیے قرآن ایک مکمل دستوراور ضابطۂ حیـات ہے اور اس کتاب کے بغیر انسانیت نامکمل ہے۔
تفسیرقرآن کریم
جب یہ کتاب رہبری کے لیے نازل کی گئی تو اس کو آسان کرنا بھی ضروری ہے؛ جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔                 

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیـا ہے ،اب کیـا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
اِسی سورت مـیں یہ آیت چار جگہ پر آئی ہے؛ نیز اس کو آسان کرنے کی مختلف شکلیں حق تعالیٰ نے واضح فرمائی ہیں، حروف معجم وخواص آن مثلاً سورۂ قیـامہ مـیں فرمایـا:
" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔

(القیـامۃ:۱۷۔۱۹)

یقین رکھو کہ اس کو یـاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے،پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویـا اس کوپڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔
 تفسیر کا اولین حق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (فداہ ابی وامـی)  کے ذریعہ واضح کیـا؛ چنانچہ فرمایـا:
"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔

(النحل:۴۴)

اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیـا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
 آیت شریفہ مـیں "الذکر" سے مراد قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایـا کہ اس کی تبیین وتفسیر کی ذمہ داری آپ    پر ہے اور پھر اس کے بعد عوام پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر غور وفکر سے کام لیں؛ الغرض یہ ہے تفسیر وتاویل وتبیین۔


قرآن مجید کو ایسے وقت مـیں نازل کیـا گیـا، جب کہ معاشرہ کے اندر بہت سی خرابیـاں جنم لےچکی تھیں اور بڑی حد تک اس مـیں پختگی بھی آگئی تھی، جن کی اصلاح بہت  ضروری تھی، قرآن پاک جن اہم اصلاحی ہدایـات ومضامـین پر مشتمل ہے، انہیں ان الفاظ مـیں بیـان کیـا جاسکتا ہے:
(۱)تکمـیل شریعت
(۲)نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا
(۳)مذہبی اختلافات کا خاتمہ
(۴)کتب سابقہ کے برحق ہونے کی تصدیق  اور ان کی غلطیوں کی اصلاح
(۵)تکمـیل انسانیت
(۶)گمشدہ توحید کو دوبارہ قائم کرنا
(۷)اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کی تکمـیل:جس مـیں  انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہو (اسلامـی انسائیکلوپیڈیـا:۱۲۳۹) اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اگر جھگڑا ہوجائے یـاکوئی اور معاملہ درپیش ہوتو سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع کیـا کرو اور ایسا ہونا بھی چاہیے؛ کیونکہ وہ خدا کا نازل کردہ دستورِحیـات ہے، جس سےی حال مـیں صرفِ نظر نہیں کیـا جاسکتا ہے؛ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔

(النساء:۵۹)

ترجمہ:پس اگری امر مـیں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کردیـا کرو؛ اگرتم اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔          
یعنی اگرتم مـیں اور "اولوالامر" مـیں باہم اختلاف ہوجائے کہ حاکم کا یہ حکم اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یـامخالف، تواس کو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرکے طے کرلیـا کرو کہ وہ حکم فی الحقیقت اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یـامخالف اور جوبات محقق ہوجائے اسی کو بالاتفاق مسلم اور معمول بہ سمجھنا چاہیے اور اختلاف کو دورکردینا چاہیے؛ اگرتم کواللہ اور قیـامت کے دن پر ایمان ہے؛ کیونکہ جس کو اللہ اور قیـامت کے دن پر ایمان ہوگا وہ ضرور اختلاف کی صورت مـیں اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرےگا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بے حد ڈرےگا، جس سے معلوم ہوگیـا کہ جو اللہ اور رسول کے حکم سے بھاگے گا وہ مسلمان نہیں؛ اس لیے اگردومسلمان آپس مـیں جھگڑیں، ایک نے کہا:چلو شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا مـیں شرع کو نہیں سمجھتا یـامجھ کو شرع سے کام نہیں تو اس کو بیشک کافر کہیں گے۔                           

(فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہندؒ، النساء:۵۹)

مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب اللہ کی کتنی ضرورت ہے اور اس کی کتنی اہمـیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلےی بھی معاملہ مـیں کتاب اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی طرف؛ چنانچہ علامہ شہر ستانی (متوفی:۵۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حلال سے متعلق ہو یـاحرام سے اور اس مـیں اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک سے اس کی ابتداء کرنی چاہیے؛ بعد اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔      

(الملل والنحل:۱/۱۳۶)

حضرت عمرفاروقؓ نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس مـیں یہ مذکور ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگراس معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ مـیں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔
حضرت ابن مسعودؓ کا فرمان  ہے:"تم مـیں سےی کے سامنے کوئی مقدمہ درپیش ہوتووہ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کتاب اللہ مـیں نہ ملے تو وہ رسول اکرمکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی بات دریـافت کی جاتی تھی تو آپ اس کا جواب کتاب اللہ کے مطابق دیتے تھے، ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔           

  (حیـات امام ابن القیم:۲۵۸)

 ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موضوع ہے، ذیل مـیں ہم صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پاک ایک دستورِ حیـات ہے اور فقہی احکامات کی تعیین مـیں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔
مضامـین قرآن
قرآنِ پاک مـیں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ درجِ ذیل مضامـین کو بیـان کیـا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱)جزائے ایمان کے مباحث
(۲)عبادات کے مباحث
(۳)حسنات وسیئات کا بیـان
(۴)قصص وحکایـات کا بیـان
(۵)نجاتِ حقیقی اور اس کے حصول کے ذرائع کا بیـان
(۶)رسولِ کریم  کے سوانح اور آپ  کی نبوت کے دلائلِ کاملہ کا بیـان
(۷)خصائص قرآن کا بیـان
(۸)اسلام کی حقیقت اور اس کی صداقت پر دلائل قاطعہ کا بیـان
(۹)کفروشرک کے تفصیلی احوال
(۱۰)اور مظاہر قدرت کا بیـان۔            

       (اسلامـی انسائیکلوپیڈیـا:۱۲۳۹)

حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مضامـین قرآنی کی بہت ہی جامع تقسیم کی ہے، جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے:
(۱)علم الاحکام یعنی عبادات، معاملات اور معاشرتی وسیـاسی مسائل؛ نیزعلمـی زندگی کے متعلق احکام وہدایـات۔
(۲)علم المخاصمہ یعنی یہود ونصاریٰ، مشرکین ومنافقین اور مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیـات۔
(۳)علم التذکیر بایـات اللہ یعنی اللہ کی نعمتوں، قدرتوں اور اس کے نوازشات وانعامات، نیزجنت جیسی آرامگاہ مـیں قیـام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیـات۔
(۴)علم التذکیر بالموت، یعنی وہ آیـات جوموت اور مابعدالموت، حساب کتاب اور نیک اور بُرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔
(۵)علم التذکیر بایـام اللہ، یعنی وہ آیـات جو سابقہ امتوں کی معاشرتی ومعاملاتی حالات، انبیـاءؑ کی تعلیم سے اعراض وسرکشی پرعذاب خداوندی وغیرہ، یہ سب امت محمدیہ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔         

(الفوزالکبیر:۲)

حجیت قرآن
قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ مـیں قیـامت تک دین کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، جس کا ہمـیں اللہ نے مضبوطی سے تھامنےکا حکم دیـا؛ چنانچہ ارشادِ باری ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔        

(آل عمران:۱۰۳)

ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (تم سب) باہم متفق بھی رہو۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِہِ"۔

(مشکوٰۃ:۳۱)

ترجمہ:مـیں تمہارے درمـیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ایک کتاب اللہ دوسری سنتِ رسول۔
مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وشریعت کی اصل اساس ہے اور یہی تمام ادلہ مـیں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے، قرن اوّل سے ہی اس سے احکامِ شرعیہ کا استخراج ماخذ اوّل کی حیثیت سے کیـا جاتا ہے، آپ  نے حضرت معاذؓ کو جب یمن کی جانب قاضی بناکر بھیجا تھا تو اُس وقت آپ نے اُن سے پوچھا تھا، اے معاذؓ جب تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاذؓ نے جواباً عرض کیـا:کتاب اللہ سے؛ پھرآپ  نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن مـیں نہ مل سکا تو؟ آپؓ نے فرمایـا احادیث سے؛ پھرآپ نے پوچھا اگر اُس مـیں بھی نہ ملے تو؟ آپؓ نے عرض کیـا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مسئلہ کا حل نکال لونگا اورساتھ ہی فرمایـا"ولاالو" حق کی تلاش مـیں لاپرواہی اختیـار نہ کرونگا۔    

   (ابوداؤد:۲/۵۰۵)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ مـیں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے آپ  نے معاذؓ کے مزاجِ دین سے واقفیت اور شریعت سے مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایـا اور خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فرمایـا:
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يَرْضٰی رَسُولؑ اللَّهِ"۔

(ابوداؤد، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، حدیث نمبر:۳۱۱۹)

ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔
زمانۂ رسالت کے بعد بھی دورِخلافت اور عام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج مـیں کتاب اللہ کو مقدم رکھتے تھے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو، اس لیے پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسائل کے استخراج مـیں اولیت کتاب اللہ کو حاصل ہے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو ہے۔
شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ قطعی حجت ہے ،جس کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔

(تاریخ التشریع الاسلامـی:۱۹)

قرآن کی حجیت پر مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور دوحدیثیں پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ اس کے علاوہ بہت سی آیـات اور احادیث کتاب اللہ کی حجیت پر دال ہیں، جنھیں بغرضِ اختصار قلم انداز کیـا جاتا ہے؛ نیزاس پر تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کو قانون کا اولین ماخذ بنایـا، نبی کریم  اور صحابہ کرامؓ کے عہد مـیں قرآن حکیم سے مکمل طور پر استفادہ کیـا جاتا رہا، چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے، زانیوں کوکوڑے لگائے گئے، پینے والوں پرتعزیرنافذ ہوئی، بدکرداروں کو ملک بدر کیـا گیـا، نکاح وطلاق نیز وراثت کی تقسیم کے فیصلے قرآن حکیم کے احکام کے مطابق کئے گئے، ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ابتداء ہی سے، قرآن حکیم قانون کا اصلی اور بنیـادی ماخذ تھا؛ البتہ اتنی بات قابل تسلیم ہے کہ قرآن حکیم اصولوں کی کتاب ہے اور اس مـیں جملہ جزئیـات کا احاطہ نہیں کیـا گیـا اور قرآن حکیم کوقانونی ماخذ بنانے کے لیے جن کلیـات کی ضرورت تھی، وہ بعد مـیں مرتب ہوئے اور آج تک مرتب ہورہے ہیں، آج بھی اگر کوئی جدید مسئلہ درپیش ہو اور قرآنِ حکیم کیی آیت سے کوئی کلیہ بنایـا جاسکے تو وہ ہمارے لیے ویسے ہی قابلِ عمل ہوگا، جیسے امام شافعیؒ یـاامام ابوحنیفہؒ کا قائم کردہ کوئی کلیہ قابلِ عمل ہوتا ہو۔
اسی لیے مسلمانوں کے یہاں ایک عام اصول رہا کہ ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی جائیگی جوقرآن حکیم کے احکام یـااس کی روح کے خلاف پائی جائے۔                     

(اسلام اور مستشرقین:۲/۱۴)

قرآن کا فقہی اسلوب بیـان
قرآن مـیں جہاں اصلاح، عقیدہ، عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ،وہیں فقہی احکام سے متعلق بے شمار آیـات ہیں، کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیـا گیـا ہے:
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔  

  (البقرۃ:۴۳)

ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکوٰۃ کو۔
یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیـان کیـا گیـا؛ مگرشرعاً یہ دونوں احکام فرض کے قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لفظ (کتب) سے فرضیت ثابت کی جاتی ہے جیسے:
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"۔

(البقرۃ:۱۷۸)         

تم پر (قانون) قصاص فرض کیـا جاتا ہے۔ "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ"۔    

(البقرۃ:۱۸۳)       

تم پر روزہ فرض کیـا گیـا ہے۔
اورکبھی مضارع کے لفظ سے وجوب کا حکم ثابت ہوتا ہے، جیسے:
"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ"۔

(البقرۃ:۲۲۸)

ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔   

اس آیت مـیں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گذارنے کا حکم دیـا گیـا ہے، جوواجب ہے اور کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہونے کی وعید سناکر حکم دیـا جاتا ہے، جیسے:
"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ"۔

(النساء:۹۳)

ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔ 
کبھی توصراحتاً ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیـا جاتا ہے، جیسے:
"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"۔    

    (الانعام:۱۵۱)

ترجمہ:اورجس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایـا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگرحق پر ہو۔                         
کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں سے بھی احکام بیـان کئے گئے ہیں جس سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض احکام مـیں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض مـیں واجب کا، بعض مـیں سنن ومستحبات کا، بعض مـیں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کیـا گیـا اس مـیں بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یـامحض خلافِ اولیٰ کا۔

(سہ ماہی مجلّہ، الصفا، سبیل السلام حیدرآباد)

کتاب اللہ سے اخذ معانی کے طریقے
قرآن مجید سے احکام درجِ ذیل چار طریقوں سے مستنبط ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں (۱)عبارۃ النص
(۲)اشارۃ النص
(۳)دلالۃ النص
(۴)اقتضاء النص۔
عبارۃ النص
عبارۃ النص سے استدلال کرتے وقت احکام صرف صیغہ لفظ سے ہی معلوم ہوجاتے ہیں؛ کیونکہ اس حکم کے واسطے ہی نص کو نازل کیـا گیـا تھا؛ نیزاس کا مفہوم غور وفکر کے بغیر اوّلِ وہلہ ہی مـیں سمجھ مـیں آجاتا ہے، مثلاً قرآن نے کہا "وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" (البقرۃ:۲۷۵) اس نص سے خریدوفروخت کی حلت اور سود کی حرمتی غور وفکر کے بغیر سمجھ مـیں آجاتی ہے اور اس نص کا مقصود بھی یہی ہے؛ اسی کو عبارۃ النص کہتے ہیں۔
دلالۃ النص
جو حکم نص کے الفاظ سے ثابت تو نہ ہو لیکن نص کو سنتے ہی ذہن اس حکم کی طرف منتقل ہوجاتا ہو ،وہ دلالۃ النص ہے ،جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے "فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" (الاسراء:۲۳) اس آیت کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کیی بات پراف کہنا حرام ہے؛ لیکن دلالۃ النص کے طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اف کہنا حرام ہے تو سب وشتم کرنا یـاجسمانی اذیت دینا بدرجہ اولی حرام ہوگا؛ کیونکہ یہ تکلیف "اف" کہنے سے بھی بڑھ کر ہے۔
اشارۃ النص
نص جس بات کو بتانے کے  لیے وارد نہ ہوئی ہو؛ لیکن نص کے اصل الفاظ ہی سے جو بات سمجھ مـیں آجائے وہ اشارۃ النص ہے، مثلاً ارشادِ خداوندی ہے "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (البقرۃ:۲۳۳) اس آیت کا ظاہری مفہوم (عبارۃ) تو یہ ہے کہ ماں کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے؛ لیکن اس مـیں لفظ ہے "الْمَوْلُوْدِ" اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد باپ ہی کی طرف منسوب ہوگی، ماں کی طرف نہیں؛ کیونکہ اس لفظ کے ذریعہ "ولد" کی نسبت باپ کی طرف کی گئی ہے یہی اشارۃ النص ہے۔
اقتضاء النص
نص اور شارع کے کلام کے صحیح ہونے کے لیے بعض اوقاتی لفظ کو محذوف ماننا ضروری ہوجاتاہے، اس کو"مقتضی" کہتے ہیں اور اس سے ثابت ہونے والے حکم کو "اقتضاء النص" کہتے ہیں مثلاً  آیت قرآنی ہے "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ" (المائدۃ:۳) اس مـیں حرمت کی نسبت مـیتہ اور دم کی طرف کی گئی ہے؛ حالانکہ یہ درست نہیں؛ کیونکہ حرمت کا تعلق منھی عنہ (جس چیز سے منع کیـا گیـا ہے) اس کی ذات سے نہیں ہوتا؛ بلکہ مکلّف کے فعل سے ہوتا ہے؛ بعد آیت کا مفہوم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ مکلّف سے متعلق کوئی فعل محذوف نہ مانا جائے اور ظاہر ہے کہ وہ فعل "اکل" ہی ہوسکتا ہے؛ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مردار کا کھانا اور خون کا پینا حرام ہے اور یہاں پر یہی شارع کی مراد ہے۔          
(مجلّہ فقہ اسلامـی:۱۳۵)
قرآن کا تدریجی اندازِ بیـان
جب آپ  مبعوث ہوئے تو اس وقت عربوں مـیں بعض اچھے عادات تھے، جوبقاء کے  لحاظ سے صالح تھے اور ان سے امت کے تکوین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اُن مـیں بعض عادات ایسے بھی تھے جنھوں نے اُن کے اندر اچھی خاصی جگہ بنالی تھی اور ان کے دل مـیں گھر کرگئی تھیں، انسان حددرجہ وحشیـانہ زندگی کا عادی بن چکا تھا اور اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ ایک دم پاکیزہ زندگی کواختیـار کرے؛ اس لیے قرآن پاک نے آہستہ آہستہ انسان کی تہذیبی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکامات دیئے، خرابی کو ختم کیـا گیـا اور یہی فطرت کے مناسب بھی ہے؛ کیونکہ اگر ان خرابیوں کوایک دم روک دیـا جاتا توطبیعت پر بڑی گرانی ہوتی اور ان سے رُکنا مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک مـیں پہلے خرابی کے نقصانات اور منافع کو شمار کرایـا جاتا ہے؛ پھرمفاسد کے پیشِ نظر اس حکم سے منع کیـا جاتا ہے،مثلاً کی حرمت بیـان کرنا مقصود تھا تو قرآن مـیں سب سے پہلے اس کے گناہ کے کام مـیں سے ہونے کی صراحت کی گئی اور ساتھ ہی اس کے منافع کا بھی اعتراف کیـا گیـا؛ لیکن بعد مـیں یہ صاف صاف کہہ دیـا گیـا کہ اس مـیں نفع سے زیـادہ نقصان کا پہلو ہے ،جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا"۔          

(البقرۃ:۲۱۹)

ترجمہ: حروف معجم وخواص آن ان دونوں (خمرومـیسر) کے استعمال مـیں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کے بعض فائدے بھی ہیں اور وہ گناہ کی باتیں ان کے فائدوں سے زیـادہ بڑھی ہوئی ہیں۔
دیکھئے یہاں پر بیک وقت اُن دونوں سے رُکنے کا حکم نہیں دیـا گیـا؛ مگراس انداز سے لوگوں کو ان کا گناہ کے قبیل سے ہونا سمجھ مـیں آنے لگا اور کچھ نہ کچھ اس کی طرف سے نفرت ہونے لگی تو پھرلوگوں سے کہا گیـا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى"۔   

    (النساء:۴۳)

ترجمہ:اے ایمان والو! تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت مـیں مت جاؤ کہ تم نشہ مـیں ہو۔
اس نہی مـیں پہلے حکم کو باطل کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کو مزید مؤکد کرنا ہے پھرجب ان لوگوں کے اندر کی طرف سے اچھی طرح بے اطمـینانی ہوچکی توصریح طور پر روک دیـا گیـا کہ نوشی شیطان کے گندے کام مـیں سے ہے؛ لہٰذاتم اس سے باز آجاؤ؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔         

   (المائدۃ:۹۰)

ترجمہ:اے ایمان والو (بات یہی ہے کہ) اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر (یہ سب) گندے شیطانی کام ہیں سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔  
جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں کے سامنے کی حرمت واضح طور پر آگئی اور لوگ اس سے اجتناب کرنے لگے۔

(تاریخ التشریع الاسلامـی:۱۸،۱۹)

قرآن اصول وکلیـات کا مجموعہ
قرآن پاک مـیں ہرحکم کی تفصیل موجود نہیں ہے، عام طور پر کلیـات کے بیـان پر اکتفاء کیـا گیـا ہے اور خدائی کلام کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیونکہ ہرحکم کی تفصیلات پیش کرنے سے کتاب نہایت طویل ہوجاتی اور اس سے استفادہ کرنا مشکل ہوجاتا، آپ بھی نمونہ کے طور پر قرآن کے ان آیـات کا ملاحظہ کیجئے جن مـیں اس طرح کے اصول بیـان کئے گئے ہیں، مثلاً:
"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"۔                

       (الانعام:۱۶۴)

ترجمہ:کوئی شخصی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"۔           

(النجم:۳۹)

ترجمہ:انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"۔          

         (المائدۃ:۱)

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ "وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔                                   

(البقرۃ:۱۸۸)

ترجمہ:اور آپس مـیں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ لوگوں کے مال مـیں سے کوئی حصہ ناحق درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّاأَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ"۔            

(النساء:۲۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق مگر یہ کہ آپس کی مرضی سے تجارت کرو۔ "إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"۔           

  (النساء:۵۸)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمـیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ "وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا"۔                

      (الاسراء:۳۴)

ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگربہتر طور پر جب تک کہ وہ جوانی کو پہنچے اور عہدکوپورا کرو، بیشک عہد کے متعلق بازپرس ہوگی۔ "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ"۔            

(البقرۃ:۲۲۹)

ترجمہ:طلاق رجعی ہے دوبار تک اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یـابھلی طرح سے چھوڑ دینا۔ "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ..... حروف معجم وخواص آن لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ"۔          

    (البقرۃ:۲۳۳)

ترجمہ:اور باپ کے ذمہ ان عورتوں کا حسب دستور کھانا کپڑا ہے، نقصان نہ دیـا جائے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔ "وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا"۔       

  (الشوریٰ:۴۰)     

ترجمہ:برائی کا بدلہ برائی ہے برابر برابر۔ "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔    

   (الطلاق:۲)       

ترجمہ:تم اپنے مـیں سےمعتبر لوگوں کو شاہد بناؤ۔ "وَلَاتَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ"۔      

        (البقرۃ:۲۸۳)

ترجمہ:شہادت کو مت چھپاؤ، جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے۔ "وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ"۔              

      (البقرۃ:۲۸۰)

ترجمہ:اگرمقروض تنگ دست ہے تو اس کو آسانی حاصل ہونے تک مہلت دو۔ "يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔           

        (البقرۃ:۱۸۵)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، مشکل مـیں ڈالنا نہیں چاہتا۔ "وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔          

              (الحج:۷۸)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ دین کے بارے مـیں تم پر تنگی نہیں کی ہے۔ "فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"۔         

      (البقرۃ:۱۷۳)

ترجمہ:پھرجو کوئی بھوک سے بے اختیـار ہوجائے نہ فرمانی کرے، نہ زیـادتی تواس پر کوئی گناہ نہیں۔
الغرض کتاب اللہ تمام اسلامـی قوانین کی اصل بنیـاد واساس ہے اور ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ قطعی ہے کہ دنیـا کی کوئی کتاب اس کے ہمسر نہیں، اس کتاب مـیں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیـا گیـا، چاہے وہ ایمانیـات کے قبیل سے ہوں یـاعبادات کے شخصی احکام ہوں یـامالی معاملات، اجتماعی قوانین ہوں یـاتعریزی قوانین، ملکی مسائل ہوں یـابین الا قوامـی مسائل، امن کے حالات ہوں یـاجنگ کے حالات، یہ کتاب ہرحال مـیں انسانیت کی رہبری کا فریضہانجام دیتی ہے۔
"وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔            

     (النحل:۸۹)

ترجمہ:اور مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔
یہی وہ کتاب ہے جس سے دنیـا کو افراط وتفریط سے پاک زندگی کا نقشہ مـیسر آسکتاہے۔
"إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔            

      (آل عمران:۱۹)

ترجمہ:بلاشبہ دین حق اور مقبول اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ علمِ تفسیرِ قرآن، اقسامِ تفسیر، اصولِ تفسیر اور مفسرین
قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے،جس مـیں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ

(بنی اسرائیل:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیـادہ سیدھا ہے۔
لہذا جو شخص بھی اس کو اپنائے گا  اس کواللہ کی جانب سے صحیح راستہ دکھایـا جائے گا اور جو اس سے اعراض کرےگا تو اس کے لیے دنیـاوی زندگی بھی تنگ کردی جائیگی اور آخرت مـیں تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔

(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)

جو کوئی مـیری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل مـیں گرفتار ہوگااور جو مـیری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملےاور قیـامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
 الغرض رب کائنات کی جانب سے انسان کی رہبری کے لیے قرآن ایک مکمل دستوراور ضابطۂ حیـات ہے اور اس کتاب کے بغیر انسانیت نامکمل ہے۔
تفسیرقرآن کریم
جب یہ کتاب رہبری کے لیے نازل کی گئی تو اس کو آسان کرنا بھی ضروری ہے؛ جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔                 

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیـا ہے ،اب کیـا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
اِسی سورت مـیں یہ آیت چار جگہ پر آئی ہے؛ نیز اس کو آسان کرنے کی مختلف شکلیں حق تعالیٰ نے واضح فرمائی ہیں، مثلاً سورۂ قیـامہ مـیں فرمایـا:
" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔

(القیـامۃ:۱۷۔۱۹)

یقین رکھو کہ اس کو یـاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے،پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویـا اس کوپڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔
 تفسیر کا اولین حق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (فداہ ابی وامـی)  کے ذریعہ واضح کیـا؛ چنانچہ فرمایـا:
"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔

(النحل:۴۴)

اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیـا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
 آیت شریفہ مـیں "الذکر" سے مراد قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایـا کہ اس کی تبیین وتفسیر کی ذمہ داری آپ    پر ہے اور پھر اس کے بعد عوام پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر غور وفکر سے کام لیں؛ الغرض یہ ہے تفسیر وتاویل وتبیین۔
تفسیر کی تعریف
یہ لفظ "فسر" سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں؛ چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی ومفاہیم کھول کر بیـان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیـا جاتا ہے، قرآن  مجید مـیں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیـان تبیـان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں؛ لیکن بعض اہل علم کے مابین ان الفاظ مـیں کچھ جزوی فرق بھی ہے، جس کی تفصیل ایک مستقل مضمون کے ذیل مـیں آئےگی۔
تفسیر کی اصطلاحی تعریفیں بھی بیـان کی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔                            

(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)

وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے اورعلامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف مـیں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔   

(روح المعانی:۴/۱)

وہ علم ہے کہ جس مـیں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت مـیں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت مـیں بیـان کیـا جائے۔

اس تعریف کی روشنی مـیں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :
(۱)"الفا ظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو طرح پڑھا جاسکتا ہے ؟اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں مـیں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأ تیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔
(۲) "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی،اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں مـیں علماء لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
(۳)"الفاظ کے انفرادی احکام"یعنی ہر لفظ کے بارے مـیں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیـا ہے، یہ موجودہ صورت مـیں طرح آیـا ہے، اس کا وزن کیـا ہے ،اور اس وزن کے معانی وخواص کیـا ہیں ؟ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۴)"الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے مـیں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیـا معنی دے رہا ہے ؟ اس کی نحوی ترکیب(Grammatical Analysis)کیـا ہیں ؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کررہی ہیں ؟اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے ۔
(۵)"ترکیبی حالت مـیں الفاظ کے مجموعی معنی"یعنی پوری آیت اپنے سیـاق وسباق مـیں کیـا معنی دے رہی ہے ؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامـین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے ،مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیـا جاتا ہے ،بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔
(۶)"معانی کے تکملے"یعنی آیـات قرآنی کا بعد منظر اور جوبات قرآن کریم مـیں مجمل ہے اس کی تفصیل ،اس غرض کے لیے زیـادہ تر علمِ حدیث سے کام لیـا جاتا ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی یہ مـیدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیـا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی مـیں حقائق واسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ  ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :
وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

(الذاریـات:۲۱)

اور تم اپنی جانوں مـیں غور کرو کیـا تم نہیں دیکھتے۔
غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح  وتفصیل مـیں پورا علم الابدان(Physiology)اور پورا علمِ نفسیـات(Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالی نے اس آیت مـیں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایـا ہے وہ سب پورے ہوگئے ہیں ؛چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز مـیں عقل وتدبر، تجربات ومشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامـین شامل ہیں ۔

(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)




تفسیر کی تعریف
یہ لفظ "فسر" سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں؛ چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی ومفاہیم کھول کر بیـان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیـا جاتا ہے، قرآن  مجید مـیں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیـان تبیـان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں؛ لیکن بعض اہل علم کے مابین ان الفاظ مـیں کچھ جزوی فرق بھی ہے، جس کی تفصیل ایک مستقل مضمون کے ذیل مـیں آئےگی۔
تفسیر کی اصطلاحی تعریفیں بھی بیـان کی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:
"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔                            

(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)

وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے اورعلامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف مـیں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔   

(روح المعانی:۴/۱)

وہ علم ہے کہ جس مـیں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت مـیں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت مـیں بیـان کیـا جائے۔

اس تعریف کی روشنی مـیں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :
(۱)"الفا ظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو طرح پڑھا جاسکتا ہے ؟اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں مـیں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأ تیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔
(۲) "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی،اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں مـیں علماء لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
(۳)"الفاظ کے انفرادی احکام"یعنی ہر لفظ کے بارے مـیں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیـا ہے، یہ موجودہ صورت مـیں طرح آیـا ہے، اس کا وزن کیـا ہے ،اور اس وزن کے معانی وخواص کیـا ہیں ؟ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۴)"الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے مـیں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیـا معنی دے رہا ہے ؟ اس کی نحوی ترکیب(Grammatical Analysis)کیـا ہیں ؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کررہی ہیں ؟اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے ۔
(۵)"ترکیبی حالت مـیں الفاظ کے مجموعی معنی"یعنی پوری آیت اپنے سیـاق وسباق مـیں کیـا معنی دے رہی ہے ؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامـین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے ،مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیـا جاتا ہے ،بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔
(۶)"معانی کے تکملے"یعنی آیـات قرآنی کا بعد منظر اور جوبات قرآن کریم مـیں مجمل ہے اس کی تفصیل ،اس غرض کے لیے زیـادہ تر علمِ حدیث سے کام لیـا جاتا ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی یہ مـیدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیـا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی مـیں حقائق واسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ  ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :
وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

(الذاریـات:۲۱)

اور تم اپنی جانوں مـیں غور کرو کیـا تم نہیں دیکھتے۔
غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح  وتفصیل مـیں پورا علم الابدان(Physiology)اور پورا علمِ نفسیـات(Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالی نے اس آیت مـیں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایـا ہے وہ سب پورے ہوگئے ہیں ؛چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز مـیں عقل وتدبر، تجربات ومشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامـین شامل ہیں ۔

(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)



تفسیر کے اصول
چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے ،بے اصولی توی بھی شعبہ مـیں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس مـیں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیـا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیـاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایـا:
"ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ"۔

(آل عمران:۷)

اے رسول !وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہےجس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل  بنیـاد ہےاورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
 گویـا اس آیت کی رو سے آیـات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔
(۱)آیـات محکمات (۲)آیـات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:
(۱)جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعات
(۲) لفظ تو سمجھ مـیں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔
 پھرآیـاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیـا ہے:
(۱)وہ آیتیں جن کے سمجھنے مـیںی قسم کی دشواری نہ ہو جو بالکل واضح ہوں یعنی جس زبان مـیں بھی ان کا ترجمہ کیـا جائے سمجھنے والے کو مشکل معلوم نہ ہوں اور بظاہر مفسرین کے پاس کوئی اختلاف رائے نہ ہو، جیسے پچھلی قوموں سے متعلق واقعات اور جنت وجہنم سے متعلق آیـات۔
(۲)دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے سمجھنے مـیں کوئی ابہام یـااجمال یـا اور کوئی دشواری پائی جائے یـا اُن آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کے منظر وپس منظر کو سمجھنا ضروری ہو جیسے وہ آیتیں جن سے دقیق مسائل اور احکام نکلتے ہوں یـااسرار ومعارف اُن سے نکلتے ہوں، ایسی آیـات کو سمجھنے کے لیے انسان کو صرف زبان اور اس کی باریکیوں کو جاننا کافی نہیں ہوتا؛ بلکہ اور بھی بہت سی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے، انہیں معلومات مـیں سے ایک "ماخذِ" تفسیر کہلاتا ہے۔
تفسیری مآخذ
یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہوسکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:
(۱)تفسیر القرآن بالقرآن۔(قرآن کریم کیی آیت یـا لفظ کی تشریح قرآن ہی کیی دوسری آیت یـا لفظ سے کی جائے)
(۲)تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(قرآن مجید کےی آیت کی وضاحت آنحضرت  کےی قول یـا فعل سے کی جائے)
(۳)تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔(قرآن پاک کےی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام مـیں سےی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۴)تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔(قرآن مجید کےی آیت کی وضاحت حضرات تابعین مـیں سےی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۵)تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔(قرآن مجید کےی آیت یـای لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۶)تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔(قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامـیہ کی روشنی مـیں،حالات وواقعات،مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیـان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے)
ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل مـیں ذکر کی جاتی ہے:
تفسیرالقرآن بالقرآن
اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
پہلی مثال
سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں:
"اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ"۔

(الفاتحۃ:۶،۷)

ہمـیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما،ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیـا ہے۔
جن پر انعام کیـا گیـا ہے اس  کی تفسیر"سورۃالنساء" کی درجِ ذیل آیت  مـیں کی گئی ہے:
"وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا"۔                          

(النساء:۹۶)

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گےتو وہ ان کے ساتھ ہوں گےجن پر اللہ نے انعام فرمایـا ہے،یعنی انبیـاء،صدیقین،شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
دوسری مثال
"فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ"۔       

(البقرۃ:۳۷)

پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے(توبہ کے)کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انہوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی،بے شک وہ بہت معاف کرنے والا،بڑا مہربان ہے۔
 اس آیت مـیں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیـا تھے؟ دوسری آیت مـیں  اس کی تفسیرموجود ہے:
"قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا،وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ"۔

(الاعراف:۲۳)

دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگرآپ نے ہمـیں معاف نہ فرمایـااور ہم پر رحم نہ کیـا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں مـیں شامل ہوجائیں گے۔
تیسری مثال 
"سورۃ الانعام" کی آیت نازل ہوئی:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ"۔

(الانعام:۸۲)

جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیـا،امن وچین تو بس ان ہی کا حق ہےاور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
توصحابہ کرام نے عرض کیـا کہ ہم مـیں سےایسا ہے کہ جس سے(ی نہی طرح کا)  ظلم  صادر نہ ہوا ہو،تو اللہ نے  ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیےیہ آیت نازل فرمائی:
" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"۔

(لقمان:۱۳)         

کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
یعنی آیت بالا مـیں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیـا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔

(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:۳۱)

تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتاب مدینہ منورہ کے ایک عالم شیخ محمد امـین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو "اضواء البیـان فی ایضاح القرآن بالقرآن" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
تفسیرالقرآن بالحدیث والسیرۃ
 قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی مـیں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث  والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیـات مـیں یہ واضح کیـا گیـا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیـا مـیں بھیجےجانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال  اور عملی زندگی سے آیـات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔         

(النحل:۴۴)

تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کےلیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل مـیں نازل فرمایـا ،اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ کے پوری عملی زندگی کو درون حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایـا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل مـیں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکےدکھلایـا  اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیـا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیـات مـیں سےایک نمایـا خصوصیت ہے ،خواہ وہ حکم ایمان ،توحید، نماز، روزہ ،زکوۃ ،حج، صدقہ وخیرات ،جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر وشکر سے تعلق رکھتا ہو یـا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے ،ان سب مـیں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت  ہی کی ذات اقدس مـیں ملے گی، اس مـیں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیـات کی تفسیر وتوضیح  ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب  نے واضح فرمادیـا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے،یعنی قرآن حکیم کی وہ آیـات جن مـیں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیـات سے ہے،خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یـا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس مـیں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبدیت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی کہ جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے،دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل مـیں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیـا جارہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان"سیرت طیبہ" مـیں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر مـیں بکثرت ملیںان مـیں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
پہلی مثال
 سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:
"وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیـاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہوجائے۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایـا :
" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار"۔

 (بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)

کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔
دوسری مثال
 سورہ نور کی آیت:
"اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ،وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ"۔    

(النور:۲)

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ مـیں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئےاور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔
 ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامـیں سو کوڑے مارنے  کاذکر ہے، اس مـیں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیـا گیـا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائےجیسا کے بخاری شریف مـیں ہے:
"عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ"۔

(بخاری،بَاب شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي،حدیث نمبر:۲۴۵۵، شاملہ، موقع الإسلام)

زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیـا۔
 اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیـا جائے گا:
"الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ"۔                   

(ابن ماجہ، باب الجرم، حدیث نمبر:۲۵۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)

 شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو ،راوی کہتے ہیں کہ خود حضور  نے اپنی زندگی مـیں ایسی سزادی ہے اور بعد مـیں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔
تیسری مثال
قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال مـیں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے:
"غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ"۔                       

(الفاتحۃ:۷)

نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہےاور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
قرآن پاک مـیں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیـا گیـا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـا:
"إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ"۔

(مسند احمد بن حنبل،بقیۃ حدیث بن حاتم،حدیث نمبر:۹۴۰۰، شاملہ، موقع الإسلام)

جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث مـیں بکثرت موجود ہیں اور اس  نقطۂ نظر سے بھی  کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں ،اُن مـیں سے چند تفاسیر یہ ہیں ۔
۱۔قاضی بیضاوی رحمہ اللہ کی انوار التنزیل والتاویل۔
۲۔علامہ خازن کی لباب التاویل فی معانی التنزیل۔
۳۔ علامہ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر۔
۴۔اردو زبان مـیں تفسیر حقانی(فتح المنان)مولانا عبدالحق حقانی دہلوی کی ہے۔
(۳)تیسرا ماخذ،تفسیرالقرآن باقوال الصحابۃرضی اللہ عنہم
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم وتربیت حاصل کی ،ان مـیں سے بعض وہ ہیں  جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں ،اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرف زبان دانی پر بھروسہ نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمـی فرماتے ہیں:
"حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔

(الاتقان فی علوم لقرآن،الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ،المؤلف:عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي)

 صحابہ رضی اللہ عنہم مـیں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیـا کرتے تھے،مثلاً حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ انہوں نے ہمـیں یہ بتایـا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس  آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمـی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔
یہ ہے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتےشاید اسی وجہ سے مسند احمد مـیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ اثرمنقول ہے:
"كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔

(مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۷۶۹)

یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں مـیں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت مـیں ہے:
"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔

(مؤطا مالک، کِتَابُالنِّداءِ لِلصّلاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقُرْآنِ ،حدیث نمبر:۴۲۸، شاملہ، موقع الإسلام)

حضرت عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ یـاد کرنے مـیں آٹھ سال لگے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیـا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یـاد کرنے مـیں آٹھ سال لگے،جبکہ موجودہ دور مـیں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم مـیں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے،دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اسکی تفسیر وتاویل اور اسکے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے مـیں لگی،اسکی تائید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے ہوتی ہے جسکو ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیـا ہے:
"والذي لا إله غيره، ما نزلت آية من  ، كتاب الله إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم  أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایـا لاتیتہ"۔        

  (ابن کثیر:۱/۳)

 قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جسکے بارے مـیں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ بارے مـیں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیـادہ رکھتا ہے اور سواریـاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو مـیں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ مـیں پیش کئے گئے ،یوں تو بہت سی آیـات کی تفسیر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ثابت ہیں ان مـیں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔
پہلی مثال:
ایک دفعہ حضرت بن عمرؓ کی خدمت مـیں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریـافت کی:
"أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا"۔

(الانبیـاء:۳۰)

کیـا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمـین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیـا۔
حضرت بن عمرؓ نے اس سے فرمایـا کہ تم ابن عباس ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا،وہ شخص ابن عباسؓ کے پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ  نے فرمایـا کہ:
آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمـین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا،بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویـا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمـین کا پھل پودے اگانے سے ۔
اس شخص نے حضرت ابن عمرؓ کو جب یہ تفسیر بتائی تو انہوں نے فرمایـا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔

(روح المعانی،۱۲/۳۶۹ش،املہ)

دوسری مثال
" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ،وَاَحْسِنُوْا،اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ"۔

(البقرۃ:۱۹۵)

 اور خرچ کرو اللہ کی راہ مـیں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت مـیں اور نیکی کرو،بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔
 اس آیت کی تشریح مـیں مفسرین نے حضرت  ابوایوب انصاریؓ کاارشاد نقل کیـا ہے کہ:
"التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد"۔

(تفسیر بن کثیر،تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)

"التھلکۃ "سے مراد گھر اور مال کی مصروفیـات مـیں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے ۔
عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر مـیں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیـا ہے۔
تیسری مثال
علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریـافت کیـا :
"أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ"۔

(البقرۃ:۲۶۶)

 کیـا تم مـیں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ مـیں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے مـیں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد مـیں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔
کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے،حضرت ابن عباسؓ نے عرض کیـا کہ مـیرے دل مـیں ایک بات آرہی ہے ،حضرت عمر نے فرمایـا کہ آپ بلا جھجک برملا بیـان کیجیے،ابن عباس ؓنے فرمایـا:
"اللہ تعالی نے اس آیت مـیں ایک مثال بیـان کی ہے فرمایـا :کیـا تم مـیں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہےاور جب اس کا آخری وقت آئےجب کے نیکیوں کی اسے زیـادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کردے"۔

(تفسیر طبری،۵/۵۴۵،شاملہ)

ایک اہم بات اس بارے مـیں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال مـیں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیـاد پر کوئی فیصلہ کئے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے انکی جانچ ضروری ہے۔
۲۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت ،دلیل سمجھے جائیں گےجبکہ آپ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طورپر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ  سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کئے جائنگے اور اگر آپ  کے معارض کوئی قول صحابی رضی اللہ عنہ ہوتو اس کو قبول نہ کیـا جائےگا۔
۳۔تیسرے یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر مـیں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہوسکے انکے اقوال مـیں مطابقت پیداکی جائیگی اگر مطابقت نہ ہوسکے  تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیـار ہوگا کہ دلائل کی روشنی مـیں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اسکو اختیـار کرلے۔          

  (تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ تفسیر ابن کثیر۱/۳)۔                      (واللہ تعالی اعلم)

اس موضوع پر مستقل کتاب،تنویرالمقیـاس فی تفسیر ابن عباس"ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر مـیں صحابہ کی تفسیری روایـات مذکور ہیں۔
(۴)چوتھا ماخذ:تفسیر القرآن باقوال التابعین
واضح ہونا چاہئے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنہوں نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ  کی صحبت اٹھائی ہواور انکی صحبت سے علمـی استفادہ کیـا ہو، اہل علم مـیں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے مـیں اقوال تابعین حجت ہیں یـا نہیں،اس معاملہ مـیں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعیی صحابی رضی اللہ عنہ سے تفسیر نقل کررہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیـان کریں تو دیکھا جائےگا کہ دوسرےی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف مـیں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیـا جائےگا؛ بلکہ ایسی آیـات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ رضی اللہ عنہم اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیـا جائےگا،ہاں اگر تابعین کے درمـیان کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیـا جائے گا۔

(بحوالہ تفسیر ابن کثیر،ا-۵،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)

جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جاسکتی ہے تو اس کے کچھ نمونےبھی ذیل مـیں پیش کیے جاتے ہیں :
پہلی مثال
 ارشاد باری تعالی ہے:
"وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ"۔

(التوبہ:۱۰۰)

اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیـار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان مـیں وہ ہمـیشہ یہی ہے بڑی کامـیابی۔
اس آیت شریفہ مـیں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیـان کئے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا،دوسرے انکے بعد والوں کا ،اب سابقین اولینہیں ،اس مـیں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کئے جاتے ہیں،کبار تابعین حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ،ابن سیرین رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمـیں شریک ہونے والےصحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایـا کہ وہ جو کہ حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان مـیں شامل رہے۔                    

(تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر۱۰۰)

 اس آیت مـیں تابعین رحمہ اللہ کے مختلف اقوال سامنے آئے ،مفسرین نےی قول کو رد نہیں کیـااور ان کے درمـیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔
 دوسری مثال
ارشاد باری تعالی ہے:
" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ"۔               

(التوبہ:۱۱۲)

توبہ کرنے والے،اللہ کی بندگی کرنے والے،اس کی حمد کرنے والے ،روزے رکھنے والے،رکوع مـیں جھکنے والے،سجدہ گزارنے والے،نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دےدو۔
 آیت مـیں ایک لفظ "أَلسَّائِحُوْنَ" آیـا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں"صَائِمُوْنَ"یعنی روزہ دار مراد ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایـا کہ قرآن مـیں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیـا ہے وہاں صائمـین مراد ہیں،حضرت عکرمہؒ جو کبارِ تابعین مـیں سے ہیں انہوں نے کہا سیـاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب مـیں ملکوں مـیں پھرتے ہیں۔

(تفسیر روح المعانی،تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر:۱۱۲)

اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیـا ہے اگرچیکہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ اس تفسیر مـیں منفرد ہیں۔
تیسری مثال
ارشاد باری تعالی ہے: "اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ

(التوبہ:۶۰)

صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں..الخ۔
اس آیت کی تفسیر مـیں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمـیان فرق کو واضح کیـا ہے،غنی سے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایـا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔

(تفسیر روح المعانی،سورۂ توبہ:آیت نمبر:۶۰)

عام مفسرین نے امام ابو حنیفہؒ کے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر مـیں بلای نکیر کے ذکر فرمایـا ہے۔
 اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری رحمہ اللہ کی تفسیر"غرائب القرآن ا وررغائب الفرقان" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفیؒ کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کی روح المعانی بھی ایک وقیع تفسیر ہے۔
نیز اردو تفاسیر مـیں  مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیرمعارف القرآن بھی اہم تفاسیر مـیں سے ایک ہے۔
(۵)پانچواں ماخذ: تفسیر القرآن بلغۃ العرب
 لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے مـیں اگرچیکہ اہل علم کے یہاں اختلاف  ہے، جیسے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیـا ہے(حوالہ البرھان ۲/۱۶۰ نوع ۴۱)  کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہوسکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیـاد بناکر ان مـیں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر مـیں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اسکو مکروہ بھی کہا گیـا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین مـیں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤہو) کے مطابق کی جائیگی۔
پہلی مثال
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے صحابہ کرامؓ سے درج ذیل آیت کے معنی دریـافت کیے:
"أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ"۔                  

(النحل:۴۷)

یـا انہیں اس طرح گرفت مـیں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔
یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان مـیں"تخوف"کمـی اور نقصان کو کہتے ہیں،حضرت عمرؓ نے پوچھا عربی اشعار مـیں یہ لفظ  اس معنی مـیں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیـا:
*تَخَوَّفَ الرَّحُلُ منـها تامِكاً قَرِداً         *        كما تَخَوَّفَ عُودَ النبعةِ السَّفِنُ*
ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایـا اپنے دیوان کو تھامے رکھو،صحابہ نے عرض کیـا دیوان سے کیـا مراد ہے تو آپ  نے فرمایـا جاہلی شاعری،اس مـیں قرآن کی تفسیر اور تمہاری زبان کے معانی موجود ہیں۔         

(روح المعانی۱۰/۱۷۹، شاملہ )

دوسری مثال
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ صحن کعبہ مـیں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمـی آپ کی خدمت مـیں حاضر ہوئے اور عرض کیـا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، حضرت ابن عباس نے فرمایـا دل کھول کر پوچھئے،انہوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:
"عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ"۔      

(المعارج:۳۷) 

  دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے فرمایـا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے،انہوں نے پھر سوال کیـا کہ کیـا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟حضرت ابن عباسؓ نے فرمایـا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا ؎
فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًا
وہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں


(الاتقان،۲/۶۸،شاملہ)

دیکھیے یہاں حضرت ابن عباس ؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔
تیسری مثال
اُسی صاحب نے آپ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریـافت کی:
"وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ"۔         

(المائدۃ:۳۵)      

اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایـا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ  نے فرمایـا کیـا آپ نے عنترۃ نامـی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا:
إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ          إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي

(الاتقان:۲/۶۹)

اس شعر مـیں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی مـیں استعمال ہوا ہےاور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔
اس نقطۂ نظر سے  بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں،ان مـیں تفسیر خازن جس کا اصل نام "لباب التاویل فی معانی التنزیل(۲)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر ،للخطیب شربینی"قابل ذکر ہیں۔

چھٹا ماخذ تفسیر القرآن بعقل سلیم
عقل سلیم جس کی اہمـیت وضرورت سےی کو انکار نہیں ،دنیـا کے ہر کام مـیں اسکی اہمـیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل ، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جاسکتا ہے ؛لیکنی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہاء ہوگئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی ، فرمان خدا وندی ہے:
"قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ،الخ"۔              

(الکہف:۱۰۹)

 کہہ دو کہ اگر مـیرے رب کی باتیں لکھنے کے لیےسمندر روشنائی بن جائے،تو مـیرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوںکہ اس سے پہلے سمندر ختم ہوچکا ہوگا،چاہے اس سمندر کی کمـی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔
گویـا اس آیت مـیں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہیی طرح بھی متناہیوں کی گرفت مـیں نہ آسکے گا ،متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت مـیں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری مـیں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیـامت تک کھلاہوارہےگا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیـا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں ۔
اور نبی اکرم کی دعاجو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے تھی:

"اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ"۔

(کنزالعمال فی سنن الأقول والأفعال:۱۳/۴۵۸، شاملہ،المؤلف:علي بن حسام الدين المتقي الهندي۔ بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَاءِ،حدیث نمبر:۱۴۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔
یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب مـیں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ مـیں یہ اصول ضرور بتلایـا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
ہم کو ایمان رکھنا چاہئے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت مـیں ہے،لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریـا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی ۔  
پہلی مثال
"لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌo"۔ 

(الشوری:۴۹،۵۰)

سارے آسمانوں اور زمـین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے،وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیـاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہےیـا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیـاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے،یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس  آیت مـیں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیـا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیـا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتداء ہی مـیں فرمادیـا"يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ"وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،لہذااس مـیں خنثیٰ بھی شامل ہے۔      

(الجامع لاحکام القرآن:۱۶/۵۲، شاملہ)

دوسری مثال
حضرت موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھےاور انہیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نےبچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیـان کیـا ہے :
"وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا"۔             

(الاعراف:۱۴۸)

موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیـا۔
اس آیت کی تفسیر مـیں علامہ تستری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت مـیں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے  منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کردے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت مـیں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کردیں۔                      

(التفسیر التستری:۱/۱۶۹،شاملہ)

یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی مـیں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔
تیسری مثال
قرآن پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیـا ہے جس مـیں اللہ تعالی نے ان کو اپنے جگر حضرت اسماعیل  علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیـا تھا قرآن پاک مـیں یوں ہے:
"وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ "۔

(الصافات:۱۰۷)      

   اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیـا۔
اس کی تفسیر مـیں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیـا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیراللہ کی محبت کو دل سے نکال دیـا جائے ،جب یہ بات پوری ہوگئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آگئےتو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔                                        

   (التفسیر التستری:۱/۴۳۹، شاملہ)

یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے مـیں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں ، علامہ ابوالسعودکی"ارشاد العقل السلیم الی مزایـا الکتاب الکریم" اور" تفسیر التستری"قابل ذکر ہیں۔

تفسیر کے لیے ضروری علوم
قرآن کریم کی آیـات دو قسم کی ہیں ،ایک تو وہ آیتیں ہیں جن مـیں عام نصیحت کی باتیں،جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان مـیں بھی ان آیـات کو سمجھ سکتا ہے،ان آیـات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر"۔ٍ                 

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیـا ہے؛ اب کیـا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔
دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین،عقائد اور علمـی مضامـین پر مشتمل ہیں ،اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کےلیےعلم تفسیرکاجانناضروری ہے ،صرف  عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے،   صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولسے معلوم کیـا کرتے تھے،اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ مـیں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیـا جارہا ہے،روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیـاہ دھاگے مـیں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔
اس آیت کو سننے کے بعدحضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(۶۷ھ) نے سفید اورسیـاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیـا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت مـیں حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیـاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس مـیں ممتاز نہ ہوجائیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یـا کہ یہاں سفید اورسیـاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیـاہی ہے۔

(بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)

الغرض !قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے،کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے،خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا،قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے،اس مضمون کے آخر مـیں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں ،درج ذیل احادیث مـیں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :


"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ جو شخص قرآن مـیں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم مـیں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے مـیں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس مـیں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔

(ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷۴۔ ابو داؤد،الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم،حدیث نمبر:۳۱۶۷)


علامہ ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے مـیں کوئی بات فکر ورائے کی بنیـا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیـال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیـا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔

(الاتقان :۲/۱۸)

چنانچہ اس بات پر جمہور علماء متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی مـیں اس حدیث کا منشاء یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ مـیں غور وفکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیـا جاسکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشاء یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیـاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ مـیں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاًی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً:
۱۔جو شخص تفسیر قرآن کے بارے مـیں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کردے۔
 ۲۔کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یـا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیـان کرنے لگے۔
۳۔ جن آیـات مـیں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان مـیں لغت اور زبان وادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیـان کرے۔
۴۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کردے
 ۵۔ قرآن کریم کے متشابہ آیـات (جن کے بارے مـیں قرآن نے خود کہے دیـا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا)  ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیـان کرے اور اس پر مصر ہو ۔
۶۔قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیـان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یـا احکام مجروح ہوتے ہوں           
۷۔تفسیر کے معاملہ مـیں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاںی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث مـیں منع کیـا گیـا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث مـیں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے مـیں سمـیٹ دیـا گیـا ہے :
من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ ہ من لنار

 (ترمذی،باب ماجاء یفسر القرآن،حدیث نمبر:۲۸۷۴)

  جو شخص قرآن کریم کے معاملے مـیں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم مـیں بنالے۔
البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر مـیںی ایسی رائے کا اظہار کیـا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید مـیں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمـیق علم اور اسلامـی علوم مـیں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر مـیں تفصیل سے بیـان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن کی نوع ۴۱ مـیں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:۱۶۴۔۱۷۰)بیـان فرمایـا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایـا جاسکتا ،اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔


 سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا، کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت،صرف ونحو، معانی ،بیـان، بدیع ،عربی ادب، علم کلام،منطق ،حکمت  وفلسفہ،علم عقائد،علم تفسیر،پھر اس مـیں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئےہیں،چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان مـیں نازل کیـا گیـا نیز معانی بیـان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطق حکمت  وفلسفہ کلام،دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیـاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ ال اورفرشتے کاانسانی شکل مـیں آنا،رویـائے صادقہ ،نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں مـیں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں مـیں مدنی آیتیں کونسی ہیں اسکا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیـا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات ،سبعہ احرف سے کیـا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیئے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی مـیں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم مـیں جو مضامـین ذکرکئے گئے ہیں،مثلا عقائد،واقعات اورایـام اللہ وانعم اللہ،پھر آیـات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات،بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیـا گیـا ہے،  ان کی تفصیل مـیں جائیں تو بہت وقت لگ جائے ۔

اہم مفسرین کے نام مع تاریخ وفات
 جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ وتابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم مـیں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اوران مـیں سے بھی پہلے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پرآئی ہے تنویر المقیـاس فی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ حتی کہ اسکا اردو ترجمہ بھی شائع ہوگیـا؛ لیکن حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب "محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ"کی سند سے مروی ہے اوراس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قراردیـاہے۔       

(دیکھئے الاتقان:۱۸۸/۲)

بہرحال قرن اول کے مفسرین مـیں پہلانام حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ۶۸ھ۔
دوسرانام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وفات سنہ۴۰ھ۔
پہلے تین خلفاء کی نسبت حضرت علی سے تفسیری روایـات زیـادہ مروی ہیں ؛چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے خطبے مـیں یوں فرمایـا کہ لوگو!مجھ سے کتاب اللہ کے بارے مـیں سوالات کیـا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے  مـیں مجھے معلو نہ ہوکہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یـا دن مـیں مـیدان مـیں اتری یـا پہاڑ پر۔     

( الاتقان:۱۸۷/۲)

تیسرا نام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۲ھ۔
 ان کی بھی کئی روایـات تفسیر مـیں منقول ہیں؛ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ مـیں زیـادہ منقول ہیں۔
چوتھا نام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۹ھ۔
 حضرت ابی بن کعب اُن صحابہ مـیں سے ہیں جو تفسیر اورعلم قرأت مـیں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ  نے ان کے بارے مـیں ارشاد فرمایـا ، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم مـیں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔                   

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

حضرت ابی بن کعب کی علمـی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیـا جاسکتا ہے کہ حضرت معمر رحمہ اللہ نے فرمایـا کہ:
"عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ،عُمَر وَعَلِی وَاُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

 ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں،حضرت عمر وعلی وابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ٍ
ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ اوربھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ مـیں منقول ہیں مثلا  زید بن ثابتؓ، معاذ بن جبلؓ، عبداللہ بن عمروؓ، عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عائشہؓ ، جابرؓ ، ابو موسیٰ اشعری ؓ،انس ؓ اورحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہم۔
تابعین
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات مـیں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیـا ،جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیـار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے مـیں نمایـاں خدمات انجام دیں، ان مـیں سے کچھ برائے تعارف پیش کئے جاتے ہیں:
(۱)حضرت مجاہدؒ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں پورانام ہے ابوالحجاج مجاہد بن جبر المخزومـی، ولادت  سنہ۲۱ ھ اوروفات سنہ۱۰۳ھ۔
(۲)حضرت سعید بن جبیرؒ،وفات۹۴ھ
(۳)حضرت عکرمہؒ
(۴) حضرت طاؤسؒ ،وفات۱۰۵ھ
(۵)حضرت عطاء بن ابی رباح،وفات۱۱۴ھ
(۶)حضرت سعید بن المسیبؒ،وفات۹۱ھ یـا ۱۰۵ھ
(۷)محمد بن سیرینؒ،وفات۱۱۰ھ
(۸)حضرت زید بن اسلمؒ،وغیرہ۔                        

(منقول از علوم القرآن:۴۶۱)

تفاسیر کی اہم کتابیں
مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛مثلاًادبی،عقلی اور کلامـی وغیرہ،بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی،بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیـانہ اندازپر تفسیرلکھی،غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔
تفسیر بالماثور مـیں اہم تفاسیر
 تفسیر طبری،تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی،الکشف والبیـان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ،تفسیر ابن کثیر،الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی،الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں مـیں
 مفاتیح الغیب ازرازی،انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی،مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری،تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی،روح المعانی از آلوسی۔وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
صوفیـانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر مـیں
تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی،تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمـی، عرائس البیـان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔
 فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں مـیں:
 احکام القرآن ازکیـاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی،الجامع لاحکام القرآن از قرطبی،کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص،احکام القرآن للتھانوی اور اردو مـیں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبدالمالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔


اسرائیلیـات کی حیثیت:
قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتورات وانجیل وغیرہ نازل ہوچکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ مـیں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن مـیں بیـان کردہ انبیـاء کرام کے واقعات  کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایـات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ مـیں نبی کریم نہایت قیمتی اصول بیـان فرمائے جو آگے پیش کیئے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم مـیں اسرائیلیـات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیـا ہے ،اس کو فرامـین رسول کی روشنی مـیں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ مـیں ملاحظہ کرتے ہیں:
اسرائیلی روایـات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
"الاسرائیلیـات: الاخبار المنقولۃ عن بنی اسرائیل من الیھود وھو الاکثر اومن النصاری"۔

(قسم التفسیر واصولہ:۱/۴۷)

اسرائیلیـات وہ باتیں جو  بنی اسرائیل  یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یـا نصاریٰ سے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایـا کہ:
"اسرائیلیـات یـا اسرائیلی روایـات ان روایـات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یـا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان مـیں سے بعض براہِ راست بائبل یـا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایـات ہیں جو اہل کتاب مـیں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری مـیں معروف  ومشہور تھیں"۔

(علوم القرآن:۳۴۵)

جب قرآن مجید نازل ہونےلگا اوراس مـیں حضرات انبیـاء کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیـان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی زبان مـیں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی مـیں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیـان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا کہ تم ان اہل کتاب کے بیـان کردہ واقعات کی نہ ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیـا  ہےہمارا اس پر ایمان  ہے؛چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ:
"كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔

(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا،حدیث نمبر:۴۱۲۵)

اہل کتاب تورات عبرانی زبان مـیں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان مـیں کرتے تھے،رسول اللہ نے ارشاد فرمایـا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیـا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:۸۵۳ ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں،اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویـا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی مـیں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیـان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ مـیں نہ پڑو۔

(فتح الباری،حدیث نمبر:۴۱۲۵،شاملہ)


اسرائیلیـات کے عنوان مـیں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ:
"حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ"۔

(ابو داؤد،بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،حدیث نمبر:۳۱۷۷)

اس حدیث سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کےبیـان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے مـیں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیـان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے چہ جائیکہ ان کو بیـان کیـا جائے بظاہر دوحدیثوں مـیں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ محمد حسین الذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث مـیں جو بنی اسرائیل سے بیـان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل  حکایـات ہیں جن کے بارے مـیں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیـان کیـا جاسکتا ہے اورپہلی حدیث مـیں توقف ہے کہ ان کے بیـان کرنے مـیں احتیـاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ مـیں اختلاط نہ ہوجائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ مـیں حرج مـیں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایـات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامـین کے بارے مـیں توقف پردلالت کرتی ہے جن مـیں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامـین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔
اس سلسلہ مـیں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیـا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیـات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایـات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یـا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔
(۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیـات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر مـیں (معاذ اللہ) بت پرستی مـیں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳)تیسری قسم ان اسرائیلیـات کی ہے جن کے بارے مـیں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو که تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیـات کے بارے مـیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔
اس قسم کی روایـات کو بیـان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہی دینی مسئلہ کی بنیـاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یـا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایـات کو بیـان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔         

(علوم القرآن:۳۶۴)

یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمـیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔

(التفسیروالمفسرون للذھبی،باب ثانیـا:الااسرائیلیـات:۴/۱۴)

مسند الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (المتوفی:۱۱۷۶) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر مـیں اسرائیلی روایتوں کو بیـان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیـاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:
(۱)جب حدیث مـیں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایـات کو تفسیر مـیں نقل نہیں کرنا چاہئے۔
(۲)قرآن کریم مـیں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیـا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیـان کرنی چاہئے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔

(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:۴۵۳)


"وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔

(یوسف:۱۸)

اوریوسف کی قمـیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔
(۱)اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کےلیے کہ حضرت یوسف کو  ایک بھیڑئے نے ہی کھالیـا ہے ،ایک بھیڑئےکو باندھ کرحضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیـا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ مـیں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے،ہمارا خیـال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیـا ہے،حضرت یعقوب نے بھیڑئے سے کہا قریب آؤقریب آ ؤ،وہ قریب آگیـا ،اس سے کہا تم نے مـیرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم مـیں مبتلا کردیـا ہے ،پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہ،یـا اللہ !تو اس کو گویـائی دے،اللہ نے اس کو بولنا سکھادیـا، بھیڑئے نے کہا ،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایـا ہے، نہ مـیں نے اس کا گوشت کھایـا نہ مـیں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ مـیں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے،قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے مـیرا کوئی سروکار نہیں ،مـیں ایک پردیسی بھیڑیـا ہوں مـیں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش مـیں آیـا ہوا ہوں،مـیں اس کی جستجو مـیں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے مـیرا شکار کرلیـا،ہم لوگوں پر انبیـاء اوررسولوں کا گوشت حرام کردیـا گیـا ہے..الخ۔     
(تفسیر ثعلبی:۴/۲۱)    "فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔

(طٰہٰ:۲۰)

انہوں نے اسے پھینک دیـا،وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔
(۲)اس آیت کے سلسلہ مـیں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمـین پر ڈالا تودیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدھا بن گیـا،لوگ حیرت واستعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے،اژدھا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کررہا ہو، اژدھا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیـا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیـا،جب وہ اپنا منھ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگادیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا،اس کی دونوں آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛اس کے بال نیزوں کی طرح تھے..الخ۔         

(تفسیر ابن کثیر:۵/۲۷۹)

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔

(البقرۃ:۲۵۸)

کیـا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیـا جس کو اللہ نے سلطنت کیـا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے مـیں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟۔
(۳)اس آیت کی تفسیر مـیں ایک روایت مـیں نمرود کے بارے مـیں اس طرح لکھا ہوا ہے:ایک مچھر نمرود  کی ناک مـیں گس گیـا اور اس کی ناک مـیں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا،اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب مـیں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یـا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی ،اسی عذاب مـیں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مرگیـا۔             

(تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۳)

یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات مـیں سے ہیں،جیسا کے علماء امت نے اس کی تصریح کی ہے۔

(تفسیروں مـیں اسرائیلی روایـات:۴۴۴)

قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریم کا حیرت انگیز ابدی ودائمـی معجزہ ہے،جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیـات بنا کر نازل کیـا گیـا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمـی  ،ادبی حلاوتوں،روحانی راحتوںاورمعانی ومفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیـا اورقلب و نظر کی دنیـا مـیں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیـا مـیں ازل سےی اورکتاب یـا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی مـیں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایـا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اورمرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیـا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خدادا دذہانت اورتمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی مـیں لگادیـا؛ لیکن آجی نے یہ دعویٰ نہیں کیـا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیـا جاسکا ،یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں مـیں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایـا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں مـیں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل مـیں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین وسن وفات پیش کرتے ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت مـیں مقبول ومتداول ہیں اورلا تعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جارہی ہیں۔
اہل کتاب کی روایـات نقل کرنے والے حضرات
عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار مـیں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طورپر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل مـیں عموماً اوص انبیـاء اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال مـیں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیـانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔
البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیـار کیـا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیـان سے بڑی حد تک مختلف ہے،قرآن کریمـی واقعہ کی جزئیـات وتفصیلات بیـان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار مـیں تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے قرآن مـیں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیـا کرتے تھے، اسرائیلی روایـات کا مدار وانحصار زیـادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے:
عبداللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبدالملک بن عبدالعزیزابن جریج، جہاں تک عبداللہ بن سلامؓ کی بات ہے تو آپ کے علم وفضل مـیںی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت مـیں آپ اہل علم صحابہ مـیں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے مـیں قرآن کریم کی آیـات نازل ہوئیں، امام بخاری ؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایـات پر اعتماد کیـا ہے۔
حضرت کعب احبار بھی ثقہ راویوں مـیں سے ہیں،ا نہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایـا اورخلافت صدیقی یـا فاروقی مـیں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی مـیں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔

(فتح الباری ،۱۵۸/۱ حدیث نمبر:۹۵)

آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ  اپنی جلالت قدر اورعلمـی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم مـیں کتاب الایمان کے آخر مـیں کعب سے متعدد روایـات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد،ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔
اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق وتعدیل کی ہے،ان کے زہد وتقوی کے بارے مـیں بڑے بلند کلمات ذکر کئے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمـی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایـا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیـا اورلوگوں نےان کو تنقید کا نشانہ بنایـا۔
 ابن جریج اصلاً رومـی تھے،مکہ کے محدثین مـیں سے تھے ،عہد تابعین مـیں اسرائیلی روایـات کے مرکز ومحور تھے،تفسیر طبری مـیں نصاری سے متعلق آیـات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے مـیں علماء کے خیـالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے ،بکثرت علماء آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویـات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایـات کو حزم واحتیـاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
اہل کتاب کی روایـات پر مشتمل کتب تفاسیر
کوئی ایسی کتاب جس مـیں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایـات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیـات کی تفسیر مـیں عموماً کتب تفاسیر مـیں اسرائیلی روایـات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یـا پھر ان کی بیـان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی مـیں پرکھ کر معلوم کیـا جاسکتا ہے،  مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو مـیں" تفسیروں مـیں اسرائیلی روایـات" کے نام سے آچکی ہے ،جس کے مقدمہ مـیں اسرائیلی روایـات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایـات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیـا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایـات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیـاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیـا جائے۔
یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جارہے ہیں اور اردومـیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔
عربی کتب تفسیر مع اسمائے مفسرین
اسمائے مفسرین
اسمائے کتب تفسیر
سنِ وفات
(منسوب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ
مفاتیح الغیب (المعروف) تفسیر کبیر
ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر بن فرح القرطبیؒ
الجامع الاحکام القرآن(المعروف) تفسیر قرطبی
حافظ عماد الدین ابوالفدا اسماعیل بن خطیب ابوحفص عمر بن کثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر ابن کثیر
قاضی ابوالسعود محمد بن محمد العمادی الحنفیؒ
ارشاد العقل السلیم الی مزایـا القرآن الکریم
(معروف) تفسیر ابی السعود
علامہ محمودآلوسی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی
۱۲۷۰ھ
ابومحمد حسین بن مسعود الفراء البغوی رحمۃ اللہ علیہ
معالم التنزیل
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
الدارالمنثورفی التفسیربالماثور
محمدبن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ
جامع البیـان فی تفسیر القرآن
ابوعبداللہ بن احمد النسفی رحمۃ اللہ علیہ
ابوحیـان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ
البحر المحیط
قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر بیضاوی
ابوالحسن علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ
لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر خازن)
ابوالقاسم محمود بن عمروبن احمد الزمخشریؒ
الکشاف
ابو الفزج ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ
زاد المسیر
ابوالفیض فیضی رحمۃ اللہ علیہ
سواطع الالہام
۱۰۰۴ھ
قاضی محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانیؒ
فتح القدیر
۱۲۵۰ھ
ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ
تفسیرات احمدی
۱۱۳۰ھ
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
۱۲۴۰ھ
علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ طنطاوی بن جوہری رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر الجواھر
۱۳۵۸ھ
سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ
فی ظلال القرآن
۱۳۸۵ھ
الدکتوروھبۃ الزحیلی مدظلہٗ
التفسیر المنیر
باحیـات



اردو کتب تفسیر مع اسمائے مفسرین 

اسمائے مفسرین
اسمائے کتب تفسیر
سن وفات
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا عبدالماجد دریـابادی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عاشق الہی بلندشہری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالقدیر حسرت صدیقی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مولانا احمد عثمان کاشف الہاشمـی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہٗ
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ
مولانا عبدالکریم پاریکھ رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر عزیزی
ترجمہ شیخ الہند
انوار البیـان فی کشف اسرار القرآن
ترجمان القرآن
تفسیر صدیقی
انوارالقرآن
ہدایت القرآن

تکمـیل ہدایت القرآن(جاری)

توضیح القرآن

تشریح القرآن۔
۱۲۳۹ھ
۱۳۶۳ھ
۱۳۶۹ھ
۱۳۹۶ھ
۱۳۹۸ھ
۱۳۳۹ھ
۱۲۴۷ھ
۱۳۷۷ھ
۱۳۸۲ھ
۱۴۲۹ھ
باحیـات
باحیـات
عربی تفسیروں کے اردو ترجمے تعارف وتجزیہ
                ”ترجمہ“ مستقل ایک فن ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی مـیں اس کی ضرورت واہمـیت مسلم ہے، تراجم کی مختلف اصناف مـیں مذہبی تراجم سب سے زیـادہ اہمـیت کے حامل ہیں؛ اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیـا بھر کے من جملہ تراجم کی خدمات مـیں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔ قرآنِ پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی، پھر فرانسیسی اور پھر انگریزی مـیں ہوا، ایک سروے کے مطابق دنیـا مـیں چھ ہزار پانچ سو (۶۵۰۰) زبانیں بولی جاتی ہیں، ان مـیں سے دو ہزار تین سو پچپن (۲۳۵۵) زبانوں مـیں انجیل کا ترجمہ ہوچکا ہے، اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجیدکا ترجمہ دنیـا کی اکثر زبانوں مـیں ہوچکا ہے، اردو زبان آج سے چھ سات صدی پہلے وجود مـیں آئی، ترجمہ کی روایت اس مـیں دو سو سال بعد شروع ہوئی، اس زبان مـیں سب سے پہلے ”تمہیداتِ عین القضاة“ کا ترجمہ ”تمہیداتِ ہمدانی“ کے نام سے شاہ مـیراں جی خدانما نے ۱۶۰۳/ مـیں کیـا، اردو زبان مـیں قرآنِ مجید کا سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے فرزندِ ارجمند شاہ رفیع الدین صاحب رحمـه الله  نے ۱۷۷۶/ مـیں کیـا، اس وقت اردو زبان کی نثر اچھی خاصی صاف، سادہ اور رواں ہوگئی تھی، لیکن وہ ترجمہ خاصا لفظی تھا؛ اس لیے ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمـه الله  نے ۱۷۹۵/ مـیں اس وقت کی فصیح وبلیغ رائج ومستند ٹکسالی زبان مـیں دوسرا ترجمہ کیـا، یہ ترجمہ اتنا عمدہ ٹھہراکہ اس سے اہل علم مترجمـین نے ترجمہ نویسی کے متعدد اصول وضع کیے۔ (ان ساری باتوں کے حوالوں کے لیے ترجمہ نگاری اور ابلاغیـات، ص:۱۷۶ تا۱۸۰ (مطبوعہ: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد) کو بھی دیکھا جاسکتا ہے) جب یہ ترجمہ بھی قدیم ہوگیـا تو حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمـه الله  نے مالٹا کی جیل مـیں ان کو سامنے رکھ کر ایک عمدہ ترجمہ کیـا، اور اب اسلامـی کتب خانوں مـیں محض اردو زبان مـیں قرآنِ کریم کے ترجموں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے، اور تفسیروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
                یہ حقیقت مسلم ہے کہ تفسیروں کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان مـیں ہے، یہی زبان دین اسلام کی صحیح اور مستند ترجمان ہے، اردو زبان مـیں مذہب اسلام کا سب سے زیـادہ حصہ اسی زبان سے منتقل ہوا ہے، راقم الحروف نے اپنے اس مقالے مـیں تفسیروں کے محض ان ترجموں کے تعارف کو موضوع بنایـا ہے، جو براہِ راست عربی سے اردو مـیں کیے گئے ہیں۔ ”بارہ تفسیروں“ کے کل تیئس ترجمے مـیرے محدود استقراء مـیںآ ئے ہیں، ان مـیں سے صرف ”پانچ تفسیریں“ ایسی ہیں، جن کے ترجمے مکمل ہوسکے ہیں، بقیہ تفسیروں کے ترجمے اب تک تشنہٴ تکمـیل ہیں۔ الحمدللہ یہ سارے ترجمے علماء ہند کے ہیں، ان مـیں بھی چودہ ترجمے علماء دیوبند نے کیے ہیں، بقیہ کے بارے مـیں تحقیق نہ ہوسکی کہ وہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اُن ترجموں کاتعارف پیش خدمت ہے۔
                اصولِ تفسیر مـیں قرآنِ کریم کے معانی کی وضاحت کے لیے مفسرین نے چھ مآخذ ذکر فرمائے ہیں:
                (۱)          آیـات کی تفسیر آیـات ہی سے ہو۔
                (۲)         آیـات کی تفسیر صحیح احادیث سے ہو۔
                (۳)         آیـات کو آثارِ صحابہ رضي الله عنـه  کی روشنی مـیں سمجھا جائے۔
                (۴)         آیـات کو تابعین رحمـه الله  کے ارشادات سے سمجھا جائے۔
                (۵)         لغتِ عربِ اولین سے بھی مرادِ الٰہی کی تعیین مـیں مدد ملتی ہے۔
                (۶)          آخری درجہ عقلِ سلیم اور فہمِ صحیح کا ہے۔
                ان مـیں قرآن وحدیث کے بعد سب سے قابلِ اعتماد مآخذ صحابہٴ کرام  رضي الله عنـهم  کے آثار ہیں؛ اس لیے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا سب سے اہم واسطہ صحابہٴ کرام رضي الله عنـهم ہیں، انھوں نے ہی مشکوٰةِ نبوت سے اولین مرحلے مـیں روشنی حاصل کی، اگر ان پر ہمارا اعتماد نہ رہا تو دین کا سارا دفتر بے اعتبار ہوجائیگا، نعوذ باللہ قرآن کی آیـات بھی مشکوک ہوجائیں گی؛ اس لیے کہ یہ بھی انھیں کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے آثارِ صحابہ رضي الله عنـهم کو بڑی اہمـیت دی ہے، ان مـیں بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنـه  کا امتیـاز مسلم ہے، یہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، فہمِ آیـات مـیں انھیں ایک خاص ذوق حاصل تھا، اور وہ دعائے نبوی کی برکت تھی (فتح الباری:۱/۱۷۰) آپ کو ”ترجمانُ القرآن“ کے مبارک لقب سے نوازاگیـا (ابن مسعود رضي الله عنـه ، مستدرکِ حاکم) آپ رضي الله عنـه مـیں سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنـهم کے علوم جمع تھے، ناچیز کے محدود علم مـیں دوہی صحابہٴ کرام رضي الله عنـهم ایسے ہیں، جن کی تفسیری روایـات اکٹھا کتابی شکل مـیں دستیـاب ہیں، ایک تو حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  ہیں اور دوسرے حضرت ابن مسعود رضي الله عنـه ، حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کے اردو ترجمہ سے بھی امت مستفید ہورہی ہے، مـیرے علم مـیں ابھی تک ”تفسیر ابن مسعود رضي الله عنـه “ کا اردو ترجمہ نہیں ہوسکا ہے۔
                اس کے موٴلف علامہ ابوالطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین فیروزآبادی شیرازی، شافعی ہیں، (ولادت:۷۴۹ھ مطابق ۱۳۳۹/ وفات: ۲۰/شوال ۸۱۷ھ مطابق ۳/جنوری ۱۴۱۵/) یہ جلیل القدر مفسر، محدث اور ادیب تھے، علمِ لغت مـیں اپنا ایک نمایـاں مقام رکھتے تھے، علامہ فیروزآبادی رحمـه الله  نے دنیـا کے مختلف ممالک کی سیـاحت کی ہے، حرمـین شریفین، ایشیـائے کوچک، ترکی، قاہرہ کے علاوہ ہندوستان آنے کی تاریخ بھی ملتی ہے، ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
                (۱)          بصائر ذوالتمـیز في لطائف الکتاب العزیز: یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے، چھ جلدوں پر مشتمل ہے، قاہرہ اور بیروت سے بارہا چھپ چکی ہے۔
                (۲)         سِفر السعادة یـا الصراط المستقیم کے نام سے سیرت النبی صلے اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع تصنیف ہے۔
                (۳)         صحیح بخاریکی ایک شرح کا ذکر بھی ان کے تراجم مـیں ملتا ہے، مگر وہ نایـاب ہے۔
                (۴)         علامہ زمخشری رحمـه الله  کی کشاف کے خطبہ کی ایک مستقل شرح بھی تحریر فرمائی تھی۔
                (۵)         البُلغہ في تاریخ أئمة اللغة: یہ کتاب بھی اہلِ علم کے نزدیک اہم اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
                (۶)          القاموس: یہ سب سے مشہور اور مفید ترین لغت ہے، محققین علماء اس پر اعتماد کرتے ہیں، سیدمرتضیٰ زبیدی (وفات ۱۷۹۱/) نے ”تاج العروس“ کے نام سے اس کی دس جلدوں مـیں شرح لکھی ہے۔
                (۷)         تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما: علامہ فیروزآبادی رحمـه الله  نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیری روایـات کو اکٹھا کرکے بہت بڑا کارنامہ انجام دیـا ہے، اشاعت کے بعد سے ہی اس کی مقبولیت چہار دانگِ عالم مـیں پھیل گئی؛ اس لیے کہ آپ کی شخصیت بالاتفاق امت مـیں ترجمان القرآن کی حیثیت سے مسلم ہے، آپ کی تفسیر وروایت کی بہت سی خصوصیـات ہیں، مثلاً:
الف)      روایـات اکثر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں، حضرت عمر رضي الله عنـه  جیسے بڑے بڑے صحابہ کرام رضي الله عنـهم آپ سے تفسیر قرآنی مـیں استفادہ کرتے تھے۔
ب)         ان کی تفسیر سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنـهم کی تفسیروں کا مظہرِ جمـیل ہے؛ اس لیے کہ انھوں نے سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنـهم کے علوم کو اکٹھا کرلیـاتھا۔
ج)          ان مـیں لغت، اشعار، محاورات، لہجات اور ایـام وتاریخ سے استدلال؛ بلکہ ان کی دقیق اور مفید علمـی بحث ہے۔
د)            یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  کے حزم و احتیـاط کا نمونہ بھی ہے، حافظ ابن حجر رحمـه الله  فرماتے ہیں کہ: اگر ان سے کوئی مسئلہ پوچھتا تو سب سے پہلے آیـات سے اس کا جواب دیتے؛ لیکن اگر کوئی حکم قرآنِ پاک مـیں واضح نہ ملتا تو حدیث وسنت کو بنیـاد بناتے، اور اگر قولِ نبی سے مسئلہ صراحتاً ثابت نہ ہوتا تو شیخین کے اقوال مـیں جواب تلاشتے تھے؛ لیکن اگران مـیں بھی جواب کی جانب اشارہ نہ پاتے تو اپنی رائے بیـان فرماتے، اور اپنی رائے کے دلائل بھی اچھی طرح واضح فرمادیتے تھے۔ (الاصابہ فی تمـیز الصحابہ ۱/۳۲۵)
ھ)           علامہ ذہبی رحمـه الله  کے بہ قول حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  نے قرآنِ پاک کے اجمال کی تفصیل مـیں بعض جگہ انجیل سے بھی استفادہ کیـا ہے، مگر بڑے ہی حزم واحتیـاط کے ساتھ۔
و)            حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  کے دور مـیں بہت سے ایسے مسائل بھی سامنے آئے، جن کا واضح حکم قرآن وحدیث مـیں نہیں تھا، ان مـیں سے بہت سے اہم مسائل کو آپ نے آیـات سے مستنبط کیـا؛ اس طرح کے مجتہدات بھی آپ رضي الله عنـه  سے منقول ہیں۔
ز)            آپ رضي الله عنـه  کی مرویـات کی تعداد ایک ہزار چھ سو ساٹھ (۱۶۶۰) یـا ایک ہزار سات سو دس (۱۷۱۰) ہے، یہ ساری روایتیں بخاری شریف اورمسلم شریف کے علاوہ دیگر کتب حدیث مـیں بھی ہیں، حدیث شریف کا کوئی بھی مجموعہ ایسا نہیں جس مـیں آپ رضي الله عنـه  کی روایـات درج نہ ہوں، کوئی مفسر آپ کے فہمِ قرآن سے بے اعتنائی نہیں کرسکتا، آپ کے اقوال کا بہت بڑا ذخیرہ ”جامع البیـان في تفسیر القرآن“ مـیں ہے، یہ علامہ ابن جریر طبری رحمـه الله  (۲۲۴ھ تا ۳۱۰ھ) کی مرتب کردہ ہے، یہ تفسیر کے ذخیرہ مـیں سب سے پہلی اور مفصل کتاب ہے۔
                یہ قیمتی ذخیرہ آٹھویں صدی تک مختلف کتابوں مـیں منتشر تھا، اللہ تعالیٰ نے علامہ فیروزآبادی رحمـه الله  کو توفیق بخشی اور انھوں نے ان مرویـات کو ایک جگہ جمع فرماکر امت پر احسان فرمایـا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا عنایت فرمائیں (آمـین)
                حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنـه  کے تفسیری افادات دنیـا مـیں ہر طرف پھیلے ، حرمـین شریفین کے علاوہ عراق دمشق اور دیگر بلادِ اسلامـیہ مـیں بھی آپ رضي الله عنـه  ہی کے شاگردوں نے آپ کی روایـات؛ بلکہ فن تفسیر کو عروج بخشا، مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:
                حضرت سعید بن جبیر امام مجاہد بن جبر، امام ضحاک بن علی بن ابی طلحہ، مقاتل بن سلیمان اور حضرت عکرمہ وغیرہ۔ (تلخیص از عرض مترجم، مع ترجمہ تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه ،ص:۲۳)
                حضرت ترجمانُ القرآن رضي الله عنـه  کی روایـات اِنھیں شاگردوں سے تفسیر اور حدیث کی کتابوں مـیں مروی ہیں، کتبِ ستہ کے علاوہ مسند احمد، مسند ابوداؤد طیـالسی، مسند شافعی، مسند حمـیدی، معجم طبرانی، سنن دارمـی، سنن دارقطنی اور المنتقیٰ لابن جارود وغیرہ مـیں بھی کتاب التفسیر مـیں کثرت سے روایـات ملتی ہیں، اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو خلافِ واقعہ حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  کی طرف منسوب ہیں، اس طرح کی موضوع اور الحاقی روایـات کو صحیح اور مستند روایـات سے الگ کرنا ضروری ہے؛ لیکن اتفاق سے اب تک یہ کام نہیں ہوسکا ہے، رہا یہ مجموعہ جس کو علامہ فیروزآبادی رحمـه الله  نے ترتیب دیـا ہے، وہ ایک ہی سند پرمشتمل ہے، جو محدثین و مفسرین کے نزدیک نہایت کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہے؛ البتہ مقاصدِ شریعت اور درایت ومعانی کے لحاظ سے ذکر کردہ باتیں اکثر قابلِ اعتماد ہیں، ضرورت ہے کہ تحقیق کے کام کو کوئی محقق عالم انجام دے، جس کی نظر احادیث ورجال پر ہو، نیز مضامـینِ قرآن اور تفسیرِ آیـات سے اچھی خاصی مناسبت ہو، وباللہ التوفیق!
                اس تفسیر کے درج ذیل نسخے موجود ہیں:
                (الف) ایک قلمـی نسخہ مخطوطہ کی شکل مـیں پنجاب پبلک لائبریری لاہور مـیں ہے۔
                (ب)       ۱۳۱۴ھ مـیں مصر سے ”دُرِّمنثور“ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔
                (ج)        ۱۳۱۶ھ مـیں علاحدہ طور پر مصر سے ہی شائع ہوئی۔
                (د)          ۱۲۸۵ھ مـیں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کے ”ترجمہ قرآن مجید“ کے ساتھ شائع ہوئی۔
                (ھ)         اس کے بعد حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے ”ترجمہ قرآن مجید“ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔ (مستفاد: از عرض مترجم، تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه ،ص:۷)
لبابُ النقول في أسباب النزول
                تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه  کے ساتھ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ (۹۱۱ھ) کی مشہور ومعروف کتاب ”لباب النقول في اسباب النزول“ بھی مطبوع ومترجم ہے، ”شانِ نزول“ کے موضوع پر یہ بڑی قابلِ اعتماد کتاب ہے،اس مـیں حدیث، اصولِ حدیث اور اصولِ درایت نصوص کو سامنے رکھ کر روایـات کی تلخیص کی گئی ہے، شروع مـیں قدرے تفصیل سے مقدمہ لکھا ہے، اس مـیں شانِ نزول کی اہمـیت روایـات کے درمـیان ترجیح کے اصول، ائمہ کے اقوال اور اپنے طرزِ تلخیص کو بڑے عمدہ انداز مـیں بیـان فرمایـا ہے، غرض یہ کہ علامہ سیوطی رحمـه الله  نے اسبابِ نزول والی روایـات کی سندوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے،راویوں کے سلسلے مـیں یہ بھی تحقیق کی ہے کہسے راوی مذکورہ واقعہ کے وقت موجود تھے اورسے نہیں؟ اور آیـا وہ اعلیٰ درجہ کے مفسر تھے یـا نہیں؟ خود انھوں نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ مـیں نے اختصار کے پیش نظر سندوں کو بیـان کرنے کے بجائے، اس کتاب کا حوالہ دے دیـا ہے، جس مـیں وہ روایت مذکور ہے؛ تاکہ قاری خود بھی تحقیق کرسکے، اسی طرح اپنے پیش رو مصنف علامہ واحدی رحمـه الله کے بیـان کردہ مباحث کو بھی ”ک“ کے رمز کے ساتھ اس تصنیف مـیں شامل فرمالیـا ہے، متعارض روایـات کے درمـیان دفعِ تعارض کی بھی کوشش کی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ”لبابُ النقول“ مـیں حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنـه  کی روایـات بہت زیـادہ ہیں، لبابُ النقول کی جامعیت اور مذکورہ بالا خصوصیـات کی وجہ سے امت نے اسے قبول کیـا ہے۔
”لبابُ النقول“ کا اردو ترجمہ
                تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه  کے ساتھ ”لبابُ النقول“ کی طباعت چوں کہ عربی زبان مـیں ایک ساتھ عمل مـیں آئی تھی؛ اس لیے ترجمہ مـیں بھی اس کو الگ نہیں کیـاگیـا:
                (الف) مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمـه الله  کے ترجمہ مـیں بھی لباب النقول کا ترجمہ ہے۔
                (ب)       اور حافظ محمد سعید احمد عاطف نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیـاہے۔
                جس طرح ”تفسیر“ مـیں پہلے حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  کی مرویـات نقل کی گئی ہیں؛ پھر اس آیت سے متعلق شانِ نزول کی روایت اگر موجود ہے تو اس کو ذکر کیـا ہے؛ اسی طرح ترجمہ مـیں بھی پہلے آیـات کا ترجمہ ہے، پھر حضرت ابن عباس رضي الله عنـه  کی تفسیر کا، اس کے بعد علامہ سیوطی رحمـه الله  کی ”لباب النقول“ کا ترجمہ ہے، لباب النقول کے ترجمہ سے پہلے ہر جگہ ”شانِ نزول“ اورآیت کا ابتدائی ٹکڑا عنوان کے طور پر لکھا گیـا ہے،اور جہاں پر بات پوری ہوئی ہے، وہاں قوسین کے درمـیان ”لباب النقول في اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمـه الله “ درج ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر بین القوسین والی عبارت کتابت سے رہ گئی ہے۔
                علامہ ابوطاہر فیروزآبادی رحمـه الله  کی جمع کردہ تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه  کے دو ترجمے نظرنوازہوئے:
                (الف) ایک کے مترجم پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف ہیں، ان کا آبائی وطن بالاکوٹ (پاکستان) ہے۔
                (ب)       دوسرے کے مترجم حضرت مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ اس ترجمہ کو پہلے ۱۹۷۰/ مـیں ”کلام کمپنی کراچی“ نے شائع کیـا۔ اوّل الذکر مترجم نے آخرالذکر مترجم کے ترجمہ سے خصوصی استفادہ کیـا ہے، جس کی صراحت خودانھوں نے ”عرضِ مترجم“ (ص:۸) مـیں کی ہے، دونوں مترجمـین مـیں سےی کے شخصی احوال معلوم نہ ہوسکے؛ اس لیے مزید تعارف رقم نہیں کرسکتا۔
                (ج) ایک اور ترجمہ کا ذکر بھی اول الذکر مترجم نے کیـا ہے، یہ ۱۹۲۶/ مـیں آگرہ سے شائع ہوا ہے (عرضِ مترجم،ص:۸)
                راقم الحروف کے خیـال مـیں یہی اولین ترجمہ ہے، لیکن یہ ترجمہ دریـافت نہ ہوسکا، اورنہ ہی اس کی مزید تفصیلات معلوم ہوسکیں۔
ترجمہ پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف
                ۲۰۰۶/ مـیں ”اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی“ نے اس ترجمہ کو شائع کیـا، یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد کے صفحات کی تعداد پانچ سو پینتیس (۵۳۵) ہے، دوسری جلد چار سو چونسٹھ (۴۶۴) اور تیسری پانچ سو چار (۵۰۴) صفحات پر مشتمل ہے، صفحات کی کل تعداد پندرہ سو تین ہے، قیمت چھ سو پچھتّر (۶۷۵) روپے درج ہے۔
                روزنامہ ’منصف“ حیدرآباد کے توسط سے طباعت کے بعدہی راقم الحروف کے پاس برائے تبصرہ یہ ترجمہ آیـا تھا، تبصرہ لکھاگیـا اور چھپا بھی، اس نسخہ مـیں کتابتِ قرآن کی تصحیح کی سند مع مہر تیسری جلد کے اخیر مـیں درج ہے، اوپر دائیں کالم مـیں آیـات اور بائیں کالم مـیں مولانا فتح محمد جالندھری رحمـه الله  کا ترجمہ قرآن ہے، ترجمہ کی زبان سلیس اور بامحاورہ ہے۔
                تفسیرکا ترجمہ لفظی نہیں، بلکہ آزاد کیـاگیـا ہے، اکثر جگہوں پر لفظ دو لفظ کے اضافہ کو بھی گوارا کیـاگیـا ہے، تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیـاگیـا ہے، تاکہ مقارنہ مـیں آسانی ہو، ”لباب النقول“ کے شانِ نزول کو بھی آیت نمبر کی تعیین کے بعد لکھا گیـا ہے،اور اہم بات یہ ہے کہ دیوبند سے چھپے ہوئے ترجمہ کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیـاگیـا ہے،اس سے استفادہ کی صراحت خود مترجم نے کی ہے(ص:۸)
                اس ترجمہ مـیں پہلے ”نقشِ اول“ کے نام سے ”عرضِ ناشر“ ہے،اس مـیں تفسیر اور اس کے جامع ومرتب کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت بیـان کی گئی ہے، ساتھ ہی مترجم ومعاونین کا شکریہ ادا کیـاگیـا ہے، پھر چار صفحات پر مشتمل عرضِ مترجم ہے، اس مـیں قرآنِ پاک، ترجمہ و تفسیر، سیرت نبوی اور آثارِ صحابہ وغیرہ کی اہمـیت بیـان کی گئی ہے، ”تنویر المقباس“ کے مقام ومرتبہ کو بیـان کیـاگیـا ہے،اس کے مخطوطہ اور مطبوعہ نسخوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں، ساتھ ہی اس کے دو اردو ترجمے کا ذکر بھی ہے، پھر مترجم نے اپنے ترجمے کی خصوصیـات بیـان فرمائی ہیں، اخیر مـیں معاونین کا شکریہ اور قارئین سے دعا کی درخواست ہے،اس کے بعد پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے،اس مـیں ترجمانُ القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنـه  کی زندگی کو کافی تفصیل سے پیش کیـاگیـاہے، نام ونسب، حلیہ، شوقِ علم، دعائے نبوی کا فیضان، حیرت انگیز ذہانت، علم کے لیے اسفار، علومِ اسلامـی سے عمومـی اور علومِ قرآنی سے خصوصی دلچسپی، طرزِ تفسیر اور مرویـات کی تعداد وغیرہ بھی بیـان کی گئی ہے، اس کے بعد دو مضمون ہے، ایک مـیں علامہ سیوطی رحمـه الله  کا تعارف اور مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں، دوسرے مـیں علامہ ابوالطاہر فیروزآبادی رحمـه الله  موٴلف تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه  کا تعارف دو صفحات مـیں مرقوم ہے۔
                ان سب کے بعد ترجمہ کی ابتداء کی گئی ہے، سب سے پہلے علامہ سیوطی کی ”لباب النقول“ کا مقدمہ ہے، پھر ”تنویرالمقباس“ کا مقدمہ ہے، آخر الذکر مقدمہ مـیں حمد وصلوة کے بعد تفسیر کے سلسلہٴ سند کو بیـان کیـاگیـا ہے، اس کے بعد بسم اللہ کی تفسیر سے کتاب شروع ہوئی ہے، ترجمہ کی کتابت کمپیوٹر کے ذریعہ کی گئی ہے، تصحیح کے کافی جتن کے باوجود غلطیـاں رہ گئی ہیں، اس ترجمہ مـیں سورتوں کی فہرست تو دی گئی ہے، لیکن فہرستِ مضامـین نہیں ہے، اگر اس کے ساتھ فہرست مضامـین بھی ہوتی تو اس کا افادہ کثیراور آسان ہوتا؛ اس لیے کہ آج کل پوری پوری کتاب پڑھ ڈالنے کا مزاج علماء مـیں بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے تو عوام سے طرح اس کی امـید کی جائے؟ غرض یہ کہ اردو مـیں ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عوام ہی زیـادہ پڑھے گی، ان کے لیے فہرست ہوتی تو اور بھی اچھا ہوتا، ان سب کے باوجود ترجمہ کا کام ٹھیک ہے، طباعت اورکاغذ وغیرہ عمدہ ہے، ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔
ترجمہ مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمـه الله
                تفسیر ابن عباس رضي الله عنـه  کا دوسرا ترجمہ حضرت مولاناعابدالرحمن صاحب صدیقی رحمـه الله  کا ہے، اس ترجمہ مـیں بھی علامہ سیوطی رحمـه الله  کی ”لباب النقول في اسباب النزول“ شامل ہے، اس کی اشاعت دیوبند کے ”ادارہ درسِ قرآن“ نے کی ہے، ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے، اصل متن کی مکمل تصویر ترجمہ مـیں جھلکتی ہے،اردو کے محاورات اور روزمروں کے استعمال سے زبان کافی معیـاری بن گئی ہے، ثقیل اور مشکل الفاظ سے حددرجہ احتراز کیـا ہے، اس مـیں آیـات کے ترجمے کے لیے حضرت تھانوی رحمـه الله  کے ترجمہ کو منتخب کیـاگیـاہے، اس سے قاری کا اعتماد اور زیـادہ ہوجاتا ہے،آیـات کو قدرے جلی خط مـیں لکھا گیـا ہے، پھر اس کے نیچے لں کھینچ کر اردو ترجمہ قدرے باریک خط مـیں دیـاگیـا ہے، فقہ کی روشنی مـیں ترجمہ چھاپنے کا یہ طریقہ مستحسن اور بہتر بھی ہے۔
                اس ترجمہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم مفتیـانِ کرام کی نظر سے گذرا ہوا ہے، ایک حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط# عثمانی رحمة اللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب دامت برکاتہم ہیں، یہ دونوں حضرات ”دارالافتاء“ کے بڑے قابلِ اعتماد مفتی تھے، اوّل الذکر ابھی چند سال پہلے وفات پاگئے اورآخر الذکر اپنی کبرِ سنی کی وجہ سے استعفا دے کر اپنے گھر مـیں آرام فرما ہیں۔ حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط عثمانی رحمـه الله  اردو زبان وادب کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے،اور بہت بڑے شاعر تھے، ان کے تین شعری مجموعے زندگی مـیں ہی شائع ہوکر اہلِ ذوق سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں (راقم الحروف نے اپنے ”ایم ،فل“ کے مقالہ مـیں ان شعری مجموعوں کے تجزیـاتی مطالعہ کو بھی شامل کیـا ہے) موصو نے پورے ترجمہ کو بڑی گہرائی سے مطالعہ فرماکر ”عنوان بندی“ بھی کی ہے، جس سے اس ترجمہ کی افادیت مـیں چار چاند لگ گئے ہیں، ترجمہ کی تکمـیل کے بعد اشاعت کے موقع سے چھ اشعار مـیں ”ہدیہٴ عقیدت“ بھی پیش فرمایـا ہے،اور حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب دامت برکاتہم نے اس ترجمہ پر تقریظ رقم فرمائی ہے، اور مترجم نے ”عرضِ مترجم“ کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویزی تحریر شامل اشاعت فرمائی ہے، ان تمام خصوصیـات کی وجہ سے یہ ترجمہ حافظ محمد سعید احمد عاطف مدظلہُ کے ترجمہ سے بہتر معلوم ہوتا ہے، خود مترجم کو بھی اس کا اعتراف ہے، راقم الحروف کی سمجھ مـیں اب تک یہ بات نہ آسکی کہ اچھے ترجمہ کی موجودگی مـیں پھر الگ سے ترجمہ کی ضرورت ہی کیـا رہ گئی تھی کہ جناب حافظ عاطف صاحب نے زحمت فرمائی؟
طریقِ اشاعت
                اس ترجمہ کی اشاعت کے لیے ”ادارہ“ نے پہلے ممبر بننے کا اعلان دیـا، پھر ان ممبران کو قسطوں مـیں ترجمہ بھیجا گیـا، دیوبند سے عربی تفسیروں کے اردو ترجموں مـیں چند ایک کی اشاعت کا یہی طریقہ لکھا ہوا دیکھا گیـا،اور بعض وقت تاخیر وغیرہ کی معذرت بھی بعض قسطوں مـیں رقم نظر آئی۔
ترجمہ تفسیر طبری
                ”جامع البیـان في تفسیر القرآن“ جسے تفسیر طبری کہا جاتا ہے، تفاسیر مـیں سب سے قدیم ہے،اس کے موٴلف علامہ محمد بن جریر رحمة اللہ علیہ ہیں، ان کی کنیت ابوجعفر ہے، طبرستان کی طرف نسبت کی وجہ سے ”طبری“ کہلاتے ہیں، ان کی ولادت باسعادت ۲۲۴ھ اور وفات ۳۱۰ھ بتائی جاتی ہے، ”تفسیرابن جریر“ جیسی کوئی تفسیر اسلامـی کتب خانوں مـیں نہیں ہے، امت کے ہر طبقہ مـیں مقبول ومتداول ہے، شاید ہی کوئی مفسر ایسا ہو، جس نے اس تفسیر سے خوشہ چینی نہ کی ہو، اس تفسیر کو بالاتفاق مأخذ ومرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے، اس کی خصوصیـات درج ذیل ہیں:
                (الف) احادیث اور روایـات سے تفسیر مـیں بعد والی ساری تفسیروں کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
                (ب) آیـات کی تفسیر مـیں اقوالِ صحابہ رضي الله عنـهم سے بھرپور استفادہ کیـاگیـاہے۔
                (ج)        صحابہ رضي الله عنـهم ، تابعین رحمـهم الله  اور تبعِ تابعین رحمـهم الله  مـیں سے مفسرین کی آرا بھی نقل کی گئی ہیں۔
                (د)          غرائب القرآن مـیں خصوصی طور سے لغت وزبان، محاورات و اشعار سے استفادہ کیـاگیـا ہے۔
                (ھ)         متعدد مسائل مـیں ”اجماعِ امت“ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
                (و)          مفسر طبری چوں کہ خود مجتہد ہیں؛ اس لیے بہت سے مسائل مـیں اپنی رائے اور اپنا فیصلہ بھی انھوں نے رقم فرمایـا ہے، نیز دوسرے کے اقوال پر محاکمہ بھی کیـا ہے، یہ بات اور ہے کہ بعض مسائل مـیں اپنی رائے سے بعد کی تصانیف مـیں رجوع بھی کرلیـا ہے۔
                (ز)          یہ تفسیر ان کے علاوہ دوسرے علوم وفنون اوراسرار وحکم کا گنجینہ بھی ہے۔
                عربی زبان مـیں ہونے کی وجہ سے اردو داں حلقہ کے لیے ناقابل رسائی تھی؛ اس لیے حضرت مولانا ظہور الباری اعظمـی نے اس کا ترجمہ کیـا،اور دیوبند کے مکتبہ ”بیت الحکمت“ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل مـیںآ ئی، ممبرسازی کے ذریعہ قسط وار طبع ہوکر ممبران تک وی،پی پوسٹ کے ذریعہ پہنچتی رہی، چونتیس (۳۴) پینتیس (۳۵) قسطوں مـیں شائع کیے جانے کا اعلان دیـاگیـا تھا، مگر معلوم نہیں کہ ساری قسطیں مکمل ہوئیں یـا نہیں؟ تین پاروں کے چھ اجزاء مطبوع شکل مـیں نظرنواز ہوئے۔
                ترجمہ بہت عمدہ ہے، زبان وبیـان کے لحاظ سے کہیں کمـی محسوس نہ ہوئی، وقت کے بہت بڑے صاحب طرز ادیب مولانا عبدالماجد دریـابادی رحمة اللہ علیہ نے اپنے رسالے ہفتہ وار ”صدق جدید“ مـیں ترجمہ کی عمدگی کا اعتراف فرمایـا ہے، اس عظیم علمـی تفسیری سرمایہ کے اردو زبان مـیں منتقل ہونے سے ان کو بہت خوشی ہورہی تھی، تبصرہ نہایت حوصلہ افزا ہے، ۱۶/شوال ۱۳۸۴ھ کے ”صدق جدید“ کے فائل کو دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ دینیـات کے صدر حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی رحمـه الله  نے بھی ماہ نامہ ”برہان“ دہلی مـیں ”تفسیر ابن جریر طبری“ کے اردو ترجمہ کی بڑی تعریف فرمائی ہے، ان بزرگوں کے اعتماد کے بعد ترجمہ کی خوبی سےی طرح انکار نہیں کیـا جاسکتا، اور سب سے بہتر تجربہ اپنا مطالعہ ہے؛ چوں کہ یہ ترجمہ اردو خواں حلقہ کو پیش کیـا جارہا ہے؛ اس لیے ان کی رعایت مـیں نحو وصرف کے دقیق مسائل کا ترجمہ جان بوجھ کر چھوڑ دیـاگیـا ہے؛ تاکہ عوام کی گرفت سے باہر نہ ہوجائے؛ البتہ قراء ت اور زبان ولغت کی بحث کو تسہیل کے ساتھ ترجمہ مـیں پیش کیـا ہے، اسی طرح شروع مـیں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ : کتاب کے ابتدائی حصے (مقدمہ) کاترجمہ چھوڑدیـاگیـا ہے۔
                راقم الحروف کو یہ بات سمجھ مـیں نہ آئی کہ قراء ت اور زبان کی بحث کو جب تسہیل کے ساتھ بیـان کرنے کی شکل نکالی گئی تو پھر نحو وصرف کے مسائل کو کیوں چھوڑدیـاگیـا؛ کیـا ان کو تسہیل بیـانی کے ذریعہ ترجمہ مـیں شامل کرنا ممکن نہ تھا؟ یہ طے کرلینا کہ اس کو عوام ہی پڑھےخواص اور درمـیان کے اہل ذوق استفادہ نہیں کریں گے، محلِ نظر ہے؛ اس لیے ہر جزء کا سلیقہ سے ترجمہ ہونا ضروری تھا، اسی طرح ”مقدمہ“ کو ترجمہ سے مستثنیٰ کرنا بھی مناسب نہیں تھا، اس کو بھی تسہیل کے ساتھ ترجمہ مـیں شامل کیـا جاتا تو بہتر تھا، خیر! پسند اپنی اپنی ․․․
                اس تفسیر مـیں اچھی خاصی تعداد مـیں اسرائیلی روایـات؛ بلکہ ضعیف کے ساتھ موضوع روایـات بھی ہیں، ترجمہ کے ساتھ اگر ان کے درمـیان صحیح اور غلط، ثابت اور غیر ثابت کی نشاندہی کردی جاتی تو اور بھی بہتر تھا، جیساکہ ”ابن کثیر“ مـیں مفسر نے خود یہ کام کرکے اپنا اعتماد حاصل کیـا ہے، اللہ کرے! ”مردے از غیب نماید وکارے بہ کند“!
                غرض یہ کہ ترجمہ معیـاری اور سلیقہ مند ہے،اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مـیں قرآنی آیـات کے ترجمہ کے لیے سب سے قابل اعتماد ترجمہ قرآن کو منتخب کیـاگیـا ہے اور وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمـه الله  کا ترجمہ ہے۔

ترجمہ تفسیر کبیر
                امام فخرالدین رازیؒ (ولادت ۵۴۴ھ وفات ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کی اہمـیت سے اہلِ علم واقف ہیں، موصوف چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں، ان پر معقولات کا غلبہ تھا، تفسیر مـیں بھی وہی رنگ ہے، ان کی کنیت ابوعبداللہ اور نام محمد ہے، ان کے والد مرحوم ضیـاء الدین عمر خطیب سے معروف تھے، وہ بھی بہت بڑے عالم اور صاحبِ تصنیف تھے، تفسیر کبیر مـیں مسائل کو دلائل کے ساتھ لکھا گیـا ہے، آیت پر ہونے والے امکانی سوال قائم کرکے جواب تحریر کیـاگیـاہے، زبان بھی کافی عمدہ ہے، آٹھ نو سوسال کے بعد بھی مقبولیت مـیں ایک حرف کی کمـی نہیں آئی اور نہ اس کے مماثل کوئی دوسری تفسیر تصنیف کی جاسکی ہے، فقہی مسائل مـیں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔
                راقم الحروف کو اس کے دو نامکمل ترجمے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ مـیں نظر آئے:
                الف)      ایک ترجمہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، اسرائیلیؒ کا ہے، اس کا نام ’’سراجِ منیر‘‘ ہے۔
                ب)         دوسراترجمہ مولانا مرزا حیرت کی سرپرستی مـیں شائع ہوا ہے، مترجم کا علم نہ ہوسکا۔
سراجِ منیر ترجمہ اردو تفسیر کبیر
                جناب مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی ابن جناب سراج احمد صاحبؒ کا یہ ترجمہ اپنے وقت کا فصیح ترجمہ ہے، یہ بات اور ہے کہ ایک صدی کا عرصہ گذرجانے کی وجہ سے اس مـیں قدامت آگئی ہے، زبان مـیں فارسیت کا غلبہ ہے، آیـات کے ترجمے ہر سطر کے نیچے دیے گئے ہیں، ’’سوال وجواب‘‘ کو جلی خط مـیں اور قوسین کے درمـیان لکھا گیـا ہے، نیز ہر مسئلہ مـیں بحث کی تعداد کی ترقیم بھی کی گئی ہے، صرف پہلی جلد کے دو نسخے نظر نواز ہوسکے، جو  ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خلت لہا مَا کَسَبَتْ الخ‘‘  تک کی تفسیر کو شامل ہیں۔
                یہ ترجمہ امرت سر پنجاب کے ’’مطبع شمس الاسلام‘‘ سے شائع ہوا ہے، صفحات کی تعداد پانچ سو بتیس (۵۳۲) ہے، اس ترجمہ کی طباعت اشاعت کے جملہ اخراجات دوشخصوں نے برداشت کیے ہیں، یہ دونوں پنجاب کے کتب خانہ اسلامـیہ کے مالک ہیں، ان کے اسمائے گرامـی شیخ عبدالرحمن اور ماسٹر جھنڈے خان ہیں، تاریخ طباعت ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۹۰۰ء درج ہے، ہر صفحہ کا حاشیہ ’’الم‘‘  کے خوب صورت طُغرے سے آراستہ ہے۔
تفسیرکبیر کا ایک اور ترجمہ
                مولانا مرزا حیرت رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی وسرپرستی مـیں ایک ترجمہ شائع ہوا تھا، وہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے مـیں ہے؛ مگر مکمل نہیں ہے،اس کی صرف ایک جلد نظرنواز ہوئی، صفحات کی تعداد تین سو اٹھائیس (۳۲۸) ہے، ’’مطبع کرزن پریس دہلی‘‘ کے ذریعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تھا، غالباً یہ سب سے قدیم ترجمہ ہے، اس پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے، کاغذ بوسیدہ، کِرم خوردہ ہے، یہ نسخہ ناقابلِ استفادہ ہے؛ ہاں! اگر جدید ٹکنالوجی سے اس کے سارے صفحات الگ الگ کیے جائیں اور پھر اس کی فوٹوکاپی کرائی جائے، تو دوسروں کے لیے استفادہ ممکن ہوسکے گا۔ یہ درمـیانی تقطیع پر مطبوع ہے، کتب خانہ دارالعلوم دیوبند مـیں ’’ترتیبِ کتب اردو تفاسیر‘‘ مـیں اس کا نمبر ۱۷۹ ہے۔
تفسیر بغوی
                ’’معالم التنزیل‘‘ علامہ بغویؒ کی ہے، اس کو ہندوستانی علماء اپنے عرف مـیں ’’تفسیرِ بغوی‘‘ کہتے ہیں، علامہ بغوی مصر کے رہنے والے ہیں اور مسلکاً شافعی ہیں، ان کی کنیت ’’ابومحمد‘‘ اور نام حسین بن مسعود ہے، ۵۱۶ھ مـیںان کی وفات ہوئی، علمِ لغت، علمِ قرأت کے علاوہ فقہ مـیں بھی نمایـاں مقام رکھتے ہیں، انھوں نے اپنی تفسیر مـیں عہدِ رسالت سے لے کر پانچویں صدی تک کے اکابرِ امت کے ارشادات سے استفادہ کیـا ہے، احادیث،آثارِ صحابہ وتابعین سے یہ تفسیر بھری پڑی ہے، شانِ نزول بھی روایـات کے حوالوں سے بیـان فرماتے ہیں، اس تفسیر مـیں تفسیرِ خازن اور تفسیرِ ابن کثیر کے حوالے بھی خوب ملتے ہیں؛ البتہ روایـات کے ضمن مـیں اسرائیلیـات بھی درآئی ہیں، علامہ بغویؒ تحقیقِ لغات مـیںاپنا ایک مقام رکھتے ہیں، اس تفسیر مـیں اس کے مظاہر ملتے ہیں، اسی طرح فقہی مسالک اور مسائل کو بھی بیـان کیـاہے؛ چوںکہ مختلف قراء توں کی وجہ سے تفسیر کے معانی ومفاہیم مـیں وسعت پیدا ہوتی ہے؛ اس لیے موصوف نے قراء ت کی تفصیلات بھی خوب بیـان فرمائی ہیں؛ لیکن یہ سب عربی زبان مـیں ہے، اردو خواں حلقہ کے لیے استفادہ مشکل تھا؛ اس لیے ایک بڑے عالمِ دین، زبان وادب کے شہسوار، نثر کے ساتھ نظم پر عظیم تر قدرت رکھنے والی شخصیت نے اس تفسیر کو اردو کا جامہ پہنانا شروع کیـا، مـیری مراد ’’ہدایتُ القرآن‘‘ کے اولین مؤلف حضرت مولانا محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو علمـی اور ادبی حلقوں مـیں ’’کاشف الہاشمـی‘‘ سے جانے جاتے ہیں۔
                ترجمہ کی زبان بہت عمدہ اور ادب کی چاشنی سے لبریز ہے، آیـات اور ترجمۂ قرآن کے درمـیان دو خط کھینچے ہوئے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’فارسی ترجمۂ قرآن‘‘ کو اس مـیں شامل کیـاگیـاہے، اس ترجمہ کے بارے مـیں تو کوئی کلام نہیں، یقینا وہ معیـاری ہے، اہلِ علم کے نزدیک قابلِ اعتماد ہے؛ مگر اس کی وجہ سے خالص اردو حلقوں مـیں ترجمۂ قرآن اجنبی رہے گا، پہلے تو فارسی زبان کا کچھ کچھ رواج تھا، آج تو اردو داں طبقہ فارسی جانتا ہی نہیں ہے، محض علما اور مدارس کے افراد ہی اس زبان سے واقف ہیں؛ اس لیے فارسی ترجمہ کا انتخاب راقم الحروف کے نزدیک زیـادہ مناسب نہیں؛ اس وجہ سے بھی کہ عربی تفسیر کو اردو مـیں ترجمہ کرنے کا مقصد عوام اور اردو جاننے والوں کو قرآن سے قریب کرنا ہے نہ کہ خواص اور فارسی جاننے والے علماء کو؛ بہرحال! مترجم نے ترجمۂ تفسیر بغویؒ مـیںاپنی پوری مہارت وصلاحیت کو بروئے کار لایـا ہے، ترجمہ کے ساتھ حواشی بھی بڑھائے ہیں، تشریحات بھی کی ہیں، عناوین کا اضافہ بھی کیـاہے، جس سے ترجمہ کی افادیت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ایک نایـاب ترجمہ
                حضرت کاشف الہاشمـیؒ سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحبؒ عثمانی نے تفسیر بغوی کا اردو زبان مـیں ترجمہ کیـاتھا، وہ محض ترجمہ نہیں تھا؛ بلکہ اس مـیں مضامـین کی تلخیص وتسہیل بھی کی گئی تھی، اس کانام  ’’منحۃ الجلیل في بیـان ما في معالم التنزیل‘‘ رکھا تھا، یہ ترجمہ اہلِ علم کے درمـیان بہت مقبول ہوا؛ مگر اب وہ معدوم ونایـاب ہے، اس کی تاریخ ۱۳۱۵ھ بتائی جاتی ہے۔
                غرض یہ کہ کاشف الہاشمـی مرحوم کے ترجمہ تک ہی راقم الحروف کی رسائی ہوسکی، اس ترجمہ کے شروع مـیں تین صفحات پر مشتمل ناشر کی تحریر ہے،اس مـیں ترجمہ کی اہمـیت وافادیت اور ضرورت بیـان کی گئی ہے، اسی کے ساتھ ممبربناکر قسطوں پر اس کی اشاعت کا طریقہ بھی رقم کیـا ہوا ہے، یہ طریقہ متعدد تفسیروں کے ترجمے کے لیے دیوبند کے کتب خانوں نے اپنایـاتھا، اس کے بعد ’’عرضِ مترجم‘‘ ہے۔
                حضرت کاشف الہاشمـی مرحوم کے ترجمہ کے ابتدائی صفحات مـیں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ احادیث کے ترجمہ مـیںسند حذف کردی گئی ہے، جب یہ ترجمہ چھپا تو اہلِ علم نے اسے خوب سراہا،اس پر تین عبقری شخصیـات کی تقریظ بھی ہے؛ جنھوں نے ترجمہ کی عمدگی کو دادِ تحسین سے نوازا ہے، زبان وبیـان کی سلاست وروانی اور دل نشینی کا بڑے اچھے انداز مـیںاعتراف کیـا ہے، وہ شخصیـات درج ذیل ہیں:
                الف) حضرت مولانا سعیداحمد اکبر آبادیؒ مدیر ماہ نامہ ’’برہان‘‘ دہلی، وصدر شعبۂ اسلامـیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔
                ب) حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہارویؒ، سابق ایم، پی، وناظم جمعیۃ علمائے ہند۔
                ج) حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانیؒ، بانی ندوۃ المصنّفین دہلی، ورکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند۔
                تفسیر بغوی کی اشاعت دیوبند کے مکتبہ ’’ندوۃ الفرقان‘‘ کے ذریعہ عمل مـیں آئی؛ لیکن افسوس اس پر ہے کہ مـیری رسائی ’’صرف پہلی جلد‘‘ تک ہوسکی، وہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ مـیںموجود ہے یہ چھیـانوے (۹۶) صفحات کا ترجمہ  فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ الخ: تک کی تفسیر کو شامل ہے، بازار مـیں تلاشِ بسیـار کے باوجود مل نہ سکا، جب مترجم کے فرزندِ ارجمند جناب مولوی محمد سفیـان صاحب سلّمہ سے ربط کیـا تو انھوں نے بتایـا کہ اس کی ایک ہی جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوسکی تھی؛ بقیہ ترجمہ شائع نہ ہوسکا اور نہ ہی اس کا مسودہ دریـافت ہوسکا ہے۔
                ضرورت ہے کہ کوئی صاحبِ قلم، اہلِ علم اس طرف متوجہ ہو اوراس ترجمہ کو ایک نہج متعین کرکے پایۂ تکمـیل تک پہنچائے، وباللہ التوفیق!
تفسیر ابن کثیر
                حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (۷۰۰ھ تا ۷۷۴ھ) کی ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ اہلِ علم کے نزدیک سب سے قابلِ اعتماد تفسیر ہے، اس کو عرف مـیںلوگ تفسیر ابن کثیر ہی کہتے ہیں، ان کا نام اسماعیل، کنیت ابوالفداء اور لقب عماد الدین ہے، تفسیر، حدیث، تاریخ مـیںاہلِ علم ان پر اعتماد کرتے ہیں، اساطین علمائے امت نے ان کی علمـی قدرومنزلت کا کھل کر اعتراف کیـا ہے اور تصانیف کو بڑے اونچے الفاظ مـیں خراجِ تحسین پیش کیـاہے، موصوف کی زندگی مـیں ہی چہار دانگِ عالم مـیں تصانیف پہنچ چکی تھیں، قرآنِ پاک کی تفسیر کے سلسلہ مـیں علامہ سیوطیؒ نے فرمایـا:  لَمْ یُؤلَّف علی نَمْطِہٖ مثلُہٗ (اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی) اور یہ واقعہ ہے کہ آج بھی اسلامـی کتب خانہ مـیںکوئی تفسیر ایسی نہیں ملتی،جو حافظ ابن کثیر کی تفسیر کا مقابلہ کرسکے اور محدث کوثریؒ نے فرمایـا:  ہُو مِنْ أفْیَدِ کُتُبِ التَّفْسِیْرِ بالروایۃ (یعنی تفسیر ابن کثیر، تفسیر بالروایہ مـیں سب سے زیـادہ مفید کتاب ہے)
                مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
                ’’مصنف اس کتاب مـیں سب سے پہلے ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر ایک آیت کی تفسیر، اُس مضمون کی دوسری آیـات کی روشنی مـیںکرتے ہیں، پھر محدثین کی مشہور کتابوں سے اس کے بارے مـیں جواحادیث مروی ہیں، ان کو نقل کرکے ان کی اسانید ورجال پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد آثارِ صحابہؓ وتابعین کو لاتے ہیں۔
                حافظ ابن کثیرؒ کا یہ سب سے بڑا علمـی کارنامہ ہے کہ انھوں نے تفسیر اور تاریخ سے اسرائیلیـات کو بہت کچھ چھانٹ کر علاحدہ کردیـاہے اور سچ یہ ہے کہ اس اہم کام کے لیے ان جیسے بالغ نظر محدث ہی کی ضرورت تھی، یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر ان کی علمـی خدمات مـیں صرف یہی ایک خدمت ہوتی، تب بھی وہ اُن کے فخر کے لیے کافی تھی۔۔۔ الحمدللہ! یہ کتاب متداول ہے اور بارہا طبع ہوچکی ہے۔‘‘ (از مقالہ: درون ابتدائے ترجمہ تفسیرابن کثیر ص۹)
                ترجمہ کے شروع مـیں مولانا محمد عبدالرشید نعمانیؒ کا نوصفحات پر مشتمل ایک مقالہ شاملِ اشاعت ہے، یہ نہایت ہی محقق ومدلل ہے، اس کی تیـاری مـیں تراجم ورجال کی ایک درجن کتابوں سے استفادہ کیـاگیـاہے، ہر ہر بات کی تحقیق مـیں بڑی عرق ریزی کی گئی ہے، اہلِ علم کے لیے بہت مفید ہے۔
تفسیر ابن کثیر کے دو اردو ترجمے
                تفسیر ابن کثیر کے دو اردو ترجمے تک راقم الحروف کی رسائی ہوسکی ہے:
                الف) ایک ترجمہ ’’اعتقاد پبلشنگ ہائوس نئی دہلی‘‘ نے شائع کیـا ہے، یہ ترجمہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، جناب اعتقاد حسین صدیقی نے عرض ناشر مـیں یہ وضاحت کی ہے کہ ’’یہ ترجمہ بار بار لیتھوپر چھپتارہا؛ مگر طباعت کے صاف نہ ہونے کی وجہ سے قارئین کو ناپسند تھا، مـیں نے ’’نورمحمد کارخانۂ تجارت کراچی‘‘ کے نسخہ سے فوٹولے کر اس کتاب کو آفسیٹ پر چھاپا ہے؛ تاکہ قارئین کے نزدیک یہ طباعت شرف مقبولیت حاصل کرسکے‘‘ (تلخیص:ص۲)
                اس ترجمہ مـیںکتابت ہاتھ کی ہے اور اچھی ہے،  اس نسخہ مـیں قرآن پاک کی آیـات اورترجمہ کے درمـیان لں کھینچی ہوئی ہیں، ’’ترجمۂ قرآن‘‘ جناب مولانا محمد جوناگڈھیؒ کا ہے جو مسلکاً اہل حدیث ہیں؛ البتہ یہ عقدہ مـیرے لیے اب تک لاینحل ہے کہ تفسیر کے مترجمہیں؟ بعض لوگوں نے حضرت مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کو مترجم سمجھ لیـاہے؛ حالاںکہ اس ترجمہ کی پہلی جلد کے شروع مـیں صرف ان کا ایک مقالہ ہے، جس کے شروع مـیں مقالہ نگار کی حیثیت سے نام بھی لکھا ہواہے، ترجمہ کو پڑھ کر مجھ ناچیز کو یہ یقین ہوگیـا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا نعمانیؒ کا نہیں ہوسکتا، مثلاً (ج۱،ص۱۳۲ پر)  ’’والنجم والشجر الخ‘‘ مـیں نجم کا ترجمہ ’’ستارہ‘‘ کیـاہے؛ حالاںکہ محققین کے نزدیک اس جگہ ’’نجم‘‘ کا ترجمہ ’’بے تنا درخت‘‘ ہے، جیساکہ حضرت تھانویؒ کے ترجمۂ قرآن مـیں بھی ہے، تفصیل کا موقع نہیں؛ اس لیے ایک ہی مثال پر اکتفا کیـا جاتا ہے، بعض لوگوں نے مولانا محمدجوناگڈھی کا ترجمہ سمجھا ہے، اس کی بھی مـیرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے مترجم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اس ترجمہ کے پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا مشورہ دینا سمجھ مـیں نہیں آتا؛ البتہ زبان وبیـان کا پیرایہ ٹھیک ہے۔
                اس ترجمہ مـیں ہرجلد کے شروع مـیں مضامـین کی مفصل فہرست دی گئی ہے،جس سے اپنے مقصد کے مضامـین کا مطالعہ آسان ہوگیـا ہے، ہر صفحہ مـیںدو کالم بنائے گئے ہیں؛ تاکہ اردو قارئین کو زحمت نہ ہو، ہندوپاک مـیںیہ ترجمہ بھی اصل کی طرح متداول ہے؛ لیکنی اہلِ علم نے اس پر اعتماد کا اظہار کیـا ہو،اس کا حوالہ راقم الحروف کے پاس نہیں ہے۔
                ب)         تفسیر ابن کثیر کا دوسرا ترجمہ دیوبند کے ’’مکتبہ فیض القرآن‘‘ نے پانچ جلدوں مـیں شائع کیـا ہے، یہ ترجمہ مشہور ومعروف عالمِ دین وانشاپرداز حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمـیریؒ، شیخ الحدیث دارالعلوم وقف  دیوبند کا ہے، یہ ترجمہ اپنی گوناگوں خصوصیت کی وجہ سے پہلے ترجمہ کی بہ نسبت بہتر اور قابلِ اعتماد ہے، حضرت مولانا مرحوم نے اس پر حواشی بھی تحریر فرمائے ہیں، ظاہر ہے کہ حافظ ابن کثیرؒ شافعی مسلک کے ہیں، انھوںنے تفسیر مـیں مسائل ودلائل اپنے مسلک کے مطابق لکھے ہیں؛ ان مقامات پر حنفی قاری کا تشویش مـیں مبتلا ہوجانا بدیہی تھا؛ اس لیے مولانا کشمـیری مرحوم نے ان سارے مقامات پر عمدہ حواشی تحریر فرمائے، مزید علوم ومعارف سے حواشی کا دامن لبریز ہے، اس ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مـیںآیـات کا ترجمہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کا ہے، جس کی صحت پر اردو زبان وادب کے ساتھ قرآنیـات سے دلچسپی رکھنے والے سارے علمائے کرام کا اتفاق ہے، اسی طرح ’’تفسیر تھانویؒ‘‘ کے عنوان کے تحت مولانا کشمـیری مرحوم نے ’’بیـان القرآن‘‘ کے مضامـین کا اختصار پیش فرمایـا ہے۔
                پہلے یہ ترجمہ بھی ہاتھ کی کتابت اور لیتھوکی طباعت سے مزین تھا، اب مزید عمدگی پیدا کرنے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعہ کتابت کرائی گئی ہے اور طباعت آفسیٹ کی ہے (عرض ناشر) مولانا کشمـیری مرحوم نے کئی عربی تفسیروں کے اردو ترجمے شروع کیے  تھے؛ مگر یہی ایک ترجمہ ایسا ہے جو مکمل ہوسکا، بقیہ سارے ترجمے ادھورے ہی رہ گئے؛ یہاں تک کہ مرحوم راہیِ ملکِ عدم ہوگئے، اللہ تعالیٰ بال بال ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس مـیں جگہ عنایت فرمائیں! (آمـین)
                پانچ صدی سے یہ تفسیر امت مـیں متداول ومقبول ہے، یہ تفسیر نہیں؛ بلکہ قرآن پاک کا ’’عربی ترجمہ‘‘ ہے،اس مـیں تفسیری کلمات قرآنِ پاک کے الفاظ کے برابر ہیں، کہیں کہیں چند الفاظ یـا جملے زائد ہیں، اس تفسیر کو پڑھنے پڑھانے اور استفادہ کرنے والے جانتے ہیں کہ شروع سے ’’سورئہ مدثر‘‘ تک ایسا ہی ہے، اس کے بعد تفسیر کے الفاظ آیـات سے کچھ زائد ہیں۔
                علامہ سیوطیؒ (۸۴۹ھ تا ۹۱۱ھ) اور علامہ محلی (۷۹۱ھ تا ۸۶۴ھ) دونوں کا لقب؛ چوںکہ جلال الدین ہے؛ اس لیے ان کی تفسیر، ’’تفسیر الجلالین‘‘ سے موسوم ہوئی، علامہ سیوطیؒ کا نام عبدالرحمان ہے، ان کو دولاکھ احادیث یـاد تھیں، متعدد فنون پر دست رس حاصل تھی،  ’’الاتقان في علوم القرآن، لباب النقول في أسباب النزول‘‘ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں، یہ علامہ محلیؒ کے شاگرد ہیں، جن کا نام محمد بن احمد بن محمد ہے، ان کی مشہور تصانیف مـیں سرفہرست ’’جمع الجوامع‘‘ ہے، علامہ محلیؒ نے ’’سورئہ کہف‘‘ سے اخیر قرآن تک کی تفسیر لکھی اور شروع سے ’’سورئہ فاتحہ‘‘ کی تفسیر لکھی تھی کہ فرشتۂ اجل آدھمکا، بالآخر علامہ سیوطیؒ نے اپنے استاذِ محترم کے نہج کو باقی رکھتے ہوئے ہی، تفسیر پوری کی، کوئی عالم محض مطالعہ کی بنیـاد پر دونوں کے درمـیان خطِ امتیـاز نہیں کھینچ سکتا، دونوں شخصیتوں کے سامنے خصوصیت کے ساتھ شیخ موفق الدینؒ کی دو تفسیریں رہی ہیں، ایک کا نام ’’تفسیر کبیر‘‘ ہے، جسے اہلِ علم ’’تبصرہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے کا نام ’’تفسیر صغیر‘‘ ہے، جسے ’’تلخیص‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے علاوہ تفسیر وجیز، بیضاوی اور ابن کثیر سے بھی استفادہ کیـاگیـاہے۔
جلالین کی اردو شروحات
                راقم الحروف کے علم واطلاع مـیں اردو زبان مـیں اس کے تین ترجمے اور شرحیں ہیں:
                ’’کمالین‘‘ نام کی جلالین کی ایک شرح عربی زبان مـیں بھی ہے،اس کی زیـارت حیدرآباد کے ’’سالارجنگ مـیوزیم‘‘ مـیں ہوئی، شیشے کے اوپر سے ہی کھلے ہوئے ورق کو دیکھ سکا،یہ شرح اردو زبان مـیںہے، اس کے ’’تیس اجزائ‘‘ ہیں، ہر پارے کوالگ جزء مـیں لکھا گیـا ہے، سولہ، سترہ اور اٹھارہ ویں پارے کاترجمہ اور اس کی تشریح حضرت مولانا انظرشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، بقیہ سارے اجزاء حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذ تفسیر دارالعلوم دیوبند نے لکھے ہیں، یہ شرح مدارس کے طلبہ کے درمـیان متعارف ہے،اس کی اشاعت ’’مکتبہ تھانوی دیوبند‘‘ کے توسط سے عمل مـیں آئی ہے، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دارالعلوم کے قدیم اساتذہ مـیں سے تھے، ان کی بھی متعدد علمـی تصانیف ہیں، جو اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
                زبان و بیـان کے لحاظ سےی طرح کی کمـی نہیں ہے، جلالین کے حل کرنے اور اردو سے سمجھنے والے علماء وطلبہ کے لیے معاون ہے، طباعت بہت عمدہ نہیں ہے، اب تک قدیم پلیٹوں پر ہی چھاپی جارہی ہے۔
                راقم الحروف کو دارالعلوم حیدرآباد مـیں چھ سال مسلسل جلالین شریف پڑھانے کا موقع نصیب ہوا اور الحمدللہ یکے بعد دیگرے دونوں حصوں کے پڑھانے کی توفیق ملی، اس دوران تین مشکل مقامات پر ’’کمالین‘‘ کو دیکھنے کی نوبت آئی، ان مـیں سے دو مقام پر عبارت کا ترجمہ بھی نظر نہیں آیـا اور ایک مقام پر ترجمہ تو تھا؛ مگر قاری کی مشکل حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی، اس کے بعد اور اس سے پہلے اس کو دیکھنے کا موقع مـیسر نہ آیـا، بعض ایسی شروحات جو محض تجارتی نقطئہ نظر سے بعض تجار لکھواتے ہیں، ان مـیں لکھنے والوں کو بعض جگہوں پر جلدی کی وجہ سے تحقیق کا موقع نہیں ملتا اور ویسے ہی مسودہ کاتب کے پاس چلاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف فرمائیں! غرض یہ کہ ’’کمالین شرح جلالین‘‘ بھی ان شرحوں مـیں سے ہے، جن کوی بالغ نظر عالم کی تحقیق کے بعد ہی اعتبار حاصل ہوسکتا ہے۔
فیض الامامـین شرح اردو تفسیر الجلالین
                جلالین کی مقبولیت اور اس کے درسِ نظامـی کے نصاب مـیں داخل ہنے کی وجہ سے متعدد علماء نے اردو زبان مـیں اس کی شرح لکھی ہے، ان مـیں ایک اور عظیم شخصیت ہیں، جنھوں نے بخاری، مسلم اور دیگر عربی درسی کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں، ان کے نوٹس شائع کیے ہیں، مـیری مراد مظاہرعلوم سہارن پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عثمان غنی ہیں، ان کا قلم بہت عمدہ ہے، طلبۂ کرام کے نزدیک ان کی شرحیں پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں، موصوف نے جلالین کی اردو شرح ’’فیض الامامـین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی، یہ چھ جلدوں مـیں ہے، مکتبہ فیض القرآن دیوبند سے چھپی ہے، دیوبند اور سہارن پور کے تجارتی کتب خانوں مـیںدست یـاب ہے، موصوف نے ایک بار خود سنایـا تھا کہ مـیں جس کتاب کو بھی پڑھاتا ہوں،اس کی شرح لکھ ڈالتا ہوں، بعض کتب خانہ والوں نے مـیری شرح کو دوسرے کے نام سے بھی چھاپ دیـا ہے، ایسا ہی اتفاق ایک بار بنگلہ دیش مـیںہوا، ایک کتاب مـیں نے دیکھی، مجھے اچھی لگی؛ لیکن پڑھنے کے بعد مـیری اپنی تحریر محسوس ہوئی تو مـیں نے غور سے دیکھا تو حواشی پر مـیرے نام کے مختصرات (ع،غ چلمل) لکھے ہوئے تھے، چلمل مـیرا وطن ہے، بہار کے بیگوسرائے ضلع مـیںہے، تب مجھے نام بدل کر چھاپنے والوں پر بہت افسوس اور تعجب ہوا، راقم الحروف کو افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑرہا ہے کہ مولانا مرحوم آج بہ تاریخ ۸؍۲؍۱۴۳۲ھ مطابق ۱۳؍۱؍۲۰۱۱ء رات چار بجے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے؛ غرض یہ کہ ’’فیض الامامـین‘‘ مـیںکتاب کو اچھی طرح حل کیـاگیـا ہے، واللہ اعلم۔
                ’’جمالین‘‘ حضرت الاستاذ مولانا محمد جمال ابن حکیم شیخ سعدی صاحب بلندشہری دامت برکاتہم (ولادت ۱۹۳۸ء) استاذِ فقہ وتفسیر دارالعلوم دیوبند کی ہے، یہ مـیرٹھ کے رہنے والے ہیں، ابتدائی تعلیم کو رانہ ضلع بلندشہر اور مفتاح العلوم جلال آباد مـیں حاصل کی، پنجم عربی سے دارالعلوم دیوبند مـیں پڑھا، مولانا مدنیؒ اور علامہ بلیـاویؒ سےبِ فیض کیـا، ۵۶-۱۹۵۵ء مـیں فراغت ہوئی، طب کے ساتھ فنون کی تعلیم حاصل کی، ۱۹۸۶ء مـیں وسطیٰ (ب) مـیں تقرر ہوا، اس لحاظ سے دارالعلوم دیوبند مـیںپچیس سال سے استاذ ہیں، موصوف کی متعدد شرحیں منصہ شہود پر آچکی ہیں، ہدایہ، حسامـی اور مقاماتِ حریری کی شرحیں طبع ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں، تقریباً سترہ (۱۷) سال سے جلالین شریف کا درس دے رہے ہیں، ’’قرۃ العینین‘‘ کے نام سے جلالین کا اردو ترجمہ فرمایـا، اس کے بعد اپنے درسی افادات کو خود سے مرتب فرماکر ’’جمالین‘‘ کے نام سے ’’مکتبۂ جمال‘‘ سے شائع فرمایـا ہے، چھ جلدوں مـیں پوری تفسیر کا احاطہ کیـاگیـاہے؛ چوںکہ علامہ محلیؒ نے بعد کے پاروں کی تفسیر پہلے فرمائی تھی؛ اس لیے آپ نے بھی پہلے اخیر کی تین جلدیں شائع کیں، شروع کی تین جلدوں کی تصنیف، کتابت، طباعت اور اشاعت بعد مـیں عمل مـیں آئی ہیں۔
                شروع مـیں فہرستِ مضامـین مفصل ہے، یہ شرح جملہ شروحات مـیں نمایـاں حیثیت کی حامل ہے، یہ طلبہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے؛ اس لیے مشکل مفردات کی لغوی وصرفی تحقیق کے ساتھ مشکل جملوں کی ترکیب بھی کی گئی ہے، علامہ سیوطیؒ اور محلیؒ کے تفسیری الفاظ وتعبیرات کے مقاصد اور فوائدِ قیود کو اچھی طرح واضح کیـاگیـاہے، مثلاً یہ کہ کہاں محض لغوی ترجمہ بتانا مقصد ہے؟ کہاں ابہام کی وضاحت ہے؟ کہاں اجمال کی تفصیل ہے؟ کہاں معنی مرادی کی تعیین کاارادہ ہے؟ اور کہاں بیـانِ مذہب ہے؟ کہاں ترکیبِ نحوی، قرأت اور تعلیل بتانا مقصد ہے؟ غرض یہ کہ عبارت کے حل کرنے مـیںکوئی دقیقہ چھوڑا نہیں گیـا ہے، جہاں فقہی مسائل ودلائل بیـان کیے ہیں، ان مقامات پر شارح نے حنفی نقطئہ نظر کو بھی دلائل سے واضح فرمایـاہے، ’’ارض القرآن‘‘ کے نقشوں کو بھی افادہ کے لیے شاملِ اشاعت کیـاگیـاہے، اکابر علماء نے اس شرح کو خوب سرایـا ہے، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث، زبان وقلم کے بے تاج بادشاہِ نظم ونثر کے معروف قلم کار حضرت الاستاذ مولانا ریـاست علی ظفرؔ بجنوری دامت برکاتہم نے اس پر قیمتی تقریظ تحریر فرمائی ہے، صفحہ نمبر بارہ(۱۲) تا اکیس (۲۱) پر شارح نے تفصیلی مقدمہ تحریر فرمایـا ہے، اس مـیں شیخین کاتعارف، وحی کی ضرورت واہمـیت، اقسام، مکی، مدنی سورتوں کی تعریف، نزولِ قرآن اور حفاظتِ قرآن کی تاریخ بیـان کی ہے، قرآنِ پاک سے متعلق اعداد وشمار مثلاً سورہ، رکوع، آیـات، مکی، مدنی، بصری، شامـی آیـات اور کلماتِ قرآنی کی تعداد تحریر فرمائی ہے، ساتھ ہی تفسیر کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات بھی لکھی ہیں، یعنی تفسیر پڑھنے والے ابتدائی طالب علموں کو جتنی معلومات ضروری ہیں، اُن کو تفصیل سے جمع فرمادیـا ہے، تفسیر وتشریح کا انداز بہتر ہے، ہربات کو نئے عنوان کے تحت لکھا ہے، آیـات اور ان کے ترجمے پر خط کھینچ دیـا ہے؛ غرض یہ کہ جلالین کی شرح مـیںجتنی جمال آفرینی موصوف سے ممکن تھی سب بروئے کار لائی گئی ہے۔
تفسیر بیضاوی
                درس نظامـی مـیںجلالین کی طرح ’’بیضاوی‘‘ بھی ہمـیشہ سے مقبول رہی ہے، مشکوٰۃ المصابیح کے ساتھ اس کا ابتدائی حصہ اب بھی مدارس مـیں نصاب کا جزء ہے اور دارالعلوم دیوبند مـیں دورئہ حدیث شریف کے بعد ’’تکمـیل تفسیر‘‘ مـیں بیضاوی کا ایک معتدبہ حصہ پڑھایـا جاتا ہے، امام فخرالدین رازیؒ کی تفسیر کے بعد مشکل تفسیروں مـیںاس کا شمار ہوتا ہے، اس مـیںنحو، صرف، کلام اور قراء ت وغیرہ کے مباحث کو بھی بیـان کرتے ہیں؛ اس لیے اس کے لیے اردو شرح کی ضرورت ایک مسلم بدیہی حقیقت ہوگئی۔
                اس تفسیر کا مکمل ترجمہ اردو زبان مـیں ہوا ہو، اس کا علم تو مجھے نہیں؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ جتنا حصہ داخلِ نصاب رہا ہے؛ اس کی مختلف اوقات مـیں مختلف انداز کی شرحیں شائع ہوئی ہیں، مـیرے علم مـیں اس کی دو شرحیں ہیں:
                (الف) التقریر الحاوي في حل تفسیر البیضاوي۔
                (ب)       تقریر شاہی۔۔۔ یہ دونوں مستقل شرحیں نہیں ہیں؛ بلکہ درسی افادات ہیں۔
التقریر الحاوی
                یہ حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے درسی افادات ہیں، مکتبہ فخریہ دیوبند نے اسے شائع کیـاہے، اس کی تین جلدوں کے دیکھنے کا شرف حاصل ہوسکا ہے، مرتب کی حیثیت سے پہلی اور دوسری جلد پر دو نام ہیں:
                (الف) مولانا شکیل احمد صاحب صدرمدرس مدرسہ محمودیہ سروٹ، مظفرنگر(یوپی)
                (ب)       مولانا جمـیل احمد سہارن پوری۔
                اور تیسری جلد پر صرف پہلا نام ہے، پہلی جلد کے ابتدائی دس صفحات مـیں ’’مقدمہ‘‘ ہے، اس کے بعد اصل شرح شروع ہوتی ہے، پہلے عبارت، پھر ترجمہ اس کے بعد تشریح ہے، تیسری جلد  ہُو الذی خلق لکم ما في الأرض جمـیعاً الخ  تک کے ترجمہ وتشریح پر مشتمل ہے، اس پر حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمـیؒ کا ’’پیش لفظ‘‘ بھی ہے،اس مـیں شرح کی خوبیوں پر گفتگو کی گئی ہے، زبان وبیـان کے لحاظ سے بھی کوئی سقم نظر نہ آیـا، اس مـیں انھیں افادات کو شائع کیـاگیـا ہے جو حضرت مولانا شکیل احمد صاحب سیتاپوری مدظلہٗ نے دورانِ درس ضبطِ تحریر مـیں لائے تھے۔ (مقالاتِ حبیب۱؍۸۰)
تقریر شاہی
                حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمـیری رحمۃ اللہ علیہ کے درسی افادات کو اس مـیں جمع کیـاگیـا ہے، یہ صرف سورئہ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے، اس کی زیـارت ۱۹۹۳ء یـا ۱۹۹۴ء مـیں مدرسہ ریـاض العلوم گورینی، جون پور (یوپی) مـیںہوئی تھی، دیوبند مـیںاسے نہیں دیکھ سکا، تجارتی کتب خانوں مـیں نایـاب ہے۔
                ’’مدارک التنزیل‘‘ علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی کی تفسیر ہے، یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایۂ بیـان کی دلکشی مـیں منفرد ہے، اس مـیںگمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے، حافظ ابن کثیرؒ کی تفسیر کی طرح اسرائیلیـات سے بالکل پاک ہے، اہلِ علم نے ہمـیشہ اسے پذیرائی بخشی ہے، پہلے ہندوپاک کے مدارس مـیں داخلِ نصاب تھی،اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مـیں فقہی مسائل ودلائل حنفی نقطئہ نظر سے بیـان ہوئے ہیں، تفسیر اور علمِ تفسیر سے بے اعتنائی کے دور مـیں جس طرح دوسری تفسیریں بے توجہی کا شکار ہوئی ہیں، اسی طرح یہ تفسیر بھی ہوئی، فإلی اللہ المشتکٰی!
                مذکورہ بالا خصوصیـات کی وجہ سے حضرت مولانا انظرشاہ کشمـیریؒ نے اس کا ترجمہ شروع فرمایـا اور بڑے ہی آب وتاب سے دیوبند کے ’’ادارہ فکرِ اسلامـی‘‘ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل مـیں آئی، ترجمہ کا اسلوب نہایت عمدہ اور زبان شیریں ہے، قاری کو ترجمہ پن کا بالکل احساس نہیںہوتا، ’’فُٹ نوٹ‘‘ مـیں بڑی مفید باتیں بیـان کی گئی ہیں، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مـیںامام جصاص اور ابن العربی رحمہما اللہ کی ’’احکام القرآن‘‘ سے مترجم نے جزوی احکام ومسائل بیـان فرمائے ہیں، اس طرح ہر رکوع کے بعد ’’قرآن کا پیغام‘‘ کے عنوان کے تحت تفسیر کا خلاصہ تحریر فرمایـا ہے، آیـات اور ترجمہ مـیں خط کھینچ کر فصل پیدا کردیـاگیـا ہے، اہلِ علم کے نزدیک کتابتِ ترجمہ کا یہ طرز بہترہے، ترجمہ مـیں حضرت تھانویؒ کے ترجمہ کو منتخب فرمایـا ہے۔
                مترجم مرحوم (۱۳۴۷ھ تا ۱۴۲۹ھ) برصغیر کے عظیم ترین باپ کے عظیم سپوت تھے، عربی زبان وادب پر صدرجمہوریہ ایوارڈ یـافتہ تھے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی تھے، دو درجن علمـی، ادبی اور مذہبی کتابیں تصنیف فرمائیں، مرحوم کو عربی تفاسیر کے اردو ترجمہ کی طباعت واشاعت کے ساتھ ترجمہ نگاری سے بڑی دلچسپی تھی، اس کو عمدہ سے عمدہ بنانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے، ابن کثیر، مدارک، جلالین اور مظہری کے ترجمے کیے؛ لیکن اتفاق سے اوّل الذکر کے علاوہ کوئی ترجمہ مکمل نہ ہوسکا، جلالین کا ترجمہ مکمل ہوا؛ مگر اس کے صرف تین پاروں کا ترجمہ اور اس کی شرح مرحوم ومغفور نے فرمائی تھی (یعنی سولہ، سترہ، اٹھارہ) بقیہ کی توفیق حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذِ تفسیر دارالعلوم دیوبند کے نصیبے مـیںآئی۔ مرحوم عصری دانش گاہوں کے فیض یـافتہ بھی تھے، زبان وقلم دونوں کے بے نظیر شہسوار تھے، انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے، اللہ تعالیٰ ان سب کو قبول فرماکر مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں!
                جب تفسیر مدارک کا ترجمہ چھپا تو مہبطِ وحی مکہ مکرمہ سے نکلنے والے اخبار ’’رابطۃ العالم الاسلامـی‘‘ مـیں اس کی خوش خبری شائع ہوئی، یہ جمادی الثانیہ ۱۳۸۰ھ کی بات ہے (ترجمہ مدارک ص۹۶) ہندوستان مـیں بھی متعدد رسالوں نے اس پر تبصرے لکھے اور مترجم وناشر کو دادِتحسین سے نوازا، مثلاً: حضرت مولانا محمد مـیاں صاحبؒ نے ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی مـیں ۸؍ستمبر ۱۹۶۳ء کو عمدہ تبصرہ لکھا اور مولانا سید محمد ازہرشاہ قیصرؔ نے رسالہ دارالعلوم دیوبند کے نومبر ۱۹۶۳ء کے شمارے مـیں اس اقدام کو نہایت بہتر بتایـا۔
                مـیں نے اس کے دو حصے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے مـیں دیکھے، دونوں حصے چھیـانوے، چھیـانوے صفحات کے ہیں، جب تک یہ تفسیر نصاب مـیں شامل تھی، اس کے ترجمے بھی مارکیٹ مـیںملتے تھے، اب دیوبند کے تجارتی کتب خانوں مـیں یہ ترجمہ بھی نایـاب ہے۔
ترجمہ تفسیر خازن
                حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمـی زیدمجدہ استاذِ حدیث ومدیر رسالہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ’’مقالاتِ حبیب‘‘ (۷۶۱) مـیں تفسیر خازن کے ترجمے کا ذکر فرمایـا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ کیـا ہے؛ مگر کوشش کے باوجود وہ ترجمہ نظرنواز نہ ہوسکا؛ اس لیے اس کے بارے مـیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔
ترجمہ تفسیر طنطاوی
                علامہ طنطاویؒ کی تفسیر بھی اہلِ علم کے نزدیک نظرِاعتبار سے دیکھی جاتی ہے، حضرت مولانا انظرشاہ کشمـیریؒ کے فرزندارجمند جناب سید احمد خضرشاہ صاحب زیدمجدہٗ نے راقم الحروف کو بتایـا کہ والد صاحب نے تفسیر طنطاوی کا ترجمہ بھی شروع فرمایـا تھا؛ لیکن وہ مکمل نہ ہوسکا، تجارتی کتب خانوں مـیں تو نایـاب ہے ہی، خود ان کے پاس بھی نہیں ہے؛ البتہ حضرت مولانا احمد رضا صاحب بجنوری دامت برکاتہم کے کتب خانہ مـیں اس کے دو یـا تین اجزاء کو انھوں نے دیکھا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
                حضرت علامہ قاضی محمد ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ کی یہ تفسیر، اسلامـی کتب خانہ کی بڑی قیمتی متاع ہے، محدثِ کبیر علامہ انور شاہ کشمـیریؒ فرماتے تھے کہ: ’’شاید ایسی تفسیر بسیطِ ارض مـیں نہ ہو‘‘ (روایت: حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمـیریؒ) حضرت قاضی صاحبؒ نے اپنے پیرومرشد کی طرف نسبت کرکے اس کا نام ’’تفسیر مظہری‘‘ رکھا، حضرت مرزا مظہرجانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: اگر اللہ تعالیٰ نےی تحفے کا مطالبہ فرمایـا تو مـیں ’’ثناء اللہ‘‘ کو پیش کردوںگا؛ حضرت مرزا صاحب اپنے مریدوں مـیں سب سے زیـادہ آپ سے محبت کرتے تھے، آپ کو ’’عَلَمُ الہدیٰ‘‘ کے لقب سے یـاد فرماتے تھے، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ موصوف کو ’’بیہقیِ وقت‘‘ کہتے تھے، آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ سے باقاعدہ علم حاصل کیـا ہے، آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
                حضرت قاضی صاحبؒ کی تصانیف تیس سے زائد ہیں، ان مـیں سے دو کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، ایک تویہی تفسیر ہے اور دوسری ’’مالابدمنہ‘‘ (فارسی) اس تفسیر کے بارے مـیں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں:
                ’’یہ تفسیر بہت سادہ اور واضح ہے اور اختصار کے ساتھ آیـاتِ قرآنی کی تشریح معلوم کرنے کے لیے نہایت مفید، انھوں نے الفاظ کی تشریح کے ساتھ متعلقہ روایـات کو بھی کافی تفصیل سے ذکر کیـا ہے اور دوسری تفسیروں کے مقابلے مـیں زیـادہ چھان پھٹک کر روایـات لینے کی کوشش کی ہے‘‘ (معارف القرآن ۱/۵۸)
                مسائل اور دلائل مـیںحنفی نقطئہ نظر کی ترجمانی نہایت ہی سلیقہ سے کی گئی ہے، برِصغیر مـیں؛ چوںکہ زیـادہ تعداد احناف ہی کی ہے؛ اس لیے اس تفسیر کو اہلِ علم کے درمـیان بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔
اردو ترجمے
                راقم الحروف کے محدود علم واطلاع مـیں عربی زبان کی تفسیروں مـیںسب سے زیـادہ اسی تفسیر کے ترجمے ہوئے ہیں، مـیری رسائی چارترجموں تک ہوسکی ہے:
                (الف) ترجمہ جناب محمد یعقوب بیگ، مدیر رسالہ: ’’کاشف العلوم‘‘
                (ب)       ایک نام معلوم مترجم کا ترجمہ
                (ج)        ترجمہ حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمـیریؒ شیخ الحدیث، دارالعلوم وقف دیوبند۔
                (د)          ترجمہ مولانا سیدعبدالدائم صاحب الجلالی رحمۃ اللہ علیہ۔
ترجمہ مظہری، از: جناب محمد یعقوب بیگ
                یہ ترجمہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، تینوں جلدوں کے صفحات کی تعداد پانچ سو نو (۵۰۹) ہے، تیسری جلد دوسرے پارے تک کے ترجمہ کو شامل ہے، اس کی اشاعت ’’مطبع انوری دہلی‘‘ کے ذریعہ عمل مـیںآئی ہے، تاریخِ طباعت ۱۳۲۶ھ درج ہے، اس ترجمہ کی زبان بھی مناسب ہے؛ البتہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذرجانے کی وجہ سے قدامت آگئی ہے، پھربھی قابلِ قدر ہے۔
ایک اور ترجمہ
                دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ مـیںایک ترجمہ ہے، جس پر مترجم کا نام لکھا ہوا نہیں ہے؛ لیکن تقابلی نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ ترجمہ بھی جناب محمد یعقوب بیگ مدیررسالہ: ’’کاشف العلوم‘‘ کے ترجمہ سے ملتا جلتا ہے، بعض جگہ تعبیرات کافرق ہے؛ لیکن بہت زیـادہ نہیں، راقم الحروف کے خیـال مـیں دونوں ترجموں کے مترجم ایک ہی شخصیت ہیں اور شاید الگ ایڈیشن تیـار کرنے مـیں کچھ حذف واضافہ کیـاگیـا ہے، اس ترجمہ کے شروع یـا اخیر مـیں لوح یـا فہرست وغیرہ نہیں ہے کہ حتمـی طور پر کچھ کہا جاسکے؛ البتہ اخیر مـیں ’’ترقیمہ‘‘ ہے، جس مـیں ماہ ذی الحجہ ۱۳۲۵ھ درج ہے، اس سے اوّل الذکر ترجمہ سے پہلے کی طباعت کافیصلہ کیـا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
نامعلوم مترجم کا ترجمہ مظہری
                یہ ترجمہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ مـیں ہے، بڑی تقطیع پر مطبوع ہے، طباعت ’’لیتھو‘‘ کی ہے، صفحات کی تعداد ایک سو پندرہ (۱۱۵) ہے، یہ ترجمہ جناب سید محمد عبدالمجید اور سید محمد یـامـین کے زیراہتمام ’’مطبع شمس الانور‘‘ مـیرٹھ سے شائع ہوا ہے، مسودہ کی کتابت جناب نصرت علی مـیرٹھیؒ نے کی ہے اور ٹائٹل کی کتابت اثرمـیرٹھی کی ہے، یہ جلد ایک پارہ کے ترجمے کو شامل ہے، ویسے فہرست مـیں چوتھے پارہ تک ترجمہ کی طباعت کی صراحت ہے اور ساتھ ہی سب کی قیمت بھی درج ہے اور پانچویں، چھٹے اور ساتویں پارہ کے زیرطبع ہونے کا اعلان ہے۔
                ترجمہ قابلِ اعتماد اور معیـاری معلوم ہوتا ہے، ترجمہ کی زبان اور رسم الخط نیز کاغذ و طباعت سے ایک صدی سے زیـادہ قدامت نظر آتی ہے، مترجم کی طرف سے کچھ بھی اضافہ نہیں کیـاگیـا ہے، بس اصل عربی مـیںقاضی صاحبؒ نے جتنا کچھ لکھا ہے، بس اس کو ہی اردو کا جامہ پہنادیـا گیـا ہے، اس ترجمہ مـیںآیـات کو کافی جلی، ترجمہ کو اس سے خفی اور مفسر کے حاشیہ کے ترجمہ کو اس سے باریک خط مـیںلکھاگیـا ہے۔
’’ترجمہ مظہری‘‘، از: مولانا انظرشاہ صاحب کشمـیریؒ
                حضرت مولانا انظرشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کئی تفسیروں کے ترجمے اور ان کی طباعت واشاعت کا پروگرام بنایـا تھا؛ لیکن نہ جانے کیوں ’’ابن کثیر‘‘ کے علاوہی تفسیر کا ترجمہ پایۂ تکمـیل کو نہ پہہنچ سکا؟ مرحوم نے تفسیر مظہری کا ترجمہ بھی بڑے ہی آب وتاب سے شروع فرمایـا تھا، اس کا پہلا حصہ چھیـانوے صفحات پر مشتمل ہے، اس کی اشاعت ’’مکتبہ ندائے قرآن دیوبند‘‘ کے ذریعہ عمل مـیں آئی، اس مـیں بھی ترجمۂ آیـات کے لیے حضرت تھانویؒ کا ترجمہ منتخب کیـاگیـا ہے، مولانا مرحوم کے ترجمہ کی زبان بہت عمدہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان وبیـان کے بادشاہ تھے، تعبیر کی جدت استعارہ کی کثرت اور افسانوی طرزِ ادا کے وہ بے مثال ادیب تھے، اس ترجمہ پر حواشی بھی نہایت عمدہ اور مفید تحریر فرمائے ہیں، طباعت کی تاریخ جون ۱۹۶۰ء درج ہے اور ’’ترقیمہ‘‘ مـیں تحریر فرماتے ہیں: ’’الحمدللہ! کہ آج ۵؍رجب المرجب۱۳۷۹ھ بروز سہ شنبہ بوقت ۱۲؍بجے دن مـیں ’’تفسیر مظہری‘‘ کا پہلا جزء ترجمہ ہوکر ختم ہوا،  وذلک من فضل اللّٰہ۔‘‘ درمـیان مـیں اپنے اور والدین کے لیے مغفرت ورحمت کی دعاء ہے، پھر انظرشاہ الکشمـیری، خادم التدریس بدارالعلوم دیوبند‘‘ رقم ہے۔
’’ترجمۂ مظہری‘‘ از مولانا سید عبدالدائم الجلالیؒ
                ’’تفسیرمظہری‘‘ کا یہی ترجمہ اپنی مکمل شکل مـیں راقم الحروف کی نگاہ سے گذرا، اور یہ ہندوپاک کے تجارتی کتب خانوں مـیں موجود بھی ہے، دیوبند کے ’’زکریـا بک ڈپو‘‘ نے لاہور پاکستان کے ’’دارالاشاعت‘‘ والے مطبوعہ نسخے کا فوٹو لے کر شائع کیـا ہے۔
                شروع کے دو صفحات مـیں تفسیر اور مفسر کا تعارف ہے، پھر فہرست مضامـین ہے، اس مـیں سارے مضامـین کا احاطہ کیـاگیـاہے، ترجمہ کی زبان نہایت عمدہ اور رواں دواں ہے، مترجم کا مکمل تعارف حاصل نہ ہوسکا، ایک جگہ صرف ’’رفیق ندوۃ المصنّفین دہلی‘‘ لکھاہوا دیکھا، ترجمہ پڑھنے سے شخصیت وقیع معلوم ہوتی ہے، مترجم کی طرف سے مفیدحواشی کا اضافہ بھی ہے، جو قارئین کے لیے متاعِ گراں مایہ ہے؛ غرض یہ کہ یہ ترجمہ راقم الحروف کے نزدیک سب سے عمدہ اور مکمل ہے، کتابت کمپیوٹر کی اور طباعت آفسیٹ کی ہے، آیـاتِ قرآنی کو ہندوپاک کے مروجہ رسم الخط مـیں  اور ترجمہ کو قوسین کے درمـیان لکھاگیـا ہے۔
٭           ٭           ٭


تفسیر مظہری ایک تجزیـاتی مطالعہ


قرآن مجید علوم ومعانی کا ایک بے کراں سمندر ہے، اس کے حقائق و معانی کی گرہ کشائی اور اسرار وحکم کی جستجو وتلاش کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب یہ نبی آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا؛ لیکن آج تک کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ اس نے اس بحرعلم وحکمت کی تمام وسعتوں کو پالیـاہے۔
انسانی تحقیقات جتنی بھی حیران کن اور ذہن وعقل کو مبہوت اور ششدر کردینے والی ہوں، ایک خاص مدت کے بعد ان کی آب وتاب اور چمک دمک ماند پڑجاتی ہے؛ لیکن یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس کے معارف و حقائق اور علوم وحکمت کی جدت وندرت پر امتدادِ زمانہ کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
مسلمان مصنّفین نے لغات، تاریخ، اصول، احکام اور دوسری بے شمار جہتوں سے قرآن کی جو خدمت انجام دی ہے، تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس خدمت مـیں عرب ومصر، بلخ ونیشاپور، سمرقند وبخارا اور دنیـا کے دوسرے بلاد وممالک کے مصنّفین اور اصحابِ علم نے جہاں حصہ لیـا وہیں برصغیر ہندوپاک کے علماء بھی اس کارِ عظیم مـیں ہرقدم پر ان کے دوش بہ دوش اور شانہ بہ شانہ رہے۔
برصغیر کے علماء کی قرآنی خدمات کا اندازہ اس سے لگایـاجاسکتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی مصنفات کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیـادہ ہے۔
علماء ہندوپاک نے قرآنی موضوعات پر اردو زبان مـیں جہاں بہت سی بیش قیمت کتابیں تالیف کی ہیں، وہیں انھوں نے اس موضوع پر عربی زبان مـیں بھی نہایت گراں قدر علمـی ذخیرہ چھوڑا ہے۔
علماء ہندوپاک کی قرآنی خدمات مـیں ایک اہم نام تفسیرمظہری کا ہے، یہ حضرت مرزا مظہرجان جاناں کے خلیفہ اجل قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تالیف ہے؛ یہ کتاب عربی زبان مـیں لکھی گئی ہے اور دس جلدوں پر مشتمل ہے۔
قاضی ثناء اللہ صاحب: مختصر حالات
قاضی ثناء اللہ پانی پتی ۱۱۴۳ھ مـیں پیداہوئے، انھوں نے جس خاندان مـیں آنکھیں کھولیں وہ علم وفضل کا گہوارہ تھا، ان کے پیش رو بزرگوں مـیں سے متعدد منصبِ قضا کی زینت رہ چکے تھے، ان کے بڑے بھائی مولوی فضل اللہ ایک بلند پایہ عالم دین اورنیک صفت بزرگ تھے، وہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے فیض یـافتگان اوراس سلسلے کے اونچے بزرگوں مـیں سے تھے۔
قاضی صاحب کا سلسلہٴ نسب حضرت شیخ جلال الدین کبیر اولیـاء چشتی کے واسطے سے حضرت عثمان غنی تک پہنچتا ہے۔
قاضی صاحب کی شخصیت مـیں شروع ہی سے وہ اوصاف نمایـاں تھے جو ان کے تابناک اور روشن مستقبل کا پتہ دے رہے تھے۔
محض سات برس کی عمر مـیں انھوں نے حفظ قرآن مکمل کرلیـا تھا، سولہ سال کی عمر مـیں وہ ظاہری علوم کی تحصیل سے فارغ ہوچکے تھے، اس کے علاوہ علماءِ محققین کی کم وبیش ساڑھے تین سو کتابیں اس مدت مـیں ان کے مطالعہ سے گزرچکی تھیں۔
دوسال تک انھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کے حلقہٴ درس مـیں شریک رہ کر فقہ وحدیث کی تکمـیل کی۔
ابھی ظاہری علوم کی تحصیل سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ باطنی احوال کی اصلاح کی فکر دامن گیر ہوئی، نظر انتخاب حضرت شیخ الشیوخ شاہ عابدسنامـی پر پڑی، ان کی خدمت مـیں حاضر ہوکر ان سے شرفِ بیعت حاصل کیـا۔
حضرت شیخ کی توجہِ کامل اور قاضی صاحب کے صفائے باطن کا یہ اثر تھا کہ وہ سلوک کی منزلیں نہایت تیزی سے طے کرنے لگے اور نہایت تھوڑی مدت مـیں روحانیت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔
اس کے بعد انھوں نے حضرت شاہ عابد ہی کے حسب ہدایت حضرت مرزا مظہر جان جاناں سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیـا، حضرت مرزاصاحب کافیض اس وقت پورے ملک مـیں جاری تھا اور ہزاروں تشنگانِ حق اس چشمہٴ ہدایت سے سیراب ہورہے تھے۔
مرزا صاحب کے فیض تربیت نے ان کو بہت جلد تپا کر کندن بنادیـااور صرف اٹھارہ سال کی عمر مـیں وہ ظاہری علوم سے فراغت اور طریقہٴ نقشبندیہ کی خلافت حاصل کرنے کے بعد خدمتِ دین اور اصلاحِ خلق کے کاموں مـیں مشغول ہوگئے۔
مرزا صاحب قاضی صاحب کو بے حدعزیز رکھتے تھے، ان کو قاضی صاحب سے درجہ تعلق خاطر تھا او روہ ان کے علمـی اور روحانی کمالات کے درجہ معترف ومداح تھے، اس کا اندازہ ان کے درج ذیل اقوال سے لگایـاجاسکتا ہے!
مرزا صاحب فرماتے ہیں: ”مـیری نسبت اور ان کی نسبت علوِمرتبہ مـیں مساوی ہے․․․․ وہ ظاہری اور باطنی کمالات کے اجتماع کی وجہ سے عزیز ترین موجودات مـیں سے ہیں، وہ صلاح وتقویٰ اور دیـانت کی مجسم روح ہیں۔“
حضرت شاہ غلام علی فرماتے ہیں: ”مجھے خود حضرت کی زبانی سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ اگر قیـامت کے دن خدا نے مجھ سے پوچھا کہ تم مـیری درگاہ مـیں کیـا تحفہ لائے ہو، تو مـیں عرض کروں گا ”ثناء اللہ پانی پتی“۔
قاضی صاحب جہاں تصوف و سلوک مـیں اعلیٰ مقام کے حامل تھے، وہیں وہ ظاہری علوم مـیں بھی امامت واجتہاد کے مرتبہ پر فائز تھے، ان کا تصوف ان کے علم سے مغلوب نہیں ہوا اور نہ اعمالِ تصوف ان کے ذوق علم ومطالعہ مـیں کمـی پیدا کرسکے۔
حضرت شاہ غلام علی فرماتے ہیں: ”حضرت قاضی زبدئہ علماءِ ربانی اور مقربِ بارگاہِ یزدانی ہیں، عقلی ونقلی علوم مـیں انھیں کامل دسترس ہے، فقہ اور اصول مـیں وہ مجتہد کے مرتبہ پر فائز ہیں۔“
حضرت شاہ عبدالعزیز ان کو ”بیہقی وقت“ کہا کرتے تھے۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں سے انھوں نے ”عَلَم الہدی“ کا لقب پایـا تھا۔
قاضی صاحب خود اپنے بارے مـیں فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے فقہ، حدیث اور تفسیر مـیں رائے صائب عطا فرمائی ہے۔“
قاضی صاحب کے علمـی متروکات ان کی تیس سے زائد کتابیں ہیں، جن مـیں بیشتر اب تک غیرمطبوعہ ہیں، ان کتابوں کے خطی نسخے شاہ ابوالحسن زیدفاروقی لاہور پاکستان کے کتب خانہ مـیں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تفسیرمظہری
یوں تو قاضی صاحب کی تمام کتابیں معلومات وحقائق کا مرقع اور علوم ومعارف کاگنجینہ ہیں؛ لیکن ان کی کتابوں مـیں جو شہرت اور مقبولیت تفسیر مظہری کو حاصل ہوئی وہ ان کیی اور کتاب کو نہیں حاصل ہوئی۔
ذیل مـیں ہم اختصار کے ساتھ اس تفسیر کی ان خصوصیـات کا جائزہ لیں گے، جس نے اس کو خاص و عام ہر دو طبقہ مـیں شہرت ومقبولیت عطا کی ہے۔
مسائل فقہیہ
عربی زبان مـیں ایسی متعدد تفسیریں لکھی جاچکی ہیں، جن مـیں فقہی رنگ بہت نمایـاں ہے، جصاص کی ”احکام القرآن“ اور امام قرطبی کی ”الجامع لاحکام القرآن“ اس سلسلے کی بہت مشہور کتابیں ہیں۔ اوّل الذکر تفسیر مـیں تو خاص طور پر ان ہی آیـات کی تفسیر کی گئی ہے جن سے فقہی مسائل واحکام مستنبط ہوتے ہیں۔
 تفسیرمظہری مـیں فقہی احکام جس کثرت سے ذکر کیے گئے ہیں کہ اگر ان سب کو بھی فقہی ترتیب پر جمع کردیـا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ احکام القرآن کے موضوع پر ایک نہایت وقیع اور قیمتی کتاب تیـار ہوجائے گی۔
قاضی صاحب نے اس تفسیر مـیں نہ صرف یہ کہ فقہی مسائل کثرت سے ذکر کیے ہیں؛ بلکہ انھوں نے ائمہٴ فقہاء کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کو بھی ذکر کیـا ہے، ان کے استدلال کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مسلکِ راجح کی ترجیحی وجوہات پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔
نمونہ کے لیے یہاں چند مثالیں قلم بند کی جاتی ہیں:
غلام کے لیے اپنے آقا سے طلب کتابت کن شرائط کے ساتھ جائز ہے، اس سلسلے مـیں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض علماء اس کے لیے عقل اور بلوغ کی شرط لگاتے ہیں، ان کا استدلال اس آیت سے ہے ”والذین یبتغون الکتاب مما ملکت أیمانکم فکاتبوہم ان علمتم فیہم خیرًا“ (سورة النور، آیت۳۳) وہ فرماتے ہیں خیرًا سے مراد یہاں عقل اور بلوغ ہے۔
قاضی صاحب اس استدلال پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: طلبِ کتابت جس کاذکر اس آیت کے شروع مـیں ہے، اسی وقت ممکن ہے؛ جب کہ غلام اس کی اہلیت یعنی عقل ودانائی ہو، اگر غلام غیر عاقل ہو تو اس کی طرف سے طلبِ کتابت سرے سے غیرمعتبر ہوگی؛ لہٰذا جب یبتغون الکتاب کے ضمن مـیں اس شرط کا ذکر پہلے آچکا تو خیرًا سے بھی عقل ودانائی ہی مراد لینا تکرار اور اعادہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بلوغ کی شرط کا جہاں تک ذکر ہے تو وہ اس لیے ضروری نہیں کہ نابالغ سمجھدار غلام سے بھی طلبِ کتابت کا تحقق ہوسکتا ہے۔
قاضی صاحب کے فقہی استنباطات نہایت لطیف ہیں جو ان کی فقہی بالغ نظری اور بصیرت کے غماز ہیں۔ سورہٴ معارج کی آیت الاعلی أزواجہم أو ماملکت أیمانہم (سورة المعارج، آیت۳۰) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عورت کا اپنے مملوک غلام سے تعلق جسمانی قائم کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ لفظ علی بتارہا ہے کہ مالک مملوک کے مقابلے مـیں برتر اور اعلیٰ ہے، لہٰذا اگر عورت اپنے غلام سے جسمانی تعلقات قائم کرےتو یہ فرق ختم ہوجائے گا؛ کیوں کہ فاعل اعلیٰ ہوتا ہے۔
بالائے قدم (پازیب وغیرہ کی جگہ) ستر مـیں شامل ہے، قاضی صاحب اس کے شامل ستر ہونے کو قرآن کی اس آیت سے ثابت کرتے ہیں ”ولا یضربن بأرجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (سورہ النور، آیت۳۱) فرماتے ہیں: پازیب وغیرہ مخفی زینتیں ہیں، ان کا چھپانا جب اس آیت کی رو سے واجب اور ضروری ہے تو محل پازیب کا چھپانا تو بدرجہٴ اولیٰ ضروری ہوگا۔
استئذان کی جملہ صورتوں مـیں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہی کے گھر کے باہر خاموشی سے اس کے اندر سے نکلنے کا انتظار کیـاجائے، نہ داخلہ کی اجازت طلب کی جائے اورنہ اس کو آواز دی جائے۔
حضرت ابن عباس ایک انصاری صحابی کے پاس طلبِ حدیث کے لیے جاتے اور خاموشی سے ان کے گھر سے باہر نکلنے کا انتظار کرتے۔ یہ واقعہ مذکورہ مسئلہ کی دلیل ہے۔ حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں: آیتِ قرآنی ”ولو أنہم صبروا حتی تخرج الیہم لکان خیرا لہم“ (سورة الحجرات۵) کو بھی اس مسئلہ کی دلیل قرار دیـا جاسکتا ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز ابتداء فرض تھی۔ بعد مـیں اس کی فرضیت آپ کے حق مـیں باقی رہی یـا نہیں اس سلسلے مـیں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ مـیرے نزدیک راجح یہ ہے کہ بعد کے ایـام مـیں تہجد کی فرضیت آپ سے ساقط کردی گئی تھی۔ قاضی صاحب کا استدلال آیتِ ذیل سے ہے ”ومن اللیل فتجہد بہ نافلة لک“ (سورة الاسراء۷۹)
فرماتے ہیں اگر بعد کے دور مـیں تہجداسی طرح آپ پر فرض باقی رہتا تو لک کے بجائے علیک کہاجاتا۔
اس پر یہ شبہ نہ کیـا جائے کہ نمازِ تہجد تو تمام امت کے لیے نفل ہے؛ لہٰذااگر اس کو نبی کے حق مـیں بھی نفل ہی قرار دیـا جائے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ خاص اس کے ادا کرنے کاحکم دیناکوئی معنی نہیں رکھتا؛ کیونکہ تہجد کی ادائیگی سے جہاں عام لوگوں کے گناہ دھلتے ہیں وہیں یہ حضراتِ انبیـاء کے لیے ترقی درجات کا ذریعہ ہے؛ کیونکہ انبیـاء خطاؤں اور لغزشوں سے پاک ہوتے ہیں۔
بلاخوفِ تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس تفسیر مـیں فقہی رنگ سب سے زیـادہ نمایـاں ہے۔ اس کے موٴلف کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی اعتدال کی راہ نہیں چھوڑتے، گروہی عصبیت یـا مسلکی تعصب کا شائبہ ان کی تحریروں مـیں نظر نہیں آتا؛ اس لیے باوجودے کہ قاضی صاحب مذہب حنفی کے شارح اور ترجمان تھے؛ لیکن بہت سے مقامات پر انھوں نے ائمہٴ ثلاثہ کے مذہب کو راجح قرار دیـا ہے۔
احادیث کا بہ کثرت ذکر کرنا
کون نہیں جانتا کہ حدیث وسنت کلامِ الٰہی کی شرح اور اس کے اجمال کی تفصیل ہے؛ لیکن اس کے باوجود ایسی تفاسیر کم نظر آتی ہیں جن مـیں احادیث وروایـات بہ کثرت ذکر کی گئی ہوں اور آیت کی تشریح روایت سے کی گئی ہو۔
تفسیر مظہری کا یہ خاص امتیـاز ہے کہ اس مـیں نقل روایت کا کثرت سے اہتمام کیـاگیـا ہے، قاضی صاحب نے فقہی احکام، تصوف وسلوک کے مسائل، فضائل سور وآیـات اور فضائل تسبیحات واذکار وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بہ کثرت روایـات نقل کی ہیں؛ بلکہ عام مفسرین کی روش سے ہٹ کر بہت سی احادیث کے صحت وضعف پر محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کی روشنی مـیں بحث بھی کی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہر قسم کے غلہ پھل اور سبزی مـیں زکوٰة واجب ہے، امام شافعی کے نزدیک صرف اس پیداوار مـیں زکوٰة واجب ہے جس مـیں غذائیت ہے، ان کے نزدیک سبزیوں مـیںی قسم کی زکوٰة نہیں ہے، ان کی دلیل حضرت معاذ کی یہ روایت ہے: ”کھیرا، ککڑی، خربوزہ، تربوزہ، انار، گنا اور سبزیـاں معاف ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مـیں زکوٰة معاف کردی ہے“۔
قاضی صاحب اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”اس حدیث کی روایت مـیں ضعف بھی ہے اور انقطاع بھی، اس کے راویوں مـیں سے اسحاق اور ابن نافع ضعیف ہیں، یحییٰ بن معین کاقول ہے کہ نافع کچھ نہیں، اس کی حدیثیں نہ لکھی جائیں، امام احمد اور امام نسائی نے اس کو متروک الحدیث قرار دیـا ہے۔
قاضی صاحب نے اس مقام پر شافعی کے مسلک کی موید متعدد حدیثیں مختلف طرق سے نقل کی ہیں اور ان روایتوں کے ضعف پر نہایت تفصیل سے کلام کیـاہے۔
تصوف وسلوک کے مسائل
قاضی ثناء اللہ صاحب کی شخصیت علمـی اور روحانی کمالات کی جامع تھی۔ جیساکہ ان کے حالات مـیں گزرچکا ہے وہ ایک بلند پایہ محدث، بالغ نظر فقیہ اور باکمال مفسر ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ باطن اور نیک صفت بزرگ بھی تھے، انھوں نے ظاہری علوم کی تحصیل کے ساتھ اپنے بزرگوں سے اخلاق و تصوف کا درس بھی لیـا تھا، تصوف مـیں انہماک اور اپنے شیخ اور مرشد سے غایت درجہ عقیدت ومحبت ہی کا یہ اثر تھا کہ انھوں نے اپنی اس معرکة الآرا تفسیر کو اپنے شیخ کی طرف منسوب کیـا۔
اس کتاب مـیں انھوں نے جہاں دوسرے مسائل ذکر کیے ہیں، وہیں اس مـیں انھوں نے تصوف کے انتہائی دقیق مسائل اور باریک نکات بھی ذکر کیے ہیں، یہاں اس کی بس ایک مثال کافی ہوگی!
صوفیـاء کرام فرماتے ہیں: سالک کو فناء قلب کا مقام مشائخ کے توسط کے بغیر نہیں حاصل ہوسکتا، قاضی صاحب آیت قرآنی تعرج الملٰئکة والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین ألف سنة (سورة المعارج، آیت۴) کے ذیل مـیں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”سالک کو فناء قلب کا مقام اسی وقت حاصل ہوگا جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشائخ کے واسطے سے محبتِ الٰہی کا فیضان اسے حاصل ہو۔ مشائخ کے واسطے کے بغیر اگر وہ صرف عبادات وریـاضات کے ذریعہ فناءِ قلب کا مقام حاصل کرنا چاہے تو اسے پچاس ہزار سال تک ریـاضت ومجاہدہ کرنا ہوگا، ظاہر ہے کہ جب دنیـا کا اس قدر طویل مدت تک باقی رہنا محال اور ناممکن ہے توی ایک فردِ بشر کا اتنے لمبے عرصہ تک زندہ رہنا کیسے ممکن ہوسکتاہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت اور فناءِ قلب کا مرتبہ اس وقت تک نہیں حاصل ہوسکتا؛ جب تک کہ شیخ کے توسط سے فیضان الٰہی کی کشش حاصل نہ ہو، ان افراد کو براہِ راست روح کے توسط سے یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے انھیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے کی ضرورت پڑتی ہے۔“
اپنے شیخ ومرشد حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے ارشادات وملفوظات بھی انھوں نے جگہ جگہ نقل کیے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، امام یعقوب کرخی وغیرہ اکابر صوفیـاء کے ارشادات کو بھی انھوں نے متعلقہ آیتوں کے ذیل مـیں تفصیل سے نقل کیـا ہے۔
اس تفسیر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس مـیں تصوف وسلوک کے بہت سے مسائل کو احادیث اور آیـات سے مدلل کرکے بیـان کیـاگیـا ہے۔
صوفیـا کے افکار ونظریـات پر ہونے والی تنقیدات کا بھی اس مـیں انھوں نے نہایت تحقیق کے ساتھ جواب لکھا ہے۔
اس موضوع پر ان کا سب سے قیمتی اور مشہور ومتداول رسالہ ”ارشاد الطالبین“ ہے اس کے علاوہ دو رسالے اور انھوں نے اس موضوع پر تحریر کیے ہیں۔
(۱) رسالہ ”احقاق درون رد اعتراضات شیخ عبدالحق محدث برکلام حضرت مجدد“ یہ رسالہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ان اعتراضات کے جواب مـیں لکھا گیـا ہے جو حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے حضرت مجدد کے کلام پر کیے تھے۔
(۲) ”رسالہ درجوابِ شبہات برکلامِ امامِ ربانی“ اس رسالہ مـیں بھی انھوں نے حضرت مجدد کے معارف کی تحقیق کی ہے اور ان شبہات اور اشکالات کو رفع کیـاہے جو ان کے کلام پر وارد کیے گئے ہیں۔
قاضی صاحب کے تصوف کی خاص بات یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط سے پاک ہے، وہ قرآن کو تصوف کے تابع کرنے کے قائل نہ تھے، انھوں نے کتاب وسنت سے تصوف کومدلل کرنے کی کوشش کی؛ اس لیے ان کا نظریہٴ تصوف ان نظریـات کی سے پاک ہے جو شریعت اسلامـی کی روح سے غیر ہم آہنگ ہیں۔
قاضی صاحب صوفیـاء کے اقوال کی تشریح اور قرآنی آیـات سے اس کی تطبیق کے دوران آیت کے اصل الفاظ اور اس کے سیـاق و سباق پر ہمـیشہ نگاہ رکھتے ہیں اور نظمِ قرآنی، آیت کے سیـاق وسباق اوراندازِ عبارت سے سرمو انحراف نہیں کرتے۔
ذیل مـیں ہم چند ایسی مثالیں نقل کرتے ہیں جن سے ان کے علمـی اور تحقیقی مزاج اور کمال احتیـاط کا پتہ چلتا ہے۔
ہل ینظرون الا أن یأتیہم اللّٰہ فی ظلل من الغمام والملٰئکة وقضي الأمر (سورة البقرة، آیت۲۱۰)
آیت بالا کی تفسیر مـیں اہل السنة والجماعة کی متفقہ رائے تفصیل سے نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ان جیسی آیـات کی تفسیر مـیں اہل سلوک کا مسلک کچھ اور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تجلیـاتِ بلاکیف، اس کا صفاتِ جسمـیہ اور حدوث کی علامات سے پاک ہونا تفصیل سے لکھنے کے بعد اپنا کلام اس پر ختم کرتے ہیں۔
”ان حقیقتوں کا ادراک اہل دل اور اصحابِ ذوق حضرات ہی کرسکتے ہیں، جنھوں نے اس کی حقیقت کو پالیـا ہے وہ اس کی صحیح تعبیر سے قاصر ہیں، یہ چیزیں جب لوگوں کے سامنے بیـان کی جاتی ہیں تو ان کی عقل حیران وششدر رہ جاتی ہے اور معنی مرادی کے علاوہ کچھ اور سمجھ لیتے ہیں؛ لہٰذا ایسی چیزوں مـیں سکوت لازم ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور اللہ ورسول کے علاوہی کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ ان آیـات کی تفسیر اپنی طرف سے کرے۔“
فخذ أربعة من الطیر فصرہن الیک ثم اجعل علی کل جبل منہن جزئًا ثم ادعہن یـاتینک سعیًا الخ (سورة البقرة، آیت۲۶۰)
قاضی صاحب نے اس مقام پر پہلے آیت کی تفسیر مـیں عطاء بن رباح، حضرت ابن عباس اور عطا خراسانی وغیرہ کا قول نقل کیـا ہے، پھر اس کے بعد أربعة من الطیر کی حکمت، مقامِ فنا اور مقامِ بقاء کی تشریح، مذکورہ پرندوں کے خصوصی اوصاف اور ان کی حکمت پر خالص صو فیـانہ انداز مـیں روشنی ڈالی ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر انھوں نے جوبات کہی ہے وہ ان کے معتدل نقطئہ نظر کی پوری عکاسی کرتی ہے۔ فرماتے ہیں: ”وہذہ کلمات من أہل الاعتبار لامدخل لہا فی التفسیر
یہ صرف اہلِ تصوف کی حکمت آفرینیـاں ہیں، تفسیر آیت سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
تنقید وتجزیہ
کسی بھی فن کے ماہرین کے اقوال اس فن مـیں مرجع واستناد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ اس لیے متاخرین کی کتابوں مـیں ان کا مذکور ہونا ناگزیر ہے۔ قاضی صاحب نے بھی اس تفسیر مـیں ائمہ فن کے اقوال جگہ جگہ نقل کیے ہیں؛ لیکن انھوں نے ان اقوال کے نقل کردینے پر ہی صرف اکتفا نہیں کیـا ہے؛ بلکہ نہایت تحقیق اور گہری بصیرت کے ساتھ ان کے تمام پہلوؤں کاجائزہ بھی لیـا ہے، جن اقوال مـیں انھیں کمزوری کا کوئی پہلو نظر آیـا اس پر انھوں نے تنقید کی ہے اور مسلکِ راجح کو اختیـار کیـاہے۔
آیتِ قرآنی ”أولٰئک الّذِین ہدی اللّٰہ، فبہداہم اقتدہ“ (سورة الانعام) کی تفسیر مـیں قاضی بیضاوی تحریر فرماتے ہیں کہ ”ہداہم“ سے مراد عقیدئہ توحید اور دین کے وہ اصول ہیں جو تمام شریعتوں مـیں مشترک رہے ہیں۔ اس سے فروعی مسائل مراد نہیں ہیں؛ کیونکہ فروعی احکام مـیں تو انبیـاء مـیں اختلاف ہے؛ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گذشتہ تمام انبیـاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم دیـاگیـا اور آپ گذشتہ شرائع کے مکلف تھے۔
قاضی صاحب نے علامہ بیضاوی کے اس قول کو ذکر کرنے کے بعد درجِ ذیل الفاظ مـیں اس پر تنقید کی ہے:
”تمام انبیـاء امرِ خداوندی کے مکلف تھے، اگر گذشتہ شریعتوں کے فروعی احکام کو بذریعہ وحی منسوخ نہیں کیـاگیـاتھا تو ان فروعی احکام کی تعمـیل بھی سب کے لیے ضروری تھی اور اگر وحی متلویـا وحی غیر متلو کے ذریعہ سابق فروعی احکام کو منسوخ کرکے جدید احکام نازل کیے گئے تو اب ان جدید احکام کی تعمـیل لازم ہے، غرض یہ ہے کہ انبیـاء علیہم السلام گذشتہ شریعتوں کے فروعی احکام پر بھی عمل کے پابند تھے بشرطیکہ جدید شریعت مـیں ان کو منسوخ نہ کردیـاگیـا ہو۔“
فقہ واصول، تفسیر وحدیث، ادب وبلاغت، فلسفہ وکلام، نحو وصرف، غرض علومِ عالیہ یـا علومِ آلیہ مـیں سے کوئی ایسا علم نہیں ہے جس پر موٴلف کی گہری نظر نہ ہو؛ اس لیے اس کتاب مـیں قرآنی آیـات کی تفسیر کے ضمن مـیں جگہ جگہ ان علوم کے دقیق اور باریک مسائل کا ذکر بھی ملتا ہے اور ان کی عمدہ تحقیق اور تنقید بھی۔ صاحبِ مدارک اور امامِ بیضاوی نے سورة الزمر کی آیت ”والّذی جاء بالّصدق وَصَدَّقَ بہ أولٰئک ہم المتّقون“ (الزمر۳۳) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تقاضائے عربیت یہ ہے کہ جاء اور صدّق کا فاعل ایک قرار دیـا جائے، یعنی جو اس قرآن کو لے کر آیـا اسی نے اس کی تصدیق کی کیوں کہ اگر صدّق کا فاعل اس کو قرار نہ دیـا جائے جو جاء کا فاعل ہے تو اسمِ موصول الّذی یہاں محذوف ماننا پڑے گا، جو کہ جائز نہیں ہے یـا فاعل کی ضمـیر محذوف ماننی ہوگی جب کہ مرجع مذکور نہیں ہے۔
قاضی صاحب اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”صاحبِ مدارک اور بیضاوی نے یہ کیسے لکھ دیـا کہ موصول یعنی الّذی کو صدّق سے پہلے محذوف ماننا جائز نہیں ہے۔ کلبی، قتادہ، ابوالعالیہ اور مقاتل جیسے ائمہ تفسیر نے تو وہی بات لکھی ہے جو ہم نے پہلے ذکر کی۔ موصول کے حذف کیے جانے کی مثال حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعر ہے
أمن یہجوا رسول اللّٰہ منہم         ویمدحہ ویَنْصُرُہ سواء
کیـا ان مـیں سے وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور (وہ شخص جو) آپ کی تعریف کرتاہے اور آپ کی مدد کرتا ہے برابر ہوسکتے ہیں۔
مثالِ مذکور مـیں دوسرے مصرعہ مـیں من اسمِ موصول محذوف ہے۔
تفسیر مظہری پر کرنے کے کام
اس مـیں شبہ نہیں کہ اس تفسیر کو عوام وخواص ہردوطبقہ مـیں بے حد مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی، اس کے سہل اسلوب نگارش طرز بیـان کی سادگی، حسن ترتیب اور جامعیت کی وجہ سے تمام لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیـا؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ بعض دوسری جہتوں سے اس سے اسی قدر بے توجہی بھی برتی گئی۔
ہندوپاک سے اب تک اس کے متعدد اردو عربی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں؛ لیکن اس کا کوئی بھی ایڈیشن ان خصوصیـات سے مزین نہیں ہے جس سے قاری کے لیے استفادہ کی راہ آسان ہوتی ہے۔
اردو زبان مـیں مـیری معلومات کے مطابق اب تک اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں : اس کا پہلا اردو ترجمہ ندوة المصنّفین نے شائع کیـاتھا، یہ ترجمہ تشریحی ہے اور بہت سے ضروری اضافات پر مشتمل ہے، بعض مقامات پر تعلیقات اور حواشی بھی درج ہیں؛ لیکن ان خوبیوں کے ساتھ اس مـیں ایک بڑی خامـی یہ ہے کہ آغاز کتاب مـیں نہ کوئی پیش لفظ اور مقدمہ ہے اور نہ کتاب اور صاحب کتاب کا کوئی تعارف ہے۔
اس کا دوسرا اردو ترجمہ حال ہی مـیں ملک کے مشہور اشاعتی ادارے فرید بک ڈپو نے شائع کیـاہے، یہ ترجمہ پہلے ترجمہ کے مقابلے مـیںی قدر لفظی ہے؛ البتہ کتاب کے اس ایڈیشن مـیں مآخذ کی نشان دہی اور روایـات کی تخریج کردی گئی ہے۔
لیکن اس تفسیر پر کرنے کے بہت سے کام ابھی بھی باقی ہیں۔
جس جامعیت کے ساتھ اس مـیں فقہی احکام کا احاطہ کیـاگیـا ہے اس کی نظیر کم از کم علماءِ ہند کی لکھی ہوئی تفسیروں مـیں نہیں ملتی ہے، ضرورت ہے کہ ان تمام احکام اور مسائل کو فقہی ترتیب وتبویب کے ساتھ ایک مستقل کتاب مـیں جمع کیـا جائے، جہاں تعلیقات اور حواشی کی ضرورت ہو وہاں حواشی لکھے جائیں، فقہی عبارتوں کے حوالے لکھے جائیں اور احادیث وآثار کی تخریج کی جائے۔
یہ کتاب اگرچہ بہت سی خصوصیـات اور خوبیوں کی جامع ہے اور بعض جہتوں سے منفرد اورامتیـازی شان کی حامل ہے؛ لیکن اب تک عالم عرب مـیں اس کا کماحقہ تعارف نہیں ہوسکا ہے، اس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے ناواقف اور اس کے فوائد علمـیہ سے محروم ہے؛ بلکہ یہ عدمِ واقفیت کتاب کی علمـی خدمت اور جدید طرز پر اس کی طباعت کی راہ مـیں بھی حائل ہے۔
ایڈٹنگ اور تحقیق وتخریج کاکام کرنے والے حضرات اگر اس جانب متوجہ ہوں تو یہ ایک بڑی علمـی خدمت ہوگی۔
اس وقت جبکہ پرنٹ مـیڈیـا اور الکٹرانک مـیڈیـا کی غیرمعمولی ترقی اور سی ڈی وانٹرنیٹ کے فیض عام نے ماضی کے اندوختوں کی بازیـافت اور جدید طرز پر اس کی تہذیب وتنسیق اور تخریج کے کام کو بہت حد تک آسان بنادیـا ہے اس مـیں یہ کام زیـادہ فرصت طلب اور فراغت ویکسوئی کا متقاضی بھی نہیں ہے۔
"نسخ" کے لغوی معنی ہیں مٹانا،ازالہ کرنا،اوراصطلاح مـیں اس کی تعریف یہ ہے :
رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ۲/۱۷۶)"کسی حکم شرعی کوی شرعی دلیل سے ختم کردینا"
مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالیی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھری دوسرے زمانے مـیں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیـا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیـا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیـا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں ۔
نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے مـیں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے ،ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے ،جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے  بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے ،حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات مـیں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ مـیں ان کے مطابق تبدیلیـاں کرتا رہے۔
متقدمـین کی اصطلاح مـیں نسخ کا  مفہوم بہت وسیع تھا ،اسی لیے انھوں نے منسوخ آیـات کی تعداد بہت زیـادہ بتائی ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن مـیں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔

(الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲)

پھر آخری دور مـیں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں مـیں نسخ تسلیم کیـا ہے اور باقی آیـات مـیں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے  مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان مـیں سے اکثر آیتوں کے بارے مـیں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیـا جاسکتا ہے ،جن پانچ آیـات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیـا ہے وہ یہ ہیں :
(۱)کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔

(البقرۃ: ۱۸۰)

  جب تم مـیں سےی کے سامنے موت حاضر ہوجائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیـا گیـا ہے ،یہ حکم متقیوں پر لازم ہے ۔
یہ آیت اس زمانے مـیں لازم تھی جب مـیراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس مـیں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیـا گیـا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے مـیں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یـا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیـا جائے ؟بعد مـیں آیـات مـیراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ  (النساء:۱۱) نے اس کو منسوخ کردیـا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں مـیں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کردیـا ابی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔
سورہ ٔ انفال مـیں ارشاد ہے :
إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔

(الأنفال:۶۵)

  اگر تم مـیں سے بیس آدمـی استقامت رکھنے والے ہونگے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم مـیں سے سو آدمـی ہوں گےتو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔
یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کردیـا گیـا :
اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔

(الأنفال:۶۶)

  اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم مـیں کچھ کمزوری ہے بعد اب اگر تم مـیں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم مـیں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم مـیں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کے بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیـار کرنا جائز نہیں ۔
تیسری آیت جسے حضرت شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیـا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے :
لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء  مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔

(الاحزاب:۵۲)

  (اے  نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان(موجودہ  ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔
اس آیت مـیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیـا گیـا  تھا بعد مـیں یہ حکم منسوخ کردیـا گیـا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب مـیں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی:
"یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ"۔

(الاحزاب:۵۰)

  (اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیـا ہو۔
 حضرت شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت مـیں نسخ یقینی نہیں ہے’  بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی  بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیـار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔

(الاحزاب:۵۰)

  والی آیت مـیں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایـا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت  لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء  مِن بَعْد(احزاب:) مـیں ارشاد فرمایـا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔      

(تفسیر ابن جریر)

(۴) چوتھی آیت جو حضرت شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ ہے ،سورۂ مجادلہ کی یہ آیت :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔

(المجادلہ: ۱۲)

  اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کردیـا کرو یہ تمہارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمہارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہوگئی۔  أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔

(المجادلہ:۱۳)

  کیـا تم اس بات سے ڈر گئے  کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو بعد جب تم  نے ایسا نہیں کیـا اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو  اور زکوۃ  ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیـا گیـا ۔
پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیـات ہے :
(۱)یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ
(۲)قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً
(۳)نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً
اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد مـیں) کھڑے رہیے  مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یـا اس مـیں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت مـیں رات کے کم از کم آدھے حصہ مـیں تہجد کی نماز کا حکم دیـا گیـا تھا ،بعد مـیں اگلی آیتوں نے اس مـیں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کردیـا وہ آیتیں یہ ہیں:  عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ

(المزمل: ۲۰)"

اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کردیـا بعد تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیـا کرو جو تمہارے لیے آسا ن ہو۔
حضرت شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس مـیں زیـادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیـادہ وسیع تھا بعد مـیں تاکید بھی کم ہوگئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔
یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن مـیں حضرت شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس مـیں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم مـیں باتفاق بہت سی ہیں جن مـیں ناسخ تو قرآن کریم مـیں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاً تحویل قبلہ کی آیـات وغیرہ۔

(علوم القرآن:۱۷۲)
































مخالفت سلف سے اجتناب تفسیر قرآن کا ایک بنیـادی اصول

حق تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوکہ انہوں نے ”کلالہ“ کی صدیقی تفسیر مـیں ایک تفسیری اصول بیـان فرمادیـا‘ یعنی قرآن کریم کی تفسیر مـیں ایسے نظریہ کا اختراع کرنے سے آدمـی کو کچھ حیـا کرنی چاہئے جس سے سلف کے اصول ونظریـات سے مزاحمت لازم آتی ہے‘ اس لئے صرف وہی تفسیر لائقِ اعتماد ہوگی جو صحابہ کرام‘ تابعین اور ائمہ ٴ امت کے ذوق کے ہم آہنگ ہوگی۔
خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کا یہ زریں قول کتنا وزنی ہے؟ وہ فرماتے تھے (خطاب اہل علم سے تھا)
”خذوا من الرأی مایصدق من کان قبلکم ولاتاخذوا الخلاف لہم فانہم اخیر منکم واعلم ․․․“۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی)
ترجمہ:․․․”صرف وہی (نظریہ) اور رائے اختیـار کرو جو تم سے پہلے لوگوں (یعنی صحابہ کرام اور اکابر تابعین) کی تصدیق کرے‘ ایسی رائے نہ لو جو ان کے خلاف ہو‘ اس لئے کہ وہ تم سے بہتر بھی تھے اور زیـادہ علم والے بھی“۔
بلاشبہ اپنے سے پہلے لوگوں کے متعلق ”ہم اخیر واعلم“ کا نظریہ جب تک قائم رہے گا‘ امت مـیں خیر باقی رہے گی‘ کیوں نہ ہو‘ جن کے سامنے وحی نازل ہوتی رہی‘ جن کو اول وحی کی کیفیـات واحوال کے مشاہدہ کے مواقع نصیب ہوئے‘ قرآن کی کونسی آیت: وقت‘ جگہ نازل ہوئی اور کب نازل ہوئی‘ کے حق مـیں نازل ہوئی‘ سفر مـیں نازل ہوئی یـا حضر مـیں‘ حجرہٴ عائشہ مـیں نازل ہوئی یـا تبوک سے واپسی پر۔ الغرض اسی قسم کے جزئیـاتی امور ایک ایک کر کے جن کے حافظہ مـیں نقش تھے‘ قرآن کے ایک ایک حرف پر جن کو صاحبِ قرآن ا کی نگرانی مـیں عملی مشق کی سعادت مـیسر آئی‘پھر جن کے علم وتقویٰ‘ فضل وکمال‘ زہد وورع اور فہم وذکاء کی قرآن ہی نے شہادت دی‘جن کی جان بازی اور سرفروشی‘ ایثار اور قربانی کی نظیر پیش کرنے سے اولین وآخرین عاجز رہے‘ جن کی عفت وپارسائی‘ توکل اور قناعت جبرئیل ومـیکائیل کے لئے باعثِ رشک بنی رہی‘ اگر ان کی اور ان کے تربیت یـافتہ شاگردوں کی تفسیر پر اعتماد نہ ہوگا تو ان کے بعد اللہ کی کتاب کو سمجھنے اور سمجھانے کا سلیقہ کو نصیب ہوسکتاہے؟
فقیہ الامت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایـا کرتے تھے:
”والذی لا الہ غیرہ ما نزلت آیة من کتاب اللہ الا وانا اعلم فیمن نزلت‘ واین نزلت‘ ولو اعلم احداً اعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایـا لاتیتہ “۔ (ابن کثیر :ج:۱‘ ص:۵)
ترجمہ:․․․”معبودِ حقیقی کی قسم‘ کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی‘ مجھے اس کے متعلق علم ہے کہ کے حق مـیں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مـیری دانست مـیں کتاب اللہ کا مجھ سے زیـادہ جاننے والا کوئی موجود ہوتا اور وہاں تک سواری جاسکتی تو مـیں ضرور اس کی خدمت مـیں حاضر ہوتا“۔
اسی قسم کا مضمون حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے:الغرض تفسیرِ قرآن کے سلسلہ مـیں ان ہی دو قاعدوں کو جو حضرت ابوبکر صدیق کے ”طرز عمل“ سے مـیں نقل کرچکا ہوں‘ اگر سامنے رکھا جائے تو کجراہی کا راستہ بڑی حد تک بند ہوسکتا ہے۔
تفسیر کا اصل سرمایہ صحابہ اور تابعین کے آثار ہیں
یہاں ایک اور نکتہ پر تنبیہ ضروری ہے ‘ وہ یہ کہ یوں تو کتاب اللہ کے اسرار کا سلسلہ غیر متناہی ہے‘ ایک عامـی سے لے کر ایک اعلیٰ درجہ کے مفکر‘ فلسفی‘ ادیب اور عالم تک سب ہی اس مـیں غور کرتے رہے ہیں اور کرہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے اور ہرایک اپنی اپنی استعداد اور فراخ دامنی کے بقدر اس خزانہٴ عامرہ سے استفادہ کرتا رہے گا‘ لیکن جہاں تک اس کے نفسِ مفہوم کا تعلق ہے اور اس کی وضاحت جہاں تک انسانی وسعت کے دائرہ مـیں آسکتی ہے‘ اس سے صحابہ کرام اور ثقات تابعین کے علوم نے بعد مـیں آنے والے تمام انسانوں کو مستغنی کردیـا ہے‘ اس لئے قرآن کی شرح وتفسیر مـیں آنحضرت اکے بعد صحابہ کرام اور ان کے تربیت یـافتہ شاگردوں کے آثار جو صحیح اور مقبول اسناد کے ساتھ مروی ہیں‘ اصل سرمایہ ہیں۔ کوئی آیت ایسی نہیں جسے ان حضرات نے آنحضرت ا کی منشا کے موافق نہ سمجھا دیـا ہو‘ قرآن سے متعلقہ اشکالات مـیں سے کوئی دشواری ایسی نہیں جسے ان ”نفوس قدسیہ“ نے جزئیـاتی یـاکلیـاتی انداز مـیں حل نہ کردیـا ہواور قرآن سے پیدا ہونے والے علوم کی طرف اشارہ نہ کردیـا ہو۔
الغرض جس طرح قرآن کے الفاظ ان حضرات نے امت کو بلا کم وکاست پہنچا دیئے ہیں‘ ان مـیں نہ ان حضرات نے بخل سے کام لیـا‘ نہ ہوا وہوس کی ہونے دی‘ نہ اوہام وظنون کی تاریکی مـیں ان کو گم کیـا‘ بلاشبہ اسی طرح قرآن کے مفاہیم اور معانی کی امانت بھی انہوں نے کامل طور پر امت کے سپرد کردی ۔ اس ”جنون“ کی کوئی گنجائش نہیں کہ الفاظِ قرآن مـیں ان کو قابل اعتماد قرار دیـا جائے‘ مگر الفاظ کی شرح وتفسیر مـیں ان کی امانت کو مشتبہ بنا ڈالنے پر مغربی فوج (مستشرقین) کا تمام اسلحہ استعمال کیـا جائے۔
بہرحال صحابہ کرام اور اکابر تابعین سے جو تفسیری سرمایہ منقول ہے‘ وہ قرآن فہمـی کے لئے قطعاً کافی ہے‘ بعد مـیں آنے والوں کا کام اس قیمتی سرمایہ کی حفاظت اور اس کی پرورش کرنا تو ہوسکتا ہے‘ لیکن باپ دادا کے محنت کے ساتھ جمع کئے ہوئے سرمایہ کو گلی کوچہ مـیں پھینک کر خود قلاش اور مفلس ہوجانا اور جن خزانوں مـیں آباء واجداد کے جواہر ریزے بھرے ہوئے تھے‘ ان مـیں خزف ریزوں کو بھر لینا‘ قرآنی خدمت نہیں بلکہ حماقت ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کے ملفوظات مـیں کہیں دیکھا تھا کہ ذہن مـیں جب کوئی تازہ مضمون آجاتا ہے پھر اتفاق سے وہی بات پہلے کےی بزرگ کے کلام مـیں دیکھ لیتا ہوں تو قلب مـیں عجیب انشراح پیدا ہوجاتاہے کہ الحمد للہ! فقیر کو بھی اکابر کے علوم کی موافقت نصیب ہوگئی‘ جو سلامتی ذہن کی دلیل ہے۔ اگر غور کروگے تو بعد کے اختلاف اور احزابی جنگ کا بنیـادی نقطہ ”انکار سلف“ اور کتاب اللہ کے مطالب بیـان کرنے مـیں جذبہ ”خود فہمـی“ نظر آئے گا‘ ان تمام گروہی عناصر کا مشترک سرمایہ اہلِ حق سے عناد اور صلحائے امت سے بے اعتمادی کا ہے‘ ستم بالائے ستم یہ کہ جو طاغیہ اٹھتا ہے وہ سب سے پہلے اختلافِ امت کا ڈھول پیٹتا ہے اور اپنے الحادی ذہن سے ایک نئے دین‘ نئی فکر اور جدید فرقہ کا اضافہ کرجاتاہے۔
اسی سلسلہ کی ایک اور مثال
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جن ”صدیقی اصولِ تفسیر“ کو ذکر کرتا چلا آرہا ہوں‘ اسی سلسلہ کی یہ روایت خاص اہمـیت کی حامل ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق نے ایک دفعہ حاضرین سے دریـافت فرمایـا کہ قرآن کی ان دوآیتوں کا کیـا مطلب سمجھے ہو؟
۱-”ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا“۔
۲-” الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم“ ۔
مطلب یہ کہ پہلی آیت مـیں استقاموا کے معنی اور دوسری آیت مـیں ظلم کا مفہوم حضرت ابوبکر صدیق نے حاضرین سے دریـافت کرنا چاہا۔
جواب مـیں ان کی طرف سے عرض کیـا گیـا: ”ثم استقاموا ای فلم یذنبوا‘ ولم یلبسوا ایمانہم ای بخطیئة“ یعنی ثم استقاموا کے معنی یہ کہ ”پھر گناہ نہ کیـا“ اور ظلم سے مراد بھی ”گناہ“ ہے۔ آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی معنی مفہوم ہوتے ہیں جو انہوں نے بیـان کردیئے‘ لیکن قرآن ہی مـیں دوسری آیتیں ایسی بھی ہیں جن کو سامنے رکھنے کے بعد یہ معنی درست نہیں رہتے‘ بہرحال ان کی اس تفسیر کے سن لینے کے بعد خود حضرت ابوبکر نے ان دونوں آیتوں کی تفسیر فرمائی‘ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایـا:
لَقَدْ حَمَلْتُمُوهَا عَلَى غَيْرِ الْمَحْمَلِ ، ثُمَّ قَالَ : قَالُوا : رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَى إِلَهٍ غَيْرِهِ ، وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِشِرْكٍ“۔
[حلية الأولياء لأبي نعيم » أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ... رقم الحديث: 62 , جامع البيان عن تأويل آي القرآن » تفسير سُورَةُ فُصِّلَتْ ... رقم الحديث: 28157 ,  الجامع لأحكام القرآن (قرطبي) » سورة فصلت : 30]
ترجمہ:․․․” تم نے دونوں آیتوں کو غیر محمل پر حمل کردیـا (ان دونوں آیتوں کے یہ معنی نہیں) بلکہ ثم استقاموا کے معنی تو یہ ہیں کہ پھر اللہ کے سوای دوسرے معبود کی طرف مائل نہ ہوئے اور ظلم سے مراد شرک ہے“
اس مقام پر قابل توجہ امر یہی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق  نے بنیـاد پر ان حضرات کی تفسیر کو ”بے محل“ قرار دیـا؟ اور ان حضرات کی تفسیر مـیں کیـا گنجلک پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کی تفسیر غیر صحیح قرار پائی؟ روایت کے الفاظ مـیں چونکہ اس سوال سے تعرض نہیں‘ اس لئے قرائنِ خارجیہ کی طرف رجوع کرنے کے بعد ہی ان کا سراغ لگایـا جاسکتا ہے۔
امام بخاری  نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  کی روایت جو
”ولم یلبسوا ایمانہم بظلم“
کے جواب مـیں نقل کی ہے‘ اس سے یہ اشکال رفع ہوجاتا ہے یعنی یہ آیت جب نازل ہوئی تو اصحابِ رسول اللہ ا نے عرض کیـا کہ: یـا رسول اللہ ا ! اس آیت مـیں امن اور اہتداء کو ایمان اور ترکِ ظلم پر معلق کیـا گیـا ہے‘ اور ہم مـیں ایساہے جس نے ظلم بمعنی کوئی گناہ نہ کیـا ہو؟ اس پر آیت
”ان الشرک لظلم عظیم“
نازل ہوئی‘ جس کا حاصل یہ ہوا کہ ظلم سے مراد آیت زیر بحث مـیں شرک ہے‘ مطلق گناہ مراد نہیں۔ بلکہ مسند احمد کی روایت مـیں اتنا اضافہ ہے کہ آنحضرت ا نے صحابہ کی عام بے چینی جو اس آیت سے ان کو لاحق ہوئی تھی‘ اسے سن کر فرمایـا:
”انہالذی تعنون‘ الم تسمعوا ما قال العبد الصالح ”یـابنیّ ان الشرک لظلم عظیم‘ انما ہو الشرک“ ۔ (ابن کثیر :ج:۲‘ص:۱۵۳)
یعنی :اس کا یہ مفہوم نہیں جو تم مراد لے رہے ہو‘ کیـا تم نے عبد صالح (لقمان علیہ السلام) کا قول نہیں سنا کہ بیٹا! واقعةً شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے‘ بعد آیت مـیں ظلم سے مراد شرک ہے۔
اس روایت سے واضح ہوا کہ یہ آیت جس کے متعلق حضرت ابوبکر صدیق اپنی عام روش کے خلاف لوگوں کو چھیڑ چھیڑ کر ان کے علم کی تصحیح فرمارہے تھے‘ اس کی تفسیر خود قرآن ہی مـیں دوسری جگہ کی جا چکی ہے اور آنحضرت ا صحابہ کرام کے استفسار پر اس آیت کا حوالہ بھی دے چکے ہیں‘ جس مـیں اس آیت کی تفسیر قرآن مـیں کی گئی ہے (یعنی ان الشرک لظلم عظیم) اس لئے اس سوال کے جواب مـیں جو اوپر عرض کرچکا ہوں‘ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے ان حضرات کی تفسیر کے غیر صحیح قرار دیئے جانے کی بنیـاد یہی آیت ہے جس کا حوالہ خود آنحضرت ا نے صحابہ کرام کے سامنے پیش فرمایـا‘ اور یہیں سے دوسرے سوال کا جواب بھی نکل آیـا کہ ان بزرگوں کی تفسیر مـیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق نے ”بے محل“ قرار دیـا‘ بنیـادی نقص یہی تھا کہ ان حضرات نے صرف اسی مقام کو سامنے رکھ کر تفسیر فرمادی‘ دوسرے مقام پر ان کی نظر نہیں گئی‘ جہاں اس اجمال کو مفصل کردیـا گیـا تھا۔
بہرحال! اگر اس صدیقی روایت کا مطلب یہی ہے جو مـیں نے عرض کیـا‘ (یہ خدا ہی جانتا ہے کہ مـیں اس روایت کے سمجھنے اور سمجھی ہوئی بات کے صحیح ادا کرنے مـیں کامـیاب ہوسکا ہوں یـا حضرات اہلِ علم سے توقع ہے کہ وہ تصحیح فرمادیں) تو اس مـیں جس اصول کی طرف اشارہ پایـا جاتا ہے‘ اس پر ہمـیں غور کرنا چاہئے۔ آپ مجھ ہی سے سن چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے معاملہ مـیں ”صدیقی ذوق“ احتیـاطی دقائق رکھتا تھا‘ وہ لوگوں کے بار بار سوال کرنے پر بھی تفسیرِ کتاب اللہ پر حرف زنی کے لئے حتی الوسع تیـار نہ ہوتے تھے‘ لیکن یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق از خود لوگوں سے سوال کرتے ہیں‘ پھر ان کے علم کی تصحیح فرماتے ہیں اور اپنے علم کو پیش فرماتے ہیں‘ کہنے کو تو یہ ایک جزئی واقعہ ہے جو شاید اپنی جزئیت ہی کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک زیـادہ توجہ کا مستحق نہ ہو‘ لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ ہر جزئیہی کلیہ کے تحت مندرج ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری اصلاح کو جزئیہ تک ہی محدود مانا جائے اور صدیقی نظر کو اس جزئیہ سے کلیہ کی طرف متعدی نہ مانا جائے۔
تفسیر القرآن بالقرآن:
معروضہ بالاشواہد کی روشنی مـیں بھی معلوم ہوتا ہےکہ حضرت ابوبکر صدیق اس موقع پر لوگوں کو تفسیر القرآن بالقرآن کا تفسیری اصول ذہن نشین کرانا چاہتے تھے‘ یعنی قرآن کےی لفظ کی شرح کرتے وقت پہلے خود قرآن ہی مـیں اس کے مواقع استعمال کو تلاش کیـا جائے۔ بسااوقات ایک مقام مـیں کلام عام رنگ مـیں ہوتا ہے‘ لیکن دوسری جگہ اس کے قیود سے تعرض کیـا جاتا ہے۔ ایک موقع پر اجمال ہوتا ہے‘ دوسری مقام مـیں اس کی تفصیل ہوتی ہے۔ ایک آیت مـیں مضمون کو استعارہ اور کنایہ کے انداز مـیں ذکر کیـا جاتا ہے اور دوسری آیت مـیں صریح الفاظ مـیں حقیقت کو واضح کیـا جاتاہے ۔ مجھے اس پر طویل بحث کی ضرورت نہیں‘ اصولِ تفسیر کی کتابوں مـیں اس پر شافی بحث موجود ہے‘ اور یوں بھی اہلِ دانش کے لئے یہ کوئی جدید علم نہیں‘ بتلانا چاہتاہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے ارشاد :
”ولقد حملتموہما علی غیر المحمل“
مـیں اسی قاعدہ پر تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اس آیت کا محمل دوسری آیت مـیں تلاش کرنا چاہئے تھا۔ قرآن کے ایک لفظ کو لے کر اس پر عقائد ونظریـات کی عمارت استوار کرلینا اور بقیہ تمام آیـات سے صرفِ نظر کرلینا اہلِ زیغ کا خاص امتیـازی نشان ہے‘ اہلِ بدعت اور اصحابِ ہوا کی جانب سے کتنے نظریـات قرآن ہی کی آیـات پڑھ پڑھ کر پیش کئے جاتے ہیں‘ جن کے خلاف قرآن بار بار اعلان کرتا ہے۔ خود ہمارے دور کا جدید نظریہ اس کی زندہ مثال ہے یعنی قرآن کے ایک لفظ ”اضعافا مضاعفة“ کی آڑلے کر ”روشن خیـال“ طبقہ‘ زبان اور قلم‘ پریس اور پلیٹ فارم کی پوری توانائی کے ساتھ چیخ رہاہے کہ قرآن نے مطلق سودکو حرام نہیں کہا‘ بلکہ ایک ”خاص قسم“ کے سود پر پابندی عائد کی ہے:
بریں فہم و سودا بباید گریست
لطف یہ کہ قرآن کے نام سے لغویـات کے طور مار جمع کرنے والوں کے یہاں قرآن سے استدلال کا نہ کوئی قاعدہ ہے نہ احوال نہ زبانِ عرب کی باریکیوں کو جاننے کی ضرورت ہے‘ نہی مثال کی حاجت‘ نہ علوم سلف سے استفادہ کی ہمت نہ عقل صحیح سے کام لینے کی توفیق۔ بس جس کے جی مـیں جو آیـا اسے بلادریغ قرآن کی طرف منسوب کردیـا‘ اگر لغت عرب سے ان کے مزعوم غل غپاڑے کی تائید نہ ہوئی تو ”لغات القرآن“ کے نام سے ایک سیـاہ دفتر تصنیف کرلیـا‘ بقول اقبال مرحوم:
ولے تاویل شاں درون حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
اس ظلم اور غباوت کی انتہاء ہے کہ قرآن مجید آج سے چودہ سو سال پہلے محمد عربی ا پر زبان عربی مـیں نازل کیـا جائے‘ اور اس کی لغات بیسویں صدی کے عجمـی‘ جدید انداز سے گھڑنے لگیں۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
حضرت ابوبکر صدیق  صحابہ کرام کی جماعت کو :لقد حملتموہما علی غیر المحمل“ کہہ کر ٹوک دیں اور تمام قرآن کو تحریف کا نشانہ بنا ڈالنے والے منافق ٹوکنے والوں کو ”تاریک خیـال“ اور ”اہلیـان مسجد“ کا طعنہ دیں۔
تفسیر القرآن بالحدیث
حضرت ابوبکر صدیق  سے ایک اور تفسیری خطبہ مروی ہے جسے مشکوٰة شریف مـیں ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے اور ترمذی کی تصحیح کے ساتھ نقل کیـا گیـا ہے یعنی حضرت صدیق نے فرمایـا:
”یـا ایہا الناس انکم تقرؤن ہذہ الآیة: یـا ایہا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اہتدیتم‘ وانی سمعت رسول اللہ ا یقول: ان الناس اذا رأوا ظالماً فلم یـاخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمہم اللہ بعقاب ہذا حدیث حسن صحیح“۔ (ترمذی:ج:۲‘ص:۱۳۱)
ترجمہ:․․․”لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو! اے ایمان والو! تم اپنی ذات کی فکر کرو‘ تمہیں نقصان نہیں اس کا جو گمراہ ہوا جب تم ہدایت پر ہوگے‘اور مـیں نے آنحضرت ا کو فرماتے ہوئے سنا کہ: لوگ جبی ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں) تو بعید نہیں: کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذابِ عام مـیں مبتلا کردیں“۔
پڑھنے کی حد تک اس آیت کونہیں پڑھتا‘ لیکن آیت کا مفہوم کیـا یہی ہے کہ آدمـی پر صرف اس کی ذات کی ذمہ داری ہے؟ غلط کاروں کی اصلاح‘ گمراہوں کو غلط راستے سے ہٹانے اور ظالم کے مقابلہ کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں؟ آیت کا مطلب اگر یہی ہوتا تو امر بالمعروف کی آیـات‘ نہی عن المنکر کے احکام اور جہاد فی سبیل اللہ کے فضائل جو قرآن ہی مـیں مذکور ہیں‘ ان کے کیـا معنی ہوں گے؟
حضرت ابوبکر صدیق  وانی سمعت رسول اللہ ا کی روشنی مـیں اعلان فرمار ہے ہیں کہ آنحضرت ا کے اس ارشاد کو سامنے رکھے بغیر آیت کا ظاہری مفہوم اگر لیـا جائے تو یہ تفسیرِ قرآن پر بڑا ظلم ہوگا‘ صرف اس خطبہ کے سامعین کو نہیں‘ بلکہ آنے والی پوری امت کوامت کا پہلا صدیق آگاہ کردینا چاہتاہے کہ قرآن کریم کیی آیت کا مفہوم وانی سمعت رسول اللہ ا کی روشنی اور حدیثِ نبوی کی بصارت کے بغیر متعین کرنے والے ظالم ہیں‘ جن کا ہاتھ اگر نہ پکڑا گیـا‘ ان کی زبان اگر نہ کھینچی گئی‘ ان سے قلم اگر نہ چھینا گیـا‘ ان کی کتاب اللہ پر دست درازیوں پرگرفت نہ کی گئی‘ تو بعید نہیں کہ اللہ کا عذابِ عام نازل ہوجائے اور ایمان واعمال کی استعدادہی امت سے سلب کرلی جائے :”ویمسی مؤمنا ویصبح کافراً“ (صبح ایک شخص مؤمن ہوگا ‘ شام کو کافر اور شام کو مؤمن ہوگا صبح ہوتے ہی کافر ‘معاذ اللہ!) کا نقشہ سامنے آنے لگے۔ آیت پڑھ کر اس کی کوئی شرح کئے بغیر معاً ”مـیں نے رسول اللہ ا سے سنا ہے“ کا لفظ جو حضرت صدیق  کی زبان پر جاری ہوجاتاہے‘ جانتے ہو! یہ اپنے اندر ایمان ویقین اور فہم وفراست کا کتنا وزن رکھتا ہے؟ سننے والوں کو صرف آیت کی تفسیر نہیں بتلائی گئی‘ بلکہ ”یہ تفسیری اصول“ تلقین کیـا گیـا کہ پڑھنے والوں کو آفتاب ِ نبوت ا کی ذات سے صادر شدہ انفاس طیبہ (حدیث اور سنت) کو سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا چاہئے ‘ ورنہ محض پڑھنا ہی پڑھنا ہوگا‘ سنتِ نبوی سے ہٹ کر قرآن پڑھنے والوں پر ”قرآنی فہم“ حرام کردیـا کیـا گیـاہے۔
علامہ زرکشی سے الاتقان مـیں نقل کیـا گیـاہے:
قال فی البرہان:”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبرا او وہوی اوحب الدنیـا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسرعندہ علم او راجع الی معقولہ‘ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا اکد من بعض“۔ (الاتقان:ج:۲‘ص:۱۸۱)
ترجمہ:․․․”برہان مـیں زرکشی فرماتے ہیں: جاننا چاہئے کہ قرآن کے مطالعہ کرنے والے کو نہ معنی وحی کا فہم حاصل ہوسکتاہے‘ نہ اس کے اسرار اس پر کھل سکتے ہیں‘ جب کہ اس کے قلب مـیں بدعت‘ کبر‘ ہویٰ یـا حب دنیـا ہو‘ یـا وہ گناہ پر مصر ہو یـا وہ ایمان کے کمال سے محروم ہو‘ یـای ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو بے چارہ علم سے عاری ہے یـا اپنے عقلی سودا کی طرف رجوع کرے‘ یہ تمام امور فہمِ قرآن سے حجاب اور مانع ہیں ․․․․․․“۔
قرآن وسنت کا باہمـی تطابق کیـا ہے؟ اور قرآن فہمـی کے لئے معلم قرآن ا سے امت کا احتیـاجی رشتہ کیـا ہے؟
ان امور پر افسوس ہے کہ اس مضمون مـیں بحث ممکن نہیں‘ اس لئے مـیں حضرت ابوبکر صدیق  کے ان ہی ”چند تفسیری اصول“ پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں‘ چونکہ یہ تمام ”صدیقی ذوق“ ہی کو سمجھانے کے لئے مـیں نے اپنی استطاعت صرف کی ہے‘ اس لئے آخر مـیں دعا کرتاہوں کہ اگر اس نادان سے کوئی صحیح بات بن پڑی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے‘ حق تعالیٰ اس کو نافع بنائے‘ اور اگر مجھ سے فہم وبیـان مـیں غلطی ہوئی ہے‘ تو حق تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں ۔
==================

حقیقت_تاویل و تفسیر_باطل

ہدایت، اللہ کے قبضہٴ قدرت مـیں ہے، قرآن کریم کا ہرہرحرف منزل من اللہ ہے اس مـیںی آیت و لفظ مـیںی قسم کے شبہ کی گنجائش ہے: قال تعالیٰ: "ذٰلِکَ الکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ" اور یہ قرآن کریم اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ قال تعالیٰ: "ھُدًی لّلْمُتَّقِیْنَ" (الآیة) ورنہ بہت سے فاسق لوگ اس کی وجہ سے گمراہی مـیں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قال تعالیٰ: اس (قرآنی مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو [البقرہ:٢٦]

ظاہری اسباب کے تحتی سے مدد مانگنا شرک نہیں، شرک توی کو غائبانہ (دوری سے) عادتاً مافوق الاسباب (ظاہری اسباب سے بالا) مدد کے لئے پکارنا ہے.

:١) الله کے سوای*غیر-الله*سے مدد لینا

اے ایمان والو! *صبر* اور *نماز*(کے وسیلے)*سے*(الله کی) مدد لیـا کرو بےشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. حروف معجم وخواص آن [البقرہ:١٥٣]

سوال = تو کیـا اس آیت کو اس طرحی نے مان-کر *نماز* اور *صبر* کو مدد کے لئے پکارا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان نیک اعمال کو الله کی مدد کا وسیلہ/زریعہ بنایـا.
==============================
٢)اولیـاء کو مدد کے لئے پکارنے کا وسیلہ بنانا:

اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے (کے لئے تقویٰ-نیک اعمال) کا*وسیلہ* تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے مـیں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو.[المائدہ:٣٥]

یہاں وسیلہ کی تفسیر*تقویٰ اور نیکی* ہے، اور مدد کے لئے نیک-بندوں/اولیـاء کو پکارنے کو*وسیلہ* مشرکین_مکّہ بناتے تھے.(اسرا / بنی اسرائیل:٥٧
=====================================
?٣) الله کی عطا سے نبی علیہ السلام بھی *مشکل-کشا* ہیں

...اور مـیں(حضرت عيسى علیہ السلام) اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور جلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے...[آل-عمران:٤٩

الله نے قرآن مـیں تو یہ بھی فرمایـا ہے:

اور جب کہے گا اللہ اے عیسٰی مریم کے بیٹے! کیـا تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور مـیری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے, کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر مـیں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہو گا تو جانتا ہے جو مـیرے جی مـیں ہے اور مـیں نہیں جانتا جو تیرے جی مـیں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کامـیں نے کچھ نہیں کہا انکو مگر جو تو نے حکم کیـا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے مـیرا اور تمہارا اور مـیں ان سے خبردار تھا جب تک ان مـیں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیـا تو تو ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی اور تو ہر چیز سے خبردار ہے [المائدہ:١١٦-١١٧]

غائبانہ-دوری سے مدد کے لئےی کو پکارنا عبادت ہے:

اور کہتا ہے تمہارا رب مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بیشک جو لوگ تکبر کرتے ہیں مـیری*عبادت*سے اب داخل ہوں گے دوزخ مـیں ذلیل ہو کر. [الغافر:٦٠]
=====================================
٤) الله کے نبی (حضرت سلیمان)علیہ السلام بھی*گنج بخش*ہیں

پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیر_فرمان کردیـا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی. اَور دیووں کو بھی (ان کے زیرفرمان کیـا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے. اور اَوروں کو بھی جو زنجیروں مـیں جکڑے ہوئے تھے. (ہم نے کہا) یہ ہماری بخشش ہے (چاہو) تو احسان کرو یـا (چاہو تو) رکھ چھوڑو (تم سے) کچھ حساب نہیں ہے.[ص: ٣٦-٣٩

تو ہمارے نبی صلے الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہ نے الله کے سوا/ساتھ ,ان نبیوں/ولیوں سے (عیسایوں اور مشرکوں کی طرح) ان کے جانے کے بعد کبھی غائبانہ-دوری سے مدد کیوں نا مانگی؟ اور کیـا ان سے زیـادہ قرآن کی سمجھ آپ کو ہے؟
=================================
امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم شرک نہیں کر سکتی؟

الحديث رقم 39 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401، وفي کتاب : الرقاق، باب : مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيها، 5 / 2361، الرقم : 6061، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296 وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153.]

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایـا : بے شک مـیں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! مـیں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمـین کے خزانوں کی کنجیـاں (یـا فرمایـا : زمـین کی کنجیـاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ مـیرے بعد"تم"(صحابہ رضی الله عنہ کی جماعت)شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیـا کی محبت مـیں مبتلا ہو جاؤ گے۔ ‘‘(الله تعالیٰ نے اس سے بھی ان کو محفوظ رکھا اور ان کی اتباع پر اپنی رضا اور جنّت جیسی عظیم کامـیابی کا فرمان جاری فرمایـا=القرآن؛التوبہ:١٠٠)]

اس مذکورہ بالا حدیث مـیں صحابہ رضی الله عنھم کو خطاب ہے جن سے الله نے ان کی حفاظت فرمائی، اور مندرجہ ذیل احادیث سے امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم مـیں شرک پر عمل-پیرا ہونے کا ثبوت ملتا ہے:

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 101 ,فتنوں کا بیـان : جب تک کذاب نہ نکلیں قیـامت قائم نہیں ہو گی, حدیث مرفوع 

مکررات14

قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابة، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایـا قیـامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مـیری امت کے کئی قبائل مشرکین کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے اور بتوں کی پوجا نہیں کریں گے پھر فرمایـا مـیری امت مـیں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مـیں خاتم النبیین ہوں مـیرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ حدیث صحیح ہے]

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ,859 فتنوں کا بیـان : حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14

سلیمان بن حرب، محمد بن عیسی، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابہ، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو آزاد کردہ غلام ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایـا اللہ نے زمـین کو مـیرے لیے سمـیٹ دیـا یـا یوں فرمایـا کہ مـیرے پرودگار نے مـیرے لیے زمـین کو سکیڑ دیـا بعد مجھے زمـین کے مشارق ومغا رب دکھائے گئے اور بیشک مـیری امت کی سلطنت عنقریب وہاں تک پہنچیجہاں تک مـیرے لیے زمـین کو سمـیٹا گیـا اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید دیے گئے اور بیشک مـیں نے اپنی پروردگار سے اپنی امت کے لیے یہ سوال کیـا کہ انہیںی عام قحط سے ہلاک نہ کیجیے اور نہ ان کے اوپر ان کے علاوہ کوئی غیر دشمن مسلط کردے کہ وہ ان کو جڑ سے ختم کردے۔ اور بیشک مـیرے پروردگار نے مجھ سے فرمایـا کہ اے محمد۔ بیشک مـیں جب فیصلہ کرتا ہوں تو پھر وہ رد نہیں ہوتا اور مـیں انہیںی عام قحط سے ہلاک نہیں کروں اور نہ ہی ان پر کوئی غیر دشمن مسلط کروں اگرچہ سارا کرہ ارض سے ان پر دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوجائیں یہاں تک کہ مسلمانوں مـیں سے آپس مـیں ہی بعض بعض کو ہلاک کردیں گے اور بعض بعض کو قید کردیں گے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایـا کہ بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (مذہبی رہنماؤں) کا ڈر ہے اور جب مـیری امت مـیں تلوار رکھ دی جائےتو قیـامت تک نہیں اٹھائی جائےاور قیـامت اس دن تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مـیری امت کے بعض قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور یہاں تک کہ مـیری امت کے بعض قبائل بتوں کی عبادت کریں اور بیشک مـیری امت مـیں تیس کذاب ہوں گے جن مـیں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور مـیں خاتم النبین ہوں مـیرے بعد کوئی نبی نہیں اور مـیری امت مـیں سے ایک طائفہ ہمـیشہ حق پر رہےابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ حق پر غالب رہےاور ان کے مخالفین انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے۔][سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 832 حدیث مرفوع مکررات 14 ہشام بن عمار، محمد بن شعیب بن شابور، سعید بن بشیر، قتادہ، ابوقلابہ، عبداللہ بن زید، ابواسماء، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایـا زمـین مـیرے لئے سمـیٹ دی گئی یہاں تک کہ مـیں نے زمـین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیـا اور مجھے دونوں خزانے (یـا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے کہا گیـا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہوگی جہاں تک تمہارے لئے زمـین سمـیٹی گئی اور مـیں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ مـیری امت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ مـیری امت فرقوں اور گروہوں مـیں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں) مجھے ارشاد ہوا کہ جب مـیں (اللہ تعالی) کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا مـیں تمہاری امت پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس مـیں سب یـا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو جائیں اور مـیں تمہاری امت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس مـیں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور جب مـیری امت مـیں تلوار چلےتو قیـامت تک رکےنہیں اور مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیـادہ خوف گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ہے اور عنقریب مـیری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی مـیں) مشرکوں سے جا ملیں گے اور قیـامت کے قریب تقریبا جھوٹے اور دجال ہوں گے ان مـیں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور مـیری امت مـیں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ان کی مدد ہوتی رہے(منجانب اللہ) کہ ان کے مخالف ان کا نقصان نہ کر سکیں گے (کہ بالکل ہی ختم کر دیں عارضی شکست اس کے منافی نہیں) یہاں تک کہ قیـامت آجائے امام ابوالحسن (تلمـیذ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ جب امام ابن ماجہ اس حدیث کو بیـان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایـا یہ حدیث کتنی ہولناک ہے][مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے:-سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1085 حدیث مرفوع مکررات 2 38 - زہد کا بیـان : (243)ریـا اور شہرت کا بیـان ۔محمد بن خلف عسقلانی، رواد بن جراح، عامر بن عبداللہ ، حسن بن ذکوان، عبادہ بن نسی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایـا سب سے زیـادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے مـیں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یـا چاند یـا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے غیر کے لئے اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔]

نبی کریم صلے الله علیہ وسلم پر بھی عیسایوں کی طرح غلو (حد سے گذرنا):
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ...اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے مـیں حد سے نہ گزر جاؤ...[القرآن=النساء:١٧١]اس کی تفسیر_ابن_کثیر مـیں حدیث_بخاری = حمـیدی سفیـان زہری عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایـا کہ مـیں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مـیں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ (عیسایوں) "نے "عیسیٰ بن مریم" کو بڑھایـا ہے مـیں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 676 (3445) حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 9 43 - انبیـاء علیہم السلام کا بیـان : (585)



تاریخ تفسیر ومفسرین
عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرعہد حاضر تک قرآن کریم کی ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کےمتعدد پہلوؤں پر علمـی و تحقیقی کام موجود ہے۔ مثلاً اسباب نزول، مسائل فقہیہ اور امثال قرآنی جیسی ابحاث پر مستقل تصانیف لکھی گئیں۔ مسلمانوں نے قرآن کریم کے اسرار و نکات معلوم کرنے کے لیے بہت سی مساعی انجام دی ہیں لیکن قرآن کریم کی وسعت و جامعیت کے سامنے مساعی کرنے والے کا عجز و تقصیر کااعتراف کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ اب تک اردو زبان مـیں ایسی کوئی جامع کتاب موجود نہیں تھی جس سے علم تفسیر کی مفصل تاریخ اورمفسرین کرام کی جہود و مساعی کا تفصیلی علم ہو سکے۔ پروفیسر غلام احمد حریری نے زیر نظر کتاب کی صورت مـیں بہت حد تک اس کمـی کو پورا کر دیـا ہے۔ اس کتاب کا اہم ماخذ و مصدر علامہ محمد حسین الذہبی کی کتاب ’التفسیر والمفسرون‘ ہے۔ کتاب کی اساس اکثر و بیشتر اسی کتاب پر رکھی گئی ہے۔ اس کے غیر ضروری مواد کو حذف کر کے دیگر کتب سے مفید معلومات کا اضافہ کر دیـا گیـا ہے۔ اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے یہ کتاب اردو زبان مـیں ایک جامع اور ہمہ گیر تالیف کی صورت مـیں سامنے آئی ہے۔




[ہدایت : : علم القرآن و التفسیر حروف معجم وخواص آن]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Fri, 13 Jul 2018 07:56:00 +0000